نظم اب میرا حق بنتا ہے
میں نے ٹکٹ خرید کر
تمہاری جمہوریت کی نوٹنکی دیکھی
اب تو میرا تماشا گاہ میں بیٹھ کر
ہائے ہائے کرنے اور چیخنے کا حق بنتا ہے
آپ نے بھی ٹکٹ دیتے وقت
کوئی رعایت نہیں کی
اور میں بھی اب اپنے ہاتھوں سے
پردے پھاڑ دوں گا
گّدے جلا ڈالوں گا
____________
پارلیمنٹ
زہریلی شہد کی مکھی کی جانب انگلی نہ کرو
جیسے آپ چھتا سمجھتے ہیں
وہاں عوام کے نمائندے رہتے ہیں
______ ⚫
3نظم ___مژوط
♠️ہم اپنی ہتھیلی پر
کچھ اس طرح کے سچ کی خواہش رکھتے ہیں
جیسے گُڑ کی چاشنی میں ذرہ ہوتا ہے
جیسے حقّے میں نکوٹین ہوتی ہے
جسے ملاپ کے وقت
محبوب کے لبوں پہ
ملائی جیسی کوئی چیز ہوتی ہے
تعارف ♦️♦️
پنجابی کے مزاحمتی ادب کے نامور شاعر اوتار سنگھ سندھو المعروف پاش 9ستمبر 1950 کو جالندھر ضلع ناکوڈر میں واقع Talwandi Salem نامی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ پاش نے اپنی مختصر سی زندگی میں بڑی شہرت پائی۔ ایسی مقبولیت شاذ و نادر کسی قلم کار کو نصیب ہوتی ہے۔ انھیں نہ صرف اپنے بلکہ ہر کسی کے لیے یکساں دنیا کی تمنا تھی اور اسے حاصل کرنے کی لڑائی میں ان کے پاس بیچ کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ پاش کا موازنہ انقلابی شاعری کی وجہ سے بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد سے کیا جاتا ہے وہ مغربی بنگال سے اٹھنے والی انقلابی تحریک نکسل واد سے متاثر ہو کر بائیں بازو سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ نکسل باڑی کی تحریک مشرقی پنجاب میں کسان مزدوروں اور محنت کش طبقہ کی حقیقی نمائندہ تحریک تھی ۔ انھیں انقلابی شاعری کی اولین کتاب "لوہ کتھا" (آہنی قصہ) میں شامل عسکری اور سخت گیر محاوروں اور الفاظ کی وجہ سے دو برس کی جیل ہوئی تھی ۔ رہائی کے بعد وہ ماؤ نواز فرنٹ میں شامل ہوگئے تھے ۔
ان کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ پنجابی میں لکھنے کے باوجود انھیں ہندی حلقے نے بھی پلکوں پہ بٹھایا ہے نئی نسل بھی ان کی نظموں کی گرویدہ ہے ۔
انھوں نے لکھا ہے "میں آدمی ہوں اور بہت بہت چھوٹے چھوٹے" کچھ "جوڑ کر بنا ہوں وہ تا عمر اس چھوٹے چھوٹے بہت کچھ کو بچانے کی ضد اور اس بہانے انسان کو انسان بنائے رکھنے کی للک میں لہولہان ہوتے رہے ۔
ہندی کے بڑے نقاد نامور سنگھ نے کہا تھا ___" وہ بددعا کے زیر اثر جی رہے تھے ۔ ممکن ہے یہ بات صحیح ہو کیونکہ انھیں اپنے پسند کی زندگی نہیں ملی تھی ۔ ہندوتوا کی علمبردار آر ایس ایس نے رابند ناتھ ٹیگور، مرزا غالب، اور ایم ایف حسین کے بعد گیارہواں کی نصابی Aaroh سے پاش کی نظم "سب سے خطرناک" کو نکالنے کی مانگ کی تھی ۔ آر ایس ایس کے ایجوکیشن کے نگران دینا ناتھ بترا اور بی جے پی کے چند سیاستدانوں نے بھی اس نظم کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔
پنجاب میں جب خالصتانی تحریک شباب پر تھی اور قلم کاروں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی تب بھی پاش نظمیں لکھنے میں مصروف تھے 23 مارچ 1988 کو وہ اپنے دوست ہنس راج کے ساتھ گاؤں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے تب خالصتان کے حامیوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس میں وہ اور اُن کا دوست جاں بحق ہوگیا ۔ موت کے وقت وہ صرف 37 سال کے تھے نامور سنگھ نے اَن کا موازنہ اسپین کے شاعر فیڈر یگو رسیالارکو سے کیا تھا ۔ جنھیں جنرل فرینکو نے اُن کی نظموں کے خوف سے قتل کروایا تھا۔
انتخاب و ٹائپنگ احمد نعیم
“