(Last Updated On: )
جہانِ خرافات میں یوں لگ گیا تھا جی
آواز بھی نہ اپنے ضمیر کی سنی
کی نہیں ہے سنن و فرائض کی تعمیل
اٹھایا ہی نہیں ،کبھی قرآن بھی
بس ایک ہی فکرکھاؤں، پیوں، جیوں
جیون میں بس یہی ایک آرزو رہی
گُم تھا ہر بشر، فشارِ زندگی میں
مدہوش تھے اسی میں، سبھی کے سبھی
کیا خبر بیزاری یہ رہتی، کب تلک
آئی وبا تو کھٹکی ہے آج یہ کمی
سدھار لاؤ اپنے اعمال میں سبھی
لگتا ہے بس قریب ہے قیامت کی گھڑی
ہیں بے قرار و بے چین سب کے سب
حالت ہے تمام کی بے کیف سی
فکرِ عدم کرو، سبق سیکھ لو
صورتِ وبا یہ نصیحت ہے ملی