“رکو۔۔۔ بھئی بہت ہی عجیب کہانی کار ہو۔
تم نے تو میری زبان سے نکلا ایک ایک لفظ جوں کا توں لکھ ڈالا۔۔۔ کیا افسانہ ایسا ہوتا ہے؟
اچھا۔۔۔ دوبارہ پڑھنا شروع کرو اب بیچ میں نہیں بولتی۔ ہاں۔۔۔ لیکن لکھتے لکھتے جو ہمارے درمیان باتیں ہوئیں ہیں بعد میں انہیں کاٹ دینا۔۔۔ چلو پڑھ کر سناؤ اب۔”
اندھیروں کے باسیوں کے لیے اندھیرا اتنا بڑا عذاب نہیں ہے لیکن جب لوگ روشنیوں کی باتیں کرتے ہیں تو دل میں ایک آرزو تو اٹھتی ہے۔۔۔ اور وہ سلگتی ہوئی آرزو کب راکھ ہو جاتی ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہاں۔۔۔ مگر جو لوگ پہلے روشنیاں دیکھ چکے ہوں ان کے لیے اندھیروں کے لحاف میں کتنی گھٹن ہوتی ہے۔۔۔ اس کا اندازہ تو مجھ سے بہتر کوئی نہیں لگا سکتا۔۔۔ مجھ جیسی کے اندر تو روشنیوں کی آرزو سلگتی رہتی ہے۔ یہ کبھی راکھ نہیں بنتی۔
میں اکثر اپنے ماں باپ کے نصیب کے بارے میں سوچ کر اداس ہو جاتی ہوں۔ نجانے کیا سوچ کر میرا نام “روشنی” رکھ دیا ہوگا۔۔۔ شاید نہیں جانتے تھے کہ میں چند سال ہی اجالوں کو دیکھ سکوں گی۔۔۔ پھر پوری زندگی ترستی رہ جاؤں گی۔۔۔
خیر۔۔۔میں تمہیں اپنی کہانی سنانے والی تھی۔ ہاں تو سنو۔۔۔ بلکہ لکھو۔۔۔ وہ مجھ سے کب کہاں کیسے ملا۔۔۔یہ ضروری نہیں ہے۔ سو میں ان باتوں کو چھوڑ کر تمہیں وہ بتاتی ہوں جو لکھنے کے قابل ہے۔
اس نے جب پہلی بار میرے ہاتھ کوچھوا تھا تو ایک عجیب سا احساس ملا تھا۔
ویسے تو میں عادی ہوں، دن میں کئی بار ان لوگوں کے ہاتھ تھامتی ہوں جو میری مدد کر کے جنت کماتے ہیں لیکن اس کے لمس میں اس دن ایک بہت ہی مزیدار قسم کا احساس تھا۔ جسم میں ایک گرمی سی دوڑی تھی۔۔۔ میری اندھیری دنیا جس کا کوئی سِرا نہیں۔۔۔ نہ آسمان نہ ہی زمین۔۔۔ جہاں حد نظر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔ اس دنیا میں مجھے کئی پھلچھڑیاں جلتی دکھائی دی تھیں۔ وہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے اس دن نابینا ہونا پہلی بار خوبصورت لگا۔۔۔
شاید میری آنکھیں ہوتیں تو میں شرم کی چادر اوڑھ کر سمٹ جاتی کہ مجھے اس پارک میں کتنے لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ لیکن کیوں کہ میں نہیں دیکھ سکتی سو میں دنیا سے ایسے بے نیاز تھی کہ جیسے میرے ساتھ ساتھ ساری دنیا نابینا ہے۔
کاش۔۔۔۔ دنیا بھی نابینا ہوتی۔۔۔ کون کیا کر رہا ہے۔۔۔ دیکھ ہی نہ سکتی۔۔۔ اور خدا کی قسم پھر ایسے لمحوں کا لطف بھی بے پناہ اٹھاتے۔۔۔ لیکن وہ زندگی کی تمام لذتیں۔۔۔ تمام حُسن چھوڑ کر نجانے کیوں دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے لگتے ہیں۔۔۔کاش۔۔۔ کہ سب نابینا ہوتے۔۔۔ ایسے لمحات میں تو ضرور نابینا ہوتے۔
ہاں۔۔۔ تو میں کہہ رہی تھی وہ پہلا لمحہ تھا کہ جب میں اپنے نابینا ہونے کا افسوس بھی بھول چکی تھی جو ہر لمحہ میرے ساتھ رہا کرتا تھا۔
دراصل اس نے مجھے ویسے بھی بلا کی خود اعتمادی دی تھی۔۔۔ اس نے مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کہا تھا۔۔۔ مجھے تو صرف اپنے بچپن کی شکل یاد تھی۔ جوان ہو کر میں کیسی تھی میں نے کبھی کسی سے پوچھا تک نہیں تھا۔۔۔ اور کسی نے بھی بتایا نہیں تھا لیکن اس کے الفاظ آئینہ تھے جن میں خود کو دیکھ سکتی تھی۔۔۔ میری آنکھیں۔۔۔ میرے ہونٹ۔۔۔ میری ناک۔۔۔ میرے کان۔۔۔ میرا بیضوی چہرہ۔۔۔ میرے بال۔۔۔ میری گردن۔۔۔ میری مسکراہٹ۔۔۔۔ میری چال۔۔۔ میرے ہاتھ۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ سب کچھ اس نے میرے آگے اس طرح بیان کیے تھے کہ میں بھی غرور کرنے لگی تھی۔۔۔ خود کو سچ میں دنیا کی حسین ترین لڑکی سمجھنے لگی تھی۔۔۔ مسکراتی۔۔۔۔
کیا میں اتنی حسین ہوں۔۔۔ یا یہ جھوٹ تھا؟ تم نے بھی تو مجھے دیکھا ہے۔۔۔؟ چھوڑو تم مت بتاؤ مجھے۔۔۔ وہ عام انسان مجھے پل میں حور بنا جاتا تھا۔۔۔ تم تو پھر کہانی کار ہو۔۔۔۔ آگے لکھو۔
خود کو سچ میں دنیا کی حسین ترین لڑکی سمجھنے لگی تھی۔۔۔ مسکراتی تھی، قہقہے لگاتی تھی۔۔۔ اس نے میرا حسن ہی مجھے نہیں دکھایا۔ پوری دنیا دکھا دی تھی۔۔۔ وہ دنیا عمر کے جس حصے میں میرے لیے بالکل اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔۔۔ اس وقت میں نے سب کچھ اتنے غور سے کہاں دیکھا تھا۔ اس نے تمام لمحات کو تصویر کر کے دکھایا تھا۔۔۔ ہم روز ملتے تھے۔۔۔ گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔۔۔ وہ کہتا تھا کہ وہ تنہا ہے۔۔۔ اس دنیا میں بالکل تنہا ہے۔۔۔ یہ تنہائی بھی ایسے ہی ہے جیسے نابینا ہونا۔۔۔ اردگرد جب کچھ نہ ہو تو پھر ان آنکھوں کا کیا کرنا۔۔۔؟ اور پھر وہ مجھ سے بھی اکثر پوچھا کرتا کہ میں کیا محسوس کر رہی ہوں۔۔۔ میں بتاتی تھی۔۔۔ کبھی کبھی تو کہتا تھا کہ ‘لو روشنی ۔۔۔ میں نے بھی آنکھیں میچ لی ہیں۔۔۔ اور آؤ ایک طرح کی نظر کے ساتھ دنیا دیکھتے ہیں۔ ایک جیسی دنیا۔۔۔’ اور پھر پوچھتا۔۔۔
کیا وہ سچ میں آنکھیں بند کرتا ہوگا؟ ہاں شاید کرتا ہوگا۔۔۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔ تم مت رکو۔۔۔ لکھتے رہو۔
اور پھر پوچھتا تھا کہ تم نے کیا دیکھا۔۔۔ میں ایک خوبصورت جھوٹ بول دیا کرتی تھی کہ تمہارا چہرہ۔۔۔ چہرہ تو دیکھتی تھی۔۔۔ لیکن یہ سچ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی کا چہرہ ہی ہوتا ہوگا۔۔۔ وہ دن بہت خوبصورت تھے۔۔۔ میں دل و جان سے اپنا سب کچھ اس کو سونپنے کے لیے تیار تھی۔
ایک دن اس نے مجھے اپنے اپارٹمنٹ پر ساتھ چلنے کے لیے کہا۔۔۔ میں بہت ڈر تو رہی تھی۔۔۔ لیکن مجھے اس لمحے یہ بھی محسو س ہوا کہ شاید یہ میری دبی سی خواہش آج پوری ہونے جا رہی ہے۔
میری ایک ٹیچر تھیں، وہ بھی نابینا تھیں۔۔۔ لیکن میں انھیں دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت لڑکی سمجھتی ہوں۔۔۔ وہ اس لیے کہ انہیں کسی آنکھوں والے کے ساتھ محبت ہوگئی۔ اور اس آنکھوں والے کو ٹیچر کے ساتھ۔۔۔ دونوں نے شادی بھی کرلی۔۔۔ اور پھر ٹیچر کی آواز میں کبھی اداسی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔ وہ پہلے سے زیادہ کھِل سی گئی تھیں۔۔۔ انہیں بہت محبت ملی۔۔۔ پتہ ہے؟
ٹیچر نے ایک دن مجھے بتایا تھا کہ ان کا شوہر ان سے اتنی محبت کرتا ہے کہ وہ اکثر کہتا ہے۔۔۔ کاش ایسا ممکن ہوتا کہ میری آنکھیں تمہارے لیےکارآمد ہوتیں۔۔۔ تو میں تمہیں دے دیتا۔ باقی زندگی تم مجھے دنیا دکھاتیں۔۔۔ ٹیچر ناراض ہو جایا کرتیں تو کہتا کہ اچھا بابا۔۔۔ چلو ایک آنکھ خود رکھ لیتا اور دوسری تمہیں دے دیتا۔۔۔ دونوں مل کر دنیا دیکھتے۔
افسوس۔۔۔ وہ ٹیچر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں لیکن مجھے ان کی موت کا افسوس ہے۔ دکھ نہیں۔۔۔ دکھ اس لیے نہیں کہ زندگی اندھیروں میں ہو۔۔۔۔ چاہے روشنی میں ۔۔۔ کم ہو یا زیادہ۔۔۔ لیکن ہو خوبصورت۔۔۔ اتنی خوبصورت اور محبت سے بھری کہ جتنی اس ٹیچر کی تھی۔
میری کہانی کہاں تک پہنچی تھی۔۔۔۔؟ ہاں ہاں۔۔۔ تو لکھوآگے۔
کہتے ہیں ناں کہ یقین ڈر کو کھا جاتا ہے۔۔۔ اور میرا بھی یقین میرے ڈر کو کھا گیا۔۔۔ میں اس کے ساتھ چلی گئی تھی۔ نجانے کن کن راستوں سے گزر کر اسکا گھر آیا تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ اور خیال میرے ڈوپٹے کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے۔۔۔ اس روز میں نابینا ہی نہیں تھی بلکہ سماعت بھی کھو چکی تھی۔۔۔ لوگوں کا شور۔۔۔ گاڑیوں کی آوازیں۔۔۔ سب کچھ کسی الگ دنیا میں رہ گیا تھا۔۔۔ میں تھی۔۔۔ میرا تیزی کے ساتھ دھڑکا دل تھا۔۔۔ اور ہر سمت خیالات کا ہجوم۔۔۔ پتہ بھی نہ چلا کہ ہم اپارٹمنٹ پر پہنچ چکے تھے۔
میں نے اپنے ڈوپٹے اور حواس کو سنبھالا اور اس کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوگئی۔۔۔ جہاں گھر کی سی خوشبو تھی۔۔۔ بالکل گھر جیسی۔۔۔ جہاں لوگ رہتے ہیں۔۔۔ جہاں ان کے لیے کھانے پکتے ہیں۔۔۔ جہاں ان کے جسموں کی مختلف بوؤئیں آپس میں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔۔۔ جہاں کپڑوں کی مہک الگ ہوتی ہے۔۔۔ کھڑکیوں پر لٹکتے پردوں کی الگ خوشبو ہوتی ہے۔۔۔ جہاں لکڑی کے فرنیچر کی بو ہوتی ہے۔۔۔
جہاں۔۔۔۔ جہاں کاغذی۔۔۔ مصنوعی پھولوں کی نہ بو ہوتی ہے۔۔۔ نہ خوشبو۔۔۔۔ ایسے ہی گھر میں خوشبو تھی۔۔۔ میں نے اس گھر میں قدم رکھتے ہی محسوس کی تھی۔
پھر میں اس کا ہاتھ تھامے ایک الگ جگہ داخل ہوئی۔۔۔ شاید اس کا بیڈ روم تھا۔۔۔ بالکل خاموش سا تھا۔۔۔ جہاں گھڑی کی ‘ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔’ بالکل واضح سنائی دے رہی تھی۔ اور ۔۔۔۔ اور وہ خوشبو۔۔۔۔
اوہ خدایا۔۔۔ میں نے بے چین ہو کر اس سے پوچھا تھا کہ کیا۔۔۔ کیا یہ تمہارا بیڈ روم ہے۔۔۔؟
اس نے میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہ میرا بیڈ روم ہے۔۔۔ اور پھر اس پل نجانے کیوں مجھے اپنی اندھیری دنیا مزید اندھیری محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔ نجانے کیوں اس کے ہونٹوں کا ویسا لمس نہ رہا تھا جو پہلی بار مجھے اس کے ہاتھ سے محسوس ہوا تھا۔۔۔ اسی پہلے دن والا لمس۔۔۔ جب میری اندھیری دنیا میں پھلچھڑیاں جلنے لگی تھیں۔۔۔ نجانے پھر پورے جسم میں گرمی کیوں نہ دوڑی تھی۔۔۔ نجانے کیوں۔۔۔۔؟
شاید اس لیے کہ اس کے بیڈ روم کی خوشبو میرے یقین کے پرخچے اڑا گئی تھی۔۔۔ شاید۔۔۔ اس نے مجھے بہت زیادہ نابینا سمجھ لیا تھا۔۔۔ شاید اس کا خیال تھا کہ سب کچھ آنکھوں کے ساتھ دیکھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ نہیں جانتا تھا کہ جو آنکھیں نہیں رکھتے، جو اندھیروں کے عادی ہوتے ہیں۔۔۔ جو اندھیروں سے دوستی کر لیتے ہیں۔۔۔ وہ اس روشن دنیا کے بھید کچھ زیادہ اچھی طرح جان سکتے ہیں۔۔۔۔ دھوکے تو نظر والے کھاتے ہیں۔
“خاموش کیوں ہو گئے تم۔۔۔؟ آگے بھی تو پڑھو۔”
“نہیں روشنی ۔۔۔ آگے کچھ نہیں لکھا۔۔۔ شاید کہانی یہاں آکر مکمل ہو جاتی ہے ۔”
٭٭٭٭٭