کیا آپ نے غور کیا ہے کہ جو شخص نظر بد یا جادو پہ یقین رکھتا ہے اسے سچ مچ نظر بھی لگتی ہے اور جادو کا بھی اثر ہوتا ہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جادو یا نظر بد کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اگر یہ حقیقی ہوتے تو دنیا کا نظام ہی ختم ہو جاتا ۔ ہر کوئی اپنے مخالف پہ جادو کر دیتا ۔ مثلاً کوئی بھی اپوزیشن کسی بھی حکومت کو نہ چلنے دیتی ۔ ہر ملک اپنے مخالف ملک کے طاقتور اور کامیاب لوگوں پر جادو کروا کر ان کا صفایا کر دیتا۔ لوگ مخالفین کو نظر بد سے نقصان پہنچاتے مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس میں شک نہیں کہ یہ غیر حقیقی نظریات ہیں ۔ لیکن پھر سوال وہی کا وہی ہے کہ جو لوگ ان پہ یقین رکھتے ہیں وہ کیسے متاثر ہو جاتے ہیں ۔
دراصل ہمارا دماغ دنیا کی پیچیدہ ترین مشین ہے ۔ اس کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے جسے مکمل سمجھنے میں شاید دو تین صدیاں مزید لگیں ۔ روز مرہ کے لاکھوں واقعات و شواہد کی بنیاد پہ جدید سائیکالوجی اور میڈیکل سائنس ایک نظریہ پہ پہنچ چکی ہے جسے پلیسبو ایفیکٹ Plesbo Effect کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ کیسے کام کرتا ہے ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک ڈاکٹر صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی ۔ ہنی مون کےلیے باہر جانے کا پروگرام بنا۔ بیگم صاحبہ پہلی دفعہ جہاز میں بیٹھیں ۔ جہاز اڑا تو وہ شدید گھبرا گئیں اور ان کی حالت متغیر ہونے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے جیب ٹٹولی تو کوئی گولی وغیرہ نہیں ملی ۔ فورآ کوٹ کا بٹن توڑا اور بیوی کو کہا کہ اس گولی کو چوسو تمہارا دل گھٹ گیا ہے ٹھیک ہو جائے گا۔ کہا جاتا یے کہ کچھ دیر میں وہ عورت نارمل ہو گئی کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ گولی نہیں ہے۔ یہ انسانی ذہن ہی ہے جو پورے جسم کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے ۔ جب دماغ میں ایک نظریہ جگہ بنا لے تو دماغ اسی کے مطابق جسم کو آرڈر دیتا ہے ۔ اگر کسی کو مکمل یقین ہو جائے کہ وہ کل مر جائے گا تو اس کے باڈی پارٹس کام کرنا چھوڑ دیں گے اور وہ واقعی دوسرے دن مر بھی جائے گا ۔ نظر بد اور جادو کا بھی بلکل یہی حساب ہے ۔ جو لوگ ان پہ یقین نہیں رکھتے انھیں اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ گلی تھڑوں میں اپنی دکان سجائے پیر فقیر بھی اسی ایفیکٹ کے تحت لوگوں میں مشہور ہیں کیونکہ وہ کچھ بھی پڑھ کے پھونک مار دیں تو لوگوں کو مکمل یقین ہو جاتا یے کہ پھونک میں یا فلاں تعویذ میں ہر صورت شفا ہے ۔ اگر بیماری بہت شدید نہیں تو جسم کو احکام ملنے پہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرتا ہے کہ عام بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے ۔ اور بابا پہنچی ہوئی ہستی کہلانے لگتی ہے ۔ لوگ درباروں پہ لکڑی کا ٹکڑا گاڑ کر ، چادریں چڑھا کر اور مزاروں پہ دھاگے باندھ کر اپنی حاجات طلب کرتے ہیں اور اگر یقین کامل ہو تو اکثر مرادیں پوری ہو جاتی ہیں ۔ یہ کوئی کرامت نہیں بلکہ ہمارے دماغ کے چلنے کا طریقہ کار ہے ۔ کیوں کہ دماغ کو جسم کے ہر حصہ پہ مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد بیماری کی حالت میں پیشاب کر دیتے ہیں اور انھیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ دراصل جسم کے اس حصہ کا دماغ سے رابطہ منقطع یا خراب ہو چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہدایات نہیں پہ پہنچ پاتیں ۔ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ہمارے جذبات و احساسات کا سارا نظام دماغ کی مرہون منت ہے ۔ دل کو خومخواہ بدنام کیا جاتا ہے حالانکہ اس بیچارے کا کام صرف خون پمپ کرنا ہوتا ہے۔ جسم کے تمام افعال کا ذمہ دار صرف اور صرف دماغ ہے اور یہ افیکٹ دماغ سے ہی اثر انداز ہوتا ہے ۔
دراصل مثبت سوچ کےلیے پلے سیبو ایفیکٹ اور منفی سوچ کےلیے نوسیبو ایفیکٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...