نظیر اکبر آبادی اٹھارویں صدی کے وسط میں پیدا ہوۓ ۔۔ساری عمر اگرہ اور اس کے گرد و نواح میں ایک پیشہ ور معلم کے طور پر زندگی گزاری ۔۔۔آگرہ میں 1830 میں انتقال کر گئے ۔۔نظیر اکبر آبادی کے بارے میں متضاد قسم کی آرا ملتی تھیں ۔۔قدیم نقادوں نے ان کو شاعر ہی تسلیم کرنے سے انکار کیا جبکہ جدید نقادوں نے ان کو یکایک بلند مقام پر بٹھا دیا ۔۔۔نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے ۔۔بہرحال اب تقریبا تمام نقاد نظیر کی عوامی شاعری کے معترف ہمعلوم ہوتے ہیں ۔۔اور یہی نظیر کی عظمت کی دلیل ہے ۔۔
یہ درست بات ہے کہ نظیر نے غزل کے دور میں نظم کی اہمیت کو محسوس کیا ۔۔آج غزل کے بجاے نظم زیادہ محبوب صنف شاعری خیال کی جاتی ہے ۔۔اس طرح ذریعہ اظہار اور طریقہ ابلاغ کے اعتبار سے نظیر دور جدید کا شاعر معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔نظیر زندگی کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور زندگی کے حقایق سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔۔ان کی شاعری میں ایسے اشارے موجود ہیں ۔۔جہاں وہ خوب سے خوب تر کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔نظیر نے جس بے باکی اور دلیری سے اس دور کی زندگی کے مسائل کو بے نقاب کیا ، شاید اور لوگوں میں اس زندگی کے آشوب سے آنکھیں ملانے کی ہمت ختم ہو چکی تھی ۔۔۔ایک زمانے تک ان کی شاعری کو پست سمجھا جاتا رہا مگر بیسویں صدی کی عوامی تحریکوں نے نظیر کو پھر سے زندہ کیا اور ان کا مقام اور مرتبہ تاریخ ادب کے اوراق میں متعين کیا ۔۔۔
نظیر کی فنی خوبیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی شاعری کے منظر اور پس منظر کو پہلے صحیح انداز سے سمجھے اور اس عہد کے تاریخی معاشی و سماجی محرکات کا مطالعہ کریں ۔۔
سترہویں صدی کے جاگیردارانہ نظام اپنی حدوں کے اندر ترقی کرتا رہا اور گھریلو دستکاری کو عروج حاصل ہوتا رہا ۔وہی پیشہ اور نسبتاً پرسکون زندگی بسر کرتے رہے ۔طاقتور حکمرانوں کے نیچے کھیتی کرنے والے معمولی معمولی تبدیلیوں کے باوجود ایک طرح کی خاموش زندگی گزارتے رہے ۔پیداوار کا زرعی نظام جس پر معاشی زندگی کا انحصار تھا وہ جو موت کی منزل میں تھا۔ اگر کچھ تبدیلی ہوتی تھی تو بادشاہوں اور امیروں کے یہاں اور عام لوگوں کے یہاں ان کا اظہار ہلکے پھلکے مذہبی اور اخلاقی رجحانات میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن اٹھارویں صدی کے وسط سے نئی یورپی طاقتوں کی دخل اندازی اور استحصال کی وجہ سے ملک کے بعض علاقوں میں صورتحال بدل رہی تھی وہ اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے شمالی ہند پر بھی اثر انداز ہوئی ۔۔جاگیرداری نظام کی عدم موجودگی نے ایک عجیب سی صورتحال پیدا کرتی تھی یہاں کی صعنت و تجارت اور زراعت سب آہستہ آہستہ تباہی کے گڑھے میں گر رہی تھی اور معاشی دہی نظام تتربتر ہو رہا تھا جس نے صدیوں سے عوام کو مختلف پیشے اور فن کے ساتھ باندھ رکھا تھا ۔۔بادشاہتوں کی تبدیلیاں ،فوجی مہم آزماؤں کی معرکہ آرائیاں اکثر اس نظام کو توڑ دیتی تھی لیکن پھر وہ ایک ہو جاتے تھے۔فن کے مختلف پیشہ اور کسان مل جل کر پھر ایک پنچایتی خود کفالتی کی زندگی کا ڈھانچہ کھڑا کر دیتے تھے ۔۔ اب جو انقلابی تبدیلیاں ہوئی تھی عوام اس کے اثرات سے بے خبر تھے اور پچھلے ہی دنوں کی طرح قدیم روایت کو سینے سے چمٹاے ہوئے تھے ۔انہوں نے جاگیر داروں اور امیروں کی عزت کرنا سیکھا تھا ۔۔ اب ان کی حالت ابتر ہوتی جا رہی تھی لیکن ان کے ہاں یہ روایت چلی جا رہی تھی ۔۔اردو داستان کی دولت انگلستان پہنچ کر وہاں صنعتی انقلاب کا سبب بن رہی تھی اور ہندوستان اپنے خیال میں صرف اپنی تقدیر کا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔بادشاہ کئی علاقوں کو چھوڑ کر ہر جگہ لوگ ان تبدیلیوں سے بے خبر تھے جس کی رسائی اپنے عوام کے دلوں تک تھی ۔
نظیر اکبر آبادی کی پیدائش اٹھارویں صدی کے وسط میں ہوئی ساری عمر آگرہ اور اس کے گرد و نواح میں ایک پیشاور معلم کی حیثیت سے گزاریں ان کی زندگی میں آ کر وہاں کے پیشہ وروں کو وہاں کے تربوز ککڑی اور اور کورے برتنوں کو مختصر یہ کہ وہاں کے کمزوروں کو ایک ہاتھ جگہ بھی حاصل نہ تھی ۔۔یہ اگر اپنی روایتوں کے لحاظ سے کرشن کنیہا ،اکبر ،شاہجہان اور سورماؤں کا اگرہ ہے ۔حاشیہ سے وہ زوال پذیر شہر ہے جس میں افلاس، بےکاری بے روزگاری اور پیشہ وروں کی بد حالی کا زور ہے ۔۔جو ایک طرف تو مغل حکومت کا حصہ ہے دوسری طرف برطانوی استحصال کا شکار رہا ہے ،دو عملی کی اس کیفیت کو سمجھنے اور دیکھنے والی آنکھیں اس وقت موجود نہیں تھیں لیکن ان کے نتیجے میں جو اثر عام زندگی پر پڑ رہا تھا اور خارجی حالات کی وجہ سے جو داخلیت پر ہو رہی تھی اس کی پرچھائیاں شعر و ادب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔۔اس وقت کے شعرا کو جاگیرداری نظام کی چولیں ہلا نے کا اندازہ نہ ہوا لیکن وہ اس عام بے دلی کا شکار ضرور تھے۔۔بے دلی کی۔ کیفیت زوال پذیر زمانے میں پیدا ہو رہی تھی ۔۔یہاں تک کہ نظیر اکبر آبادی اپنی ساری شاعری میں کہیں واضح طور پر بدلتے ہوئے حالات کی مادی توضیح پیش نہ کر سکے ۔۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نظیر کے عوام پر دائرہ وسیع ہے۔۔اس میں مبہم طریقے پر ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ۔۔جنہیں اس وقت تک اور نظیر کے بعد بہت دیر تک شعر و ادب میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن نظیر کی عوامی شاعری نے انہیں بھی اس صف میں بٹھا دیا ۔۔۔جس میں بادشاہ ،امرا ، وزرا اور مذہبی بزرگ بٹھائے
جاتے تھے۔۔
نظیر نے پہلی دفعہ عوام کو موضوع شعر کا مستحق سمجھا اور ان کی زندگی کو معہ ان کی سادگی اور نقائص کے پیش کرکے ان کی انسانیت کو نمایاں کیا ۔۔ان کے خیال۔ میں ان کے عوام جمہوریت پسند اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جو جاگیرداری نظام کے زوال پزیری میں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں ، تفریحوں ،اور غموں کے ساتھ قسمت پر شاکر ہیں، جو زندہ اور متحرک ہیں ۔۔لیکن جنھیں آگے بڑھنے کا راستہ یا اپنی منزل نہیں معلوم ۔۔۔۔۔یہ اس عہد کے شعور کا نقص تھا ۔۔ورنہ جو شاعر آٹے ، دال اور روٹیوں کی مادی اہمیت سے واقف ہے ۔۔وہ بے روزگاری ،مفلسی اور بھوک کے بعد ان کے حاصل کرنے کی جدوجہد کا ذکر نہ کر سکے یہ بظاہر تعجب کی بات معلوم ہوتی ہے ۔۔۔
گو انیسویں صدی کی ابتدا میں شمالی ہند کا بڑا حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے استحصال کا نشانہ بن چکا تھا لیکن عوام اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے ۔۔یہی نہیں بلکہ خود وہ طبقہ جو مٹنے کے قریب تھا اور سات سمندر پار جس کی موت کا محضر پیار ہو رہا تھا وہ اس طوفان سے ناواقف تھے وہاں سے ختم کرنے کے لیے اٹھ رہا تھا ۔۔۔وہ وقتی طور پر نظر آ رہی تھی لیکن ان کے سامنے بھی ترقی کا راستہ نہیں تھا ۔۔مرہٹے ،سکھ، جاٹ ، نظام اور دوسرے عناصر آپس میں دست و گریبان بھی تھے اور کسی محاذ پر ایس انڈیا کمپنی کا مقابلہ کرکے اپنے جاگیر دارانہ نظام کو بچانا بھی چاہتے تھے ۔۔ااور زرعی پیداوار میں دوسروں کا آہستہ آہستہ قبضہ ہوتا چلا گیا ناممکن تھا کہ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے اسے روکا جا سکے ۔۔عام سیاسی پستی اقتصادی بدحالی غیر منظم اور غیر ترقی پذیر دیہی معیشت کی وجہ سے مستقبل مایوس کن معلوم ہوتا تھا ۔۔۔۔اور نظیر اکبر آبادی کی شاعری بھی زندگی کی بے ثباتی اور موت کے پیام سے بھری ہوئی ہے ۔۔ان کی نگاہ خارجی حقائق پر ہے ۔۔تبدیلیوں پر ہے لیکن ان کے اسباب اور نتائج پر نہیں ہے تاہم ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ اس میں سچی حقیقت کے ساتھ ساتھ انسان کی عظمت اور محبت ،انصاف اور مساوات کا احساس بھی ہے ۔۔یہی وہ اثباتی پہلو ہے جو نظیر کی شاعری کو محض ایک جماعت کی شاعری بنا کر نہیں چھوڑ دیتا ۔۔
نظیر اکبر آبادی کا طبقاتی احساس مکمل طور پر نچلے طبقے کا احساس نہیں ہے کیونکہ اس میں ٹوٹنے والے طبقوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ نہیں ملتا ۔لیکن عوام کی زندگی سے دلچسپی اور ان کے مسائل پر انہی کے نقطہ نگاہ سے دور کرنے کی کوشش کے لب و لہجہ میں ان کے دکھ کا ذکر اور ان سے بے پایاں خلوص کچھ کم قیمتی ادبی ورثہ نہیں ہے جو نظیر چھوڑ گئے ہیں ۔۔
جس طرح نظیر اکبر آبادی کی شاعری کسی مکتبہ خیال سے باقاعدہ اور روایتی انداز میں وابستہ نہ تھی اسی طرح وہ خود بھی کسی مخصوص طبقہ سے کلیتاً وابستہ نہیں تھے ۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی طبقہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنی ذہنی افتاد اسی ہمدردی اور عام لوگوں کے ساتھ رکھنے کی وجہ سے وہ محض اپنے طبقہ میں متوسط طبقے کے نقطہ نظر میں محدود نہ تھے بلکہ اپنا شمار شاعروں میں کرکے وہ ان عناصر کے ترجمان بن گئے تھے جو اس وقت تک شاعری میں جگہ نہ پا سکے تھے ۔۔ان کی شاعری میں سوچیں اتنی جگہ پاتی ہیں کہ ان کے خیالوں کی بنیاد کا پتہ چل جاتا ہے یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ ان کے یہاں روایتی انداز کی شاعری یا قدیم روایت سے محبت نہیں ملتی ۔۔لیکن یہ ضرور ایک اہم حقیقت ہے کہ انہوں نے محض درباروں کی مریضانہ اور محدود فضا کو توڑ دیا اور حقیقت کو جس طرح دیکھا اسی طرح بیان کر دیا ۔۔یہ صحیح ہے کہ ان کے پاس ادراک حقیقت کا غیر معمولی فلسفہ تھا ان کے تصور کی بنیاد کسی علمی اصول کی بنا تھی تاہم ان کی انسان دوستی ان کی ٹھیک رہنمائی کر رہی تھی ۔۔۔
نظیر اکبر آبادی کو سیاسی مفکر ماہرمعاشیات یا معاشرتی مسئلہ ہے سوشل فارمر نہیں تھے کہ وہ اپنے ماحول کے عبرت انگیز حالات کو دیکھ کر وہ کوئی راہ نجات ، راہ عمل عام لوگوں کے سامنے پیش کرتے ۔ناکہ اس زمانے میں ملکی اور قومی مفاد کے لیے کوئی ایسی نہ کوئی تحریک ہی موجود تھی جو نظیر کی افکار و اشعار سے فائدہ اٹھاتی ۔۔یہ دور افراتفریح انتشار پسندی اور نفسی نفسی سے عبارت تھا ملکی مفاد یا اجتماعی فلاح و بہبود پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی تھی ۔۔ہر فرد بشر اپنے اپنے حال میں سرگرداں تھا ۔۔طوائف الملوکی نے ملک میں کوئی مرکزی نظام حکومت قائم نہ رہنے دیا تھا نواب اور راج واڑ سے اپنی اپنی ریاستوں جاگیروں اور ملکی قوتوں کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو رہے تھے اور اپنے اپنے تحفظ و بقا کے لئے ایک غیر ملکی طاقت کے سامنے سر جھکا ئے چلے جاتے تھے ۔۔۔ملک ایک بحرانی دور سے گزر رہا تھا جس میں زندگی کی لہر قدر تہ و بالا ہو رہی تھی ۔۔۔پرانی قدریں قصہ پارینہ بن چکی تھیں ۔۔ ان میں اقدار حیات نے ابھی جنم نہیں لیا تھا ۔۔ملک کی سیاسی و عمرانی زندگی تذبذب اور گومگو کی حالت میں تھی ۔۔فنا اور بے ثباتی کا احساس اسی وجہ سے معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا ۔۔۔
نظیر اکبر آبادی کی اکثر نظموں میں زندگی اور زندہ دلی کا بے پایاں جذبہ ملتا ہے مگر ایسی نظموں کی بھی کمی نہیں جن میں موت ،فنا اور بے ثباتی اور ناپائیداری کا الم انگیز احساس ان جذبات پر غالب آ جاتا ہے ۔۔ممکن ہے تضاد نظیر کی طویل زندگی کی مختلف ادوار کے رنگارنگ احساسات کا نتیجہ ہو ،لیکن یہی تعداد ہندوستانی معاشرے میں بھی موجود تھی ۔۔اور شاید ہمیشہ سے موجود رہا ہوں یہاں شادی اور غم پہلو بہ پہلو ملتے ہیں ۔۔نظیر اکبر آبادی کے عہد میں بھی ایک طرف سیاسی حالات کی ابتری تھی ۔امن و امان کے فقدان نے لوگوں کی زندگی کو تلخ تر بنا رکھا تھا ۔۔ اور دوسری جانب خوشی کا کوئی ایک لمحہ اور روشنی کی کوئی ایک کرن بھی اگر کہیں سے تاریک فضا میں میسر آ جاتی تھی تو ہندوستانی عوام اسے ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔خوشی و مسرت کے یہ ہمہ گیر مواقع ہندوستان کے مختلف موسمی اور مذہبی تہوار تھے ۔ جن کو عوام الناس بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے اور چند لمحوں کے لئے گرد و پیش کے سارے دکھوں اور غموں کو بھول جاتے تھے نظیر نے بھی ان عوامی تہواروں کو خواہ وہ ہندووں کے ہوں یا مسلمانوں کو اسی رنگ میں لیا ہے اور معاشرتی زندگی کے اس نشاط انگیز پہلو کی عکاسی کرتے ہیں ابھی عوام کی بہت سی حالتوں کو بیان کیا ہے۔۔ نظیر ہندوستانی معاشرے کے ایک ایسے رکن تھے جنہوں نے عام استماع انسانی میں گول مول کر بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا نظیر کی شاعری اور ان کی زندگی کا کینوس خاصا وسیع ہے ۔۔نظیر نے انسانوں میں رہ کر ان کی ذہنی کیفیتوں اور جذباتی حالتوں کا مشاہدہ کیا ہے اور انہیں بغیر تصنع اور بناوٹ کے سب کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔۔اور زبان بھی کم و بیش عام بول چال ہی کی استعمال کی ہے ۔۔اس واقفیت کو حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری میں نظیر کو یہاں قدیم اشرافی زاویہ نگاہ سے عامیانہ و سوقیانہ قرار دے دیا وہاں تنقید جدید کی بارگاہ میں انھیں مستحق فضیلت گردانا گیا ۔۔ہر صورت ہمارے نقطہ نظر سے نظیر اپنے عہد کی عمومی زندگی کے ایک بے لاگ ترجمان تھے جنہوں نے انسان اور اس کی معاشرت کو اپنا موضوع خاص بنایا ۔۔
نظیر کا کلام پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود عوام میں سے اٹھے تھے اور انہی کے دکھ درد، ہنسی خوشی افکار و تاثرات میں شریک رہے ۔۔اگرچہ نظیر کے موضوعات شاعری بدلتے رہے لیکن ہر حالت میں ایک طرح کی صداقت ان کی شاعری کے لفظوں سے نمایاں ہوتی رہی ۔۔ان کا انسانی ہمدردی کا مسلک کبھی نہیں بدلا ۔۔انہوں نے زندگی سے کبھی اپنا رشتہ نہیں توڑا، انہوں نے عوام کو کبھی نظر انداز نہیں کیا ۔۔ہر حال میں ان کی نظر اتنی وزیر ہیں کہ اس میں ہندو مسلمان سکھ امیر غریب اور پیشہ ور سب سما سکتے ہیں ۔۔عوام کی زندگی ویسے تو دکھ درد کا مقصد ہوتی ہے لیکن اپنی بنیاد میں بڑی طاقت رکھتی ہے ان کی امنگوں کے چشمے کبھی نہیں سوکھتے ۔۔۔سلطنت تباہ ہوتی ہیں ۔خاندان بدلتی ہیں لیکن عوام اپنی راہ چلتے رہتے ہیں وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوتے نظیر نے انہی کی امید سے اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا ہے۔۔
حقیقت ہے کہ پہلے کوئی چیز عوام کے نقطہ نظر سے سوتی ہیں نہ جاتی تھی مگر نذیر اپنے ماحول کی وجہ سے ہولی، برسات ،عید، شب برات، دیوالی ، اندھیری رات اور دوسرے مواقع پر ان کا اظہار کیے بغیر رہتے تھے ۔۔۔۔
نظیر نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے تو عوام ہی نے نظیر کو زندہ رکھا ۔۔۔۔۔۔اگر فقیروں اور غداروں نے اور معمولی پڑھے لکھے لوگوں نے ان کے بنجارہ نامہ، آدمی نامہ اور دوسری نظموں کو یاد نہ رکھا ہوتا ان کے موضوعات کی فہرست ہی پر ایک نظر اس بات کو اچھی طرح واضح کرتی ہے بینظیر انسان اور انسانی متعلقات میں سے ان معمولی چیزوں کو نظرانداز نہیں کرتے تھے جنھیں بڑے بڑے شعرا دیکھتے ہی نہ تھے یا محسوس ہی نہ کرتے تھے ۔۔۔ تو اس پر لکھنا شاعری کے جوہر کو غلط استعمال کرنے کے برابر جانتے تھے آٹا، دال، پیسہ ،کوڑی، جھونپڑا ، تلاش زر، ہولی، مفلسی، روٹیوں کی تعریف، بنجارہ نامہ، آدمی نامہ اور ایسی ہی دوسری چیزیں ان کا پسندیدہ موضوع تھیں ۔کیونکہ نظیر غریبوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ۔۔مسلمانوں کے اس اور ہندوؤں کے میلوں میں شریک ھوتے تھے ۔۔عید اور شب برات کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی سے بھی ایک سچے ھندوستانی کی طرح لطف اٹھاتے تھے ۔۔۔۔۔اگر انہوں نے مسلمانوں کے خیال کے ان سے اجرت یا کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت عباس اور سلیم چشتی پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ہندوؤں کے خیال سے اپنی شاعری کا زیادہ حصہ بھگت شاعروں کی طرح سری کرشن جی کے لیے وقف کر دیا ۔۔۔ہولی کی خوشی کا جو بہترین مادی مصرف ہو سکتا ہے ۔اس کا ذکر نہ صرف امرا کے نقطہ نظر سے کیا بلکہ عوام کو بھی یاد رکھا ۔ وہ انھیں کسی حالت میں نہ بھولتے تھے ۔۔۔۔۔اور سماج کی اس تضادی کیفیت کا ذکر ضرور کرتے تھے ۔۔جس سے طبقات کا ذکر پوری طرح نمایاں ہوتا ہے ۔۔
نظیر کی شاعری میں انسان ایک زندہ اور متحرک احساس اور مادی اسباب سے مسرور ہو جانے والی مخلوق کی شکل میں آتا ہے ۔۔۔۔ "آدمی نامہ" میں انہوں نے مفلس عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی ہے یہاں ہر شخص آدمی ہونے کی حیثیت سے ایک ہی کشتی کے سوار نظر آتا ہے ۔۔انسان کی عظمت کے سامنے طبقات کے تفوق اور پستی کا سر جھکنا ہے ۔۔۔۔۔ہر وہ شخص جو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہوا ہے وہ "آدمی" ہے ۔اور احساس کی تفسیر نظیر کے بہت سے خیالات میں ہوتی ہے ۔۔مجموعی حثیت سے آدمی نامہ میں نذیر نے اپنے خالص بیانیہ انداز میں طرح طرح سے یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اشراف اور کمین سے لے کر شاہ تا وزیر ہر شخص" آدمی" ہے ۔۔خیال عوام کے دلوں میں نہ جانے کون سی آگ بھڑکا سکتا تھا ظالمانہ طبقاتی اور سیاسی شعور کا نہ تھا تقدیر پرستی نے ان باتوں یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا ۔۔یہ بند
ملاحظہ ہوں ۔۔
دنیا میں بادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زر دار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
بیٹھے ہیں آدمی ہی دکانیں لگا لگا جا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں رکھ سر پہ خوانچا
کہتا ہے کوئی لو کوئی کہتا ہے لا ر سے لا
اس طرح سے بیچیں ہیں چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ا شراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آدمی ہی کرتے ہیں سب کام دلپذیر
ہاں آدمی مرید ہے اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہلاتا ہے اے نظیر
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی نار ہے اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے اور آدمی ہی دور
ایسے آدمی کا حسن وہ قبیح میں یاں ظہور
شیطان بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زور
اور ہادی رہنما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نظیر اکبر آبادی کا آدمی نامہ اردو شاعری کا ایک ایسا منشور یا پیغام ہے جو نوح انسانی کی تعمیر و ترقی کے لئے اور بنی آدم کی محبت کے عالمگیر تصور کی رو سے بڑا ہمہ گیر ہے ۔۔بیشتر اقدار حیات مرور ایام کے ساتھ ساتھ بدل سکتی ہے لیکن محبت اور ہمدردی کے انسانی جذبات میں تغیر و تبدل نا ممکن ہے ۔۔ناسازگار حالات میں یہ جذبات عارضی طور پر دب جاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے کچلے نہیں جا سکتے جب تک وہ صفحہ روزگار پر آدمی کا وجود باقی ہے۔۔ بنی آدم کی معاشرت قائم و برقرار رہے گی۔۔اور بنی آدم کی معاشرت کے لئے محبت اور ہمدردی کے جذبات اجزاء کے لاینفک ہیں ۔۔۔۔
نظیر کی شاعری کی ایک امتیازی خصوصیت اس کا مقامی رنگ ہے نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر تھے اور انھوں نے مقامی عوام کی دلچسپیوں میں برابر کا حصہ لیا ہے ان کی نظموں میں صحیح معنوں میں ایک ایسے شخص کی روح نظر آتی ہے جو گہرے طور پر مقامی رنگ کا قائل ہے ۔۔یہ رنگ مختلف نظموں میں نمودار ہوا ہے ۔۔میں رنگ نسل اور مذہب کی کوئی تمیز نہیں ۔۔وہ بالکل غیر متعصب انسان تھے انہیں کسی قسم کا تعصب چھوکر بھی نہیں گیا تھا ۔۔انہوں نے بیک وقت مسلمانوں اور ہندوؤں کے تہواروں پر نظمیں لکھی ہیں ۔۔
مسلمانوں کا تہوار شب برات پر ان کی نظم دیکھیے ، اس میں تفریح کے تمام سامان نظر آتے ہیں ۔کھانے بھی ہیں اور آتش بازی کا روایتی سامان بھی ۔۔۔پٹاخے، پھلجھڑی، ہوائی،سب کچھ اس میں نظر آتا ہے ۔۔
کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چالیک چپاتی حلوے سے ہے بھاری شب برات
زندوں کی زباں کی ہے مزے داری شب برات
مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات
لگتی ہے سب کے دل کو غرض تیاری شب برات
دنیا کی دولت میں جو زر دار ہیں بڑے
قندوں کے حلوے روغنی نانیں نئے گھڑے
پہنچانے خوان پھرتے ہیں نوکر کٹے پڑے
زندہ بھی راہ تکتے ہیں مردے بھی ہیں کھڑے
ان خوبیوں کی رکھتی ہے طیاری شب برات
آ کر کسی کے سر پر چھچھوندر لگی کڑی
اوپر سےاور ہوائی کی آ کر پڑی چھڑی
ہو گئی گلے کا ہار پٹاخے کی ہر لڑی
پانوں سے لپٹی شور مچا کر قلم تڑی
کرتی ہے پھر تو ایسے ہی ستمگاری شب برات
مقامی رنگ کے زمانے میں نظیر کی دو اور نظموں کا ذکر ضروری ہے عیدگاہ ،اکبر آباد کنکوے اور پتنگ ۔۔۔۔۔ان دونوں نظمیں میں آگرہ کا مقامی رنگ ملتا ہے ۔۔عید گاہ کا نقشہ مسلمانوں کے مقدس تہوار اس کی رونق و گہماگہمی کا عکاس ہے اور پتنگ میں آگرہ کی پتنگ بازی کا نقشہ ہے ۔۔اس نظم میں نظیر اکبر آبادی کا فن قابل ذکر ہے انہوں نے پیچھا چھڑانے کے منظر سے لےکر پتنگوں کے ناموں تک خوب ادا کیا ہے ۔۔کنکوے اور پتنگوں کے ناموں تک خوب ادا کیا ہے ۔۔کنکوے اور پتنگوں کے نام دیکھیے ۔۔
للسرا ،لنگوٹیا ،گلیریا، مانگ درا، خربوزیا کلسرا ،کلجکلاہ وغیرہ ۔۔۔نظیر نے پتنگ بازی کا نقشہ اس طرح پیش کر دیا ہے کہ جیسے یہ سارا کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔۔نظیر کے فن کا کمال یہی ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی جزئیات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مرقع تیار ہوجاتا ہے اس مرقع میں ان کی بنائی ہوئی جزیات صاف نظر آتی ہے تصویر روشن صاف اور واضح ہوتی ہے اور اس تصویر میں ہر جگہ نظیر کی منظر کشی کا کمال نظر آنے لگتا ہے ۔۔۔۔
نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی دلآویز نظاروں و قدرتی مناظر کی تصاویر ہیں ان میں سے بیشتر موسم برسات سے متعلق ہیں ۔۔یہ وہ سہانا موسم ہے جب ہمارے ہاں نہ صرف حیات انسان میں تموج اور ابھار ہوتا ہے اور زندگی بے کیف معمولات کے خول سے نکل کر آزادی اور حسرت سے ہمکنار ہوتی ہے کہ حیوانات اور نباتات کی زندگی بھی حسیات تک محدود ہو جاتی ہے۔ہاں کوئی ارفع یا ما فوق الطبقاتی عنصر نہیں اور یہ شاعر کے لیے امر ضروری بھی نہیں ۔۔اگر اشعار میں حرکت اور صوت اور رنگ کی بارش ہے جو تھمتی نظر نہیں آتی ۔۔اس میں ذرا شک نہیں کہ مظاہر فطرت کی ایسی جیتی جاگتی اور رنگین تصاویر اس دور کے شعراء میں آپ کو کہیں اور نظر نہیں آئیں گی ۔۔
انہوں نے قارئین کے لیے 600 غزلیں چھوڑی ہیں۔ اگرچہ ان کی نظموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ قابل تعریف ہیں۔ درحقیقت نظیر اکبر آبادی کی مقبولیت ان کی نظموں کی وجہ سے ہے۔ وہ مکمل طور پر ’’عوامی شاعر‘‘ تھے اور ان کی نظمیں روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان نظموں میں مذہبی اور سماجی تہواروں کے حوالے سے بھی بہت کچھ ملتا ہے اور ان میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی ملتی ہیں جن میں عام آدمی کو ہنستے ہوئے، گاتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے موسموں کے بارے میں بھی لکھا اور حتیٰ کہ ایسے موضوعات پر لکھا جن پر پہلے کبھی نہیں لکھا گیا۔ جیسے روپیہ، روٹیاں، آٹا، دال، پنکھا وغیرہ۔ انہوں نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لکھا۔ اس طرح ہر آدمی کو اس کے مزاج کی نظمیں مل جاتی ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کے ہم عصروں میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر، شیخ قلندر بخش، جرأت، انشااللہ خان انشا اور غلام ہمدانی مصحفی شامل ہیں۔ میر اور سودا کے زمانے میں وہ نوجوان تھے اور ہو سکتا ہے کہ جرأت، انشا اور مصحفی کے دور میں وہ ادھیڑ عمر ہوں۔ اگرچہ جدید نظم کے دور کا کریڈٹ الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کو جاتا ہے لیکن نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر ’’اردو نظم کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا دور ان سے پہلے کا ہے۔۔۔۔
“