جناب لیاقت علی ایڈووکیٹ سے محبت کا رشتہ ہے بہت سی آرا سے شدید اختلاف ہوتا ہے اور برملا اظہار بھی کرتا ہوں لیکن وہ ایک عالم فاضل شخص ہیں ان کی وسیع لائبریری ہے جس سے میرے سمیت لاتعداد لوگ استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ آج انھوں نے رومیلا تھاپر کے ایک انٹرویو کے حوالے سے پبلک انٹیلیکچوئل کی اصطلاح کے بارے لکھا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں پبلک انٹیلکیچوئل کی تعریف پر پورا اترنے والی شخصیات ہیں بھی کم۔ انھوں نے لکھا ہے کہ
پبلک انٹلیکچوئل سے مراد ایک ایسی شخصیت ہے جواپنے شعبے کی ماہر ہو اور اس کی علمی مہارت اور دانشورانہ مقام کے باعث سماجی طور پراسے ایک مقام بھی حاصل ہو اور وہ حکومتی اور ریاستی سرپرستی کو طاق پر رکھتے ہوئے عوامی تحریکوں سے ہمدردی رکھتا ہو۔کمزور سماجی طبقات کے لئے سرگرم نظریات اور تحریک سے علمی سطح پر جڑت رکھتا ہو۔
وہ لکھتے ہیں کہ ہم اگر اپنے ارد گرد دیکھیں تو ایسے افراد بہت ہی کم ہیں۔ہمارے بڑے ناول نگار ہوں یا افسانہ نگار یا ماہرین تعلیم وہ ہمیشہ سرکار پرستی اور ایوارڈز کی خواہشات تلے دبے رہتے ہیں۔ وہ عوامی خواہشات سے جڑنے کی بجائے ریاستی اور حکومتی جھوٹ کو پرموٹ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی ارون دھتی رائے نہیں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ناول نگار ہونے کے باوجود بھارت سرکار کی رجعت پسندی اور آمرانہ اقدامات کو چیلنج کرتی ہے وہ کسی سیاسی جماعت اور گروپ کو حصہ تو نہیں ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی مفادات اور حکومتی جھوٹ کی بجائے عوام کے مفادات کی طرف داری کرتی ہے۔
ہمارے ہاں نوم چومسکی کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان کی کہی باتیں کوٹ کی جاتی ہیں نوم چومسکی کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہے وہ کسی حکومت کا حامی نہیں ہے وہ نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کے مفادات کی وکالت کرتا ہے اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہےکہ اس سے کون ناراض اور خوش ہوتا ہے وہ جو سچ سمجھتا ہے اسے بلا ججھک بیان کرتا ہے اور یہی پبلک دانشور کام ہے کہ وہ وقتی مصلحت کی خاطر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ نہ بتائے۔
پاکستان میں جوں ہی کوئی شاعر،دانشور مرتا ہے تو ایک سیاپا شروع ہوجاتا ہےکہ اس کا خلا کیسے پر ہوگا حالانکہ اس کا کوئی خلا ہوتا ہی نہیں ہے اس جیسے درجنوں اس کی جگہ لینے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں التبہ جب کوئی پبلک انٹیکلچوئل اس جہاں سے رخصت ہوتا ہے تو وہ جو خلا چھوڑ جاتا ہےاس کو پر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میںدہائیوں میں انتہائی قلیل تعداد میںسبط حسن علی عباس جلالپوری اورعاصمہ جہانگیر جیسے پبلک انٹیکچوئلز پیدا کرسکے ہیںلیکن سرکار پرست اور مفاد پرست دانشور کی بہتات ہے جو ہم پیدا کرتے رہیں گے
میں ان سے ان معاملات میں اتفاق کرتا ہوں مگر مجھے شدید دکھ ہوتا ہے جب پاکستان میں ایک جینوئن پبلک انٹیلیکچوئل کا کسی حلقے میں ذکر نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس نے خاموشی سے ساتھ زندگی بسر کی اور سرکار دربار
کے کسی اعزاز یا ایوارڈ کی پرواہ نہیں کی وہ کسی سیاسی جماعت سے بالاتر رہا اور اپنا وزن ہمیشہ پاکستان کے مظلوم اور مقہور لوگوں کی صف میں ڈالا۔ جس نے تنہا پنجابی زبان کے حوالے سے اتنا کام کیا ہے اور کبھی کسی سے تعریف یا ستائش کی تمنا نہیں کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب، پاکستان اور دنیا بھر کے مظلوم لوگوں سے ایک تعلق اور یکجہتی قائم رکھی جس کے ڈرامے۔ شاعری اور تنقید کی کتابیں پنجابی ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ جس نے کسی مخالف کا کبھی جواب نہیں دیا۔ میرا خیال ہے کہ اس شخصیت پر بات ہونی چاہیئے جس نے پاکستان میں روشن خیالی۔ پنجابی ادب اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہزاروں چراغ روشن کئے ہیں ہم بڑے فخر سے دنیا کے سکی بھی بڑت پبلک انٹیلچکول کے سامنے اس کا نام پیش کرسکتے ہیں
“نظام لوہار دا گاون”
اساں کیتا نا منظور
جیونا ایس رنگ دا
بھوئیں بھانڈا جد وکھرا ہووے
پِیڑ دِلاں نُوں کیکن پوہے
میں کولوں میں دور
جیونا ایس رنگ دا اساں کیتا نا منظور….
ساڈیاں ہتھاں وچوں محنت نکلے
نِکل کے وڑے خزانے
پُلساں پال خزانیوں چاڑھن
ساتھے پُتر بگانے
ساڈیاں ہتھاں وِچوں محنت نکلے…
نِکل کے چڑھ جائے ہٹّی…
اوہ مہنگی اسیں سستے ہو گئے….
پئے بھرئیے نٍِت چٹّی…
ناں ناویں دی چودھر کیوں ہے…
دِل سیپ دا سَندر کیوں اے….
بُت وچ روح مجبور…
جیونا ایس رنگ دا اساں کیتا نامنظور…
ساڈیاں ہتھاں وچ محنت ساڈی
بنے صِذق دا پیالہ
وارو وار چَھکن پئیاں سنگتاں
لتھے دوئی دا پالا
ساڈیاں ہتھاں وچ محنت ساڈی
بنے فقر دی چُوری
رج رج کھان پریتاں والے
نِت پُوری دی پُوری
راج اساڈے دا
ہوسی ایہہ دستور….
*نجم حُسین سید*
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...