آئینے کے آگے کھڑے ہو کر اپنی دائیں آنکھ پر کچھ دیر نظر جمائیں۔ پھر بائیں آنکھ پر۔ کیا اس کے دوران آپ کو آنکھ میں حرکت محسوس ہوئی؟ اسی طرح دائیں سے بائیں کی طرف فوکس بدلتے رہیں۔ کیا اپنی پتلیوں میں کسی قسم کی حرکت محسوس کرتے ہیں؟ اب اپنے دوست کو کہیں کہ وہ اس عمل کے دوران آپ کی آنکھوں کو دیکھے۔ کیا پتلیاں حرکت کر رہی ہیں؟
جو یہ تجربہ فی الحال نہیں کر رہے، ان کے لئے۔ آپ کو آئینے کے آگے کھڑے ہو کر یہ حرکت محسوس نہیں ہو گی جبکہ آپ کا دوست بتائے گا کہ آپ کے پتلیاں مسلسل متحرک تھیں۔
گھڑی کی گھنٹے والی سوئی کو جتنی مرضی دیر دیکھتے رہیں یا اپنے ناخن کو، ناخن بڑھ رہا ہے اور گھڑی کی سوئی گھوم رہی ہے۔ آنکھ اسے محسوس نہیں کر سکتی۔ تیز رفتار یا سست رفتار حرکت ہم اپنی آنکھ سے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ایک تہائی سیکنڈ سے کم میں ہونے والا واقعہ ہم دیکھ ہی نہیں سکتے۔ لیکن تصور کی آنکھ سے آئیں دیکھیں، کہ ہمارے ارد گرد ہو کیا رہا ہے۔
نائیٹروجن کے ایٹموں کا جوڑا آٹھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا کہ سامنے سے دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے آکسیجن کے ایٹموں کے جوڑے سے ٹکرا گیا (نائیٹروجن یا آکسیجن کے ایٹم اکیلے نہیں رہتے)۔ اس کی سمت بدل گئی لیکن اب سامنے سے پانی کے ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے مالیکیول سے ٹکرا گیا ہے۔ ایک سیکنڈ میں یہ بمپر کارز کی طرح اسی طرح یہ دو ارب بار ٹکراتا ہوا گھوم رہا ہے۔ یہ ہوا ہے۔
پانی کے بہت سے مالیکیول آپس میں جڑے ہیں۔ ہائیڈروجن بانڈنگ کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ کوئی بھی سطح پر نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اس سے یہ غیر متوازن ہو جاتا ہے۔ اندر کی طرف آنے کے لئے کشتی جاری ہے۔ اس کی وجہ سے باہر کی سطح پر الاسٹک سا تنا ہوا ہے۔ لیکن گریویٹی اسے نیچے کو کھینچ رہی ہے اور یہ گروہ ایک سیکنڈ میں دو منزلہ عمارت جتنا سفر کر رہا ہے۔ اس دھینگا مشتی میں اس کی شکل کبھی روٹی کی طرح ہو جاتی ہے تو کبھی گیند کی طرح، کبھی پھٹ جاتا ہے تو کبھی واپس جڑ جاتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں شکلیں بدل رہا ہے۔ یہ بارش کے پانی کا قطرہ ہے (اس کی شکل کتاب میں بنے ایک طرف سے گول اور دوسری طرف سے چونچ رکھے قطرے کی طرح ان کروڑوں بار میں سے ایک بار بھی نہ ہوئی ہو گی)۔
اس زمین پر خشکی کے بڑے بڑے ٹکڑے محوِ سفر ہیں۔ کبھی کہیں پہنچ جاتے ہیں، کبھی کہیں اور، ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں، اپنی اور زندگی کی تصویر بدل رہے ہیں۔ یہ زمین کے تیرتے برِاعظم ہیں اور ان کی رفتار ناخن کے بڑھنے کی رفتار جتنی ہے۔
ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے، اس کے بہت چھوٹے سے حصے کا علم ہم اپنی حسیات سے حاصل کر سکتے ہیں لیکن پھر ہم یہ سب کچھ کیسے جان لیتے ہیں؟ طرح طرح کے آلات سے اور پھر علم حاصل کرنے اور بانٹنے کے کچھ طریقوں سے۔ ہم سب کو ہوا یا بارش کے قطرے کے اندر جھانکنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی زمین کی ہلتے برِاعظموں کا جاننے کے لئے ارضیات کا ماہر ہونا ضروری ہے لیکن بہت سے لوگوں کی برسوں کی محنت سے بڑی جلد فائدہ اٹھا کر جان سکنا اور علم حاصل کر لینا، یہ انسانیت کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ اگر جاننے کی لگن ہو تو اب سکول کا طالب علم ان چیزوں کو جان سکتا ہے جو دوسو سال پہلے کے بڑے سے بڑے سائنسدان کے لئے معمہ تھیں۔
یہ آلات ہیں کیا؟ ہماری مدد کرنے کے لئے یہ طرح طرح کے ہیں۔ اس وقت کمپیوٹر وہ آلہ ہے جو دنیا کو سمجھنے میں سب سے زیادہ مدد کر رہا ہے اور اس وقت ہونے والی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ اس کا ہے لیکن ایک بات اس اہم آلے کی جو 1665 میں رابرٹ ہُک نے ایجاد کیا۔ آپ نے شاید فزکس میں لاء آف الاسٹسٹی پڑھا ہو۔ ہُکس لا انہی کا دیا گیا ہے لیکن ہمارے علم میں اضافے کے لئے ان کی کئی شعبوں میں بہت سی خدمات ہیں۔ ان میں سے ایک بہت اہم مائیکروسکوپ ہے۔ اس کی وجہ سے ہم بہت سی چھوٹی چیزوں کی دیکھنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے ایک کتاب مائیکروگرافیا لکھی جس میں قسم قسم کی چیزوں کو دیکھا گیا۔ کارک سے لے کر مکھی کی آنکھ، سفنج، ہماری زبان جیسی چیزوں کو اور پھر اس سے زندگی کے بنیادی یونٹ خلیہ کا پتا لگا۔
اس ٹاپک پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/898742233627647/
رابرٹ ہُک کی لکھی کتاب سے اقتباس
In the collection of most of which I made use of microscopes and some other glasses and instruments that improve the senses… only to promote the use of mechanical helps for the Senses, both in the surveying the already visible World, and for the discovery of many others hitherto unknown
–Micrographia, by Robert Hooke (1665)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔