1. نظریہِ ارتقا مَحض ایک تھِیوری ہے:
جو لوگ نظریہِ ارتقا کو محض ایک تھیوری سمجھتے ہیں وہ یا تو بہت سادہ ہیں یا سائنس سے ناواقف ہیں کیونکہ سائنس میں تھیوری کا مقام بہت بڑا ہے. جب مشاہدات کے بعد مفروضہ hypothesis بنایا جاتا ہے تو اُسے ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور یہ ہائپوتھیسس پوری سائنٹیفک کمیونئی جانچتی ہے اور یہ تجربات دُہرائے replicate کیے جاتے ہیں اور جب سب ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو تھیوری بہت مضبوط ہوتی ہے اور اس کے صحیح اور سچا ہونے پہ یقین کیا جاتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ وہ ایک fact کی حیثیت رکھتی ہے. اگر پھر بھی اسے تھیوری کہا جائے تو اس کی سچائی پہ کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ صَدیوں پہلے یہ مانا جاتا تھا کہ انسان کا شَریر / جِسم نہیں بلکہ رُوح بیمار ہوتی ہے اس لئے روحانی علاج کیا جاتا تھا مگر پھر بعد میں سائنس نے بتایا کہ جَرثومے بیماری کی وجہ بَنتے ہیں جس کو germ theory کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے میڈیسن انڈسٹری پھیلی، تحقیقات سے دَوائیاں اور ویکسین تیار کیے گئے اور یہی وجہ ہے کہ آج انسانی دنیا سے کافی بیماریاں رُخصت ہوچکی ہیں اور انسان کی عُمومی عُمر بھی بَڑھی ہے.اِس کے علاوہ تھیوری کے fact / حقیقت ہونے کی سائنس میں کئی مثالیں ہیں جیسے سارے جاندار خَلیے cell سے بنے ہیں یعنی cell theory، آئنسٹائن کی theory of relativity وغیرہ.
2. ارتقا اِتفاق / chance سے کیسے ظہور پذیر ہوسکتا ہے:
عموماً لوگ اتفاق کو عَدم سے تعبیر کرتے ہیں کہ کوئی چیز یا واقعہ اپنے آپ سے، عَدم سے یعنی out of nothing کیسے وجود میں آ سکتا ہے. سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اتفاق کی معنی عَدم نہیں بلکہ اتفاق ممکنات کی نشاندہی کرتا ہے اتفاق وہاں ہوتا ہے جہاں پر اُس کے ہونے کے اَسباب موجود ہوتے ہیں. اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زندگی تبھی وجود میں آئی جب اُس کے وجود میں آنے کے لئے ضروری عَناصر یعنی کاربن، نائٹروجن وغیرہ پہلے سے موجود تھے. اب کب، کیسے اور کون سے عناصر نے آپس میں مِل کر زندگی بنانی ہے یہ اتفاق ہے جس کو ممکن بنایا پہلے سے موجود عناصر نے. دوسری مثال یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک ڈَبے میں انگریزی الفابیٹ کے حُروف رکھ کے ڈبے کو بَند کرکے اُس کو ہِلایا جائے تو بہت ممکن ہے کہ ان حُروف سے کوئی نام جیسے فاروق، علی یا عامر ترتیب پاجائے. اب کس کا نام بَن جائے یہ اتفاق کی بات ہے مگر اِس اتفاق کو ممکن بنایا ڈبے میں بَند اُن الفابیٹ کے حُروف نے جو کسی کا نام بننے کے لئے پہلے سے موجود تھے.
3. نظریہِ ارتقا کے ثبوت نہیں ہیں:
سائنس میں کوئی تھیوری سَچ یا fact کا درجہ تب تک حاصل نہیں کرتی جب تک اُس کے پیچھے ٹھوس ثبوت اور شَواہد نہ ہوں. نظریہِ ارتقا کے اتنے ثبوت و شَواہد ہیں کہ شاید کسی اور تھیوری کے نہ ہونگے جن میں سب سے بَڑے ثبوت نیچے دیے گئے ہیں جن کی تفاصیل گوگل کرکے آسانی سے معلوم کی جاسکتی ہیں:
– رکاز / fossil record
– بائیوجیوگرافی / biography
– جسمانی ساخت / Anatomy
– پیٹ میں بچے کی افزائشی مراحل / embryological stages
– اوائلی عُضویات / vestigial organs
– ڈی این اے / genetics
4. اگر نظریہِ ارتقا صحیح ہے تو پھر آج بَندر انسان میں کیوں نہیں تبدیل ہوتے:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ارتقا واقعی ہُوا ہے تو پھر آج بھی بَندر کیوں انسان میں تبدیل نہیں ہوتے. دراصل وہ اِس مُغالطے کا شکار ہیں کہ انسان بَندر کی اولاد ہے یا انسان نے بَندر سے ارتقا کیا ہے مگر اب وہ سِلسلہ رُک گیا ہے. مگر حقیقت بلکل اُس کے بَرعکس ہے کیونکہ انسان کی ارتقا بَندر سے نہیں ہوئی بلکہ بَندر اور انسان دونوں کی ارتقا ایک ایسے جاندار سے ہوئی ہے جو اپنی ساخت اور خَواص کے حوالے سے بندر اور انسان کے مماثل تھا یعنی بندر خاص کر chimpanzee اور انسان کا جَدِ امجد / ancestor مشترک تھا اسی لئے بَندر کو انسان کا cousin یا relative کہا جاتا ہے. جب ہم الگ الگ ہوگئے اور ہماری species ہی جُدا ہوگئیں تو پھر بندر سے بَندر ہی ہوگا اور انسان سے انسان ہی پیدا ہوگا. یہاں نئی اَنواع species بَننے کے عَمل کو سمجھنا ضروری ہے جسے speciation کہا جاتا ہے. فرض کریں کسی جاندار بشمول انسان کے دو بَچے ہیں جو اپنی ساخت اور خَواص میں اپنے ماں باپ جیسے ہیں مگر کسی وجہ سے اُن دو بَچوں میں سے ایک جُدا ہوکر کہیں دُور کسی ایسی جَگہ پہ جاکے بَس جاتا ہے جہاں حالات یا ماحول پہلے والی جگہ سے بہت مختلف ہو. کیونکہ ہرجاندار نے زندہ رہنے کے لئے اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنی ہوتی ہے اور ہر دوسرے یا نئے ماحول کے خَدوخال و اثرات جنہیں environmental stresses / pressures کہا جاتا ہے مختلف ہوتے ہیں سو اُس میں رہنے والے جاندار بھی اپنی بَقا کے لئے ایسا تطابق / adaptations پیدا کرتے ہیں جو وقت گُذرنے کے ساتھ ہزاروں لاکھوں سالوں کے عَرصے میں اُس جاندار میں ذہنی و جسمانی طور پر ایسی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جاندار اپنے پِچھلے آباؤ اجداد سے بلکل مختلف ہوجاتا ہے اور جب اُن دونوں نسلوں کے درمیان اِختلاط یا sexual interaction مشکل بَن جائے تو سمجھ لیں کہ اب دونوں ایک دوسرے سے الگ اَنواع بَن گئی ہیں پھر جو اَنواع جیسی ہونگی ویسے ہی اُن کی نَسل بھی ہوگی جب تک کہ پھر سے کوئی اوپر بیان گیا کیا speciation کا عَمل واقع نہیں ہوتا.
“