ایک ایک کر کے پہلی تین تصاویر کو غور سے دیکھیں۔
اگر ان تصاویر میں اگر کسی کو کوئی پرندہ، انڈہ، چہرہ یا ہاتھی نظر آئیں تو وہ ان تصاویر میں تو نہیں تھے لیکن دماغ میں ضرور تھے۔
ان میں سے پہلی تصویر ہمارے زمین سے سوا دو کروڑ نوری سال دور دو کہشاؤں کے ٹکراؤ کی ہے۔ دوسری مریخ پر پڑے ایک پتھر کی اور تیسری مریخ پر لاوا فارمیشن کی ہے۔
اس میں سے ہم پیٹرن کیسے تلاش کر لیتے ہیں تو یہ طریقہ ہمارے دماغ کے کام کرنے کا ہے۔ بادلوں پر صورتیں، کتابوں میں چھپے پیغامات، ہوا کی سرسراہٹ میں کوئی آواز سن لینا۔ کسی چیز سے نکالے گئے اعداد سے معنی تلاش کر لینا، یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ نفسیات میں اسے پاریڈولیا کہا جاتا ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں تو آنکھ محض ایک ڈیٹیکٹر ہے۔ اصول تصویر ہمارا دماغ بناتا ہے اور اس کا طریقہ یہ کہ وہ پہلے سے موجود پیٹرنز سے موازنہ کر کے منظر کو سمجھتا ہے۔ اس طریقے سے جہاں ایک پیچیدہ منظر میں سے بہت جلد معنی اخذ کر لینا اس کی طاقت ہے، لیکن اس کی دوسری سائیڈ یہ کہ یہ ان چیزوں میں سے بھی معنی نکال لیتا ہے جہاں اصل میں کچھ بھی نہیں۔ اگر نیوروسائنس کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں ہمارے دماغ کے علاقے فزیفورم گائیرس کا کمال ہے۔
جب بھی پیٹرنز کا موازنہ کر کے چیزوں کو جانا جاتا ہے تو یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال چوتھی تصویر ہے۔ گوگل کے دیکھنے والے الگورتھم ڈیپ ڈریم نے جب اس کا تجزیہ کیا تو اس میں سے کتوں کی آنکھیں اور چہرے تلاش کر لئے۔
اس طرح پیٹرن تلاش کرنا بہت سی جگہوں پر ملتا ہے اور ایسا نہیں کہ لوگ اسے دیکھ کر مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں سے دوسری تصویر اڑن کھٹولوں والے نظریات رکھنے والے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ مریخ پر خلائی مخلوق رہتی ہے اور اب اس کا ثبوت اب ناسا نے باتصویر دے دیا ہے۔
ڈھونڈنے والے کو ہر چیز میں یہ پیٹرن کیسے نظر آ جاتے ہیں، اس کے لئے ریاضی کی رمزی تھیوری جو انفنٹری کمبینیٹرنکس کے بارے میں ہے، اسس کا خلاصہ یہ کہ
Given enough elements in a set or structure, some particular interesting pattern among them is guaranteed to emerge.
اس تھیوری کی ریاضی یہ بتاتی ہے کہ بہت کم ایلیمنٹس سے بہت زیادہ پیٹرنز جنم لیتے ہیں۔
مریخ کی تصویروں سے نکلنے والے دلچسپ پیٹرنز کے بارے میں
پینگوئین اور انڈے والی کہکشاؤں پر
دماغ کا وہ علاقہ جہاں پر ہم ان پیٹرنز ملا کر دنیا کو پہچانتے ہیں