♧ نظم کی اقسام
پابند نظم، آزاد نظم، نظم معّریٰ، اور نثری نظم۔
~ پابند نظم :
پابند نظم میں وزن، بحر، ردیف اور قافیہ سب موجود ہوتا ہے۔ یہ غزل کے اوزان پر کہی جا سکتی ہے لیکن اس کی سب اصناف میں غزل کی بحریں استعمال نہیں کی جا سکتیں۔
اس کی مختلف اصناف میں قصیدہ، مرثیہ، گیت، سانیٹ، پیروڈی، مثنوی، رباعی، قطعہ، مسمط، مثلث، مخمس، مسدس، ترکیب بند، ترجیح بند، مثمن اور مستزاد وغیرہ شامل ہیں۔
ان سب میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے ان میں سے بیشتر کے بند میں مصرعوں کی تعداد میں فرق ہوتا ہے۔ رباعی کے لیے مخصوص بحروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں صرف گیت ایسا ہے جس کی کوئی خاص ہئیت نہیں ہے۔
~ آزاد نظم :
آزاد نظم شاعری کی ایک بہت خوب صورت صنف ہے۔ ان میں ترنم ہوتا ہے۔ ان نظموں میں بحر کی پابندی لازم ہے لیکن ردیف اور قافیہ کی قید نہیں ہے۔ آزاد نظم میں اور نظم معّریٰ میں بنیادی فرق وزن کا فرق ہے۔
آزاد نظم میں وزن کی کمی بیشی جائز ہے۔ مثلا اگر ایک بحر استعمال کی گئی ہے تو اس کے تمام ارکان ہر مصرعے میں استعمال کرنا ضروری نہیں۔
مثال کے طور پر فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کی بحر ہے تو اس کے وزن میں ہر دوسرے مصرعے میں ارکان زیادہ یا کم کئے جاسکتے ہیں۔ جیسے کہ :
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلنؔ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن وغیرہ
بعض شعرا بحر میں تبدیلی کرتے ہیں اس میں بعض تو جدیدیت کے شوق میں کچھ نیا تخلیق کرنے کے شوق میں جان بوجھ کر بحر میں تبدیلی کرتے ہیں اور بعض غلطی سے بحروں پر کم عبور ہونے کے سبب اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
لیکن نظم کے ایک دو مصرعے میں بحر تبدیل کرنے کی گنجائش بہر حال بدرجہ اتم موجود ہے۔ گرچہ کہ یہ بحر بدلنے کا عمل قاری کی طبیعت پر گراں بلکہ ناگوار تاثر چھوڑتا ہے، اور مستحسن نہیں۔
~ نظم معّریٰ :
نظم معّریٰ انگریزی ادب سے اردو ادب میں آئی۔ معّریٰ کا مطلب ہے پاک صاف، خالی، آزاد، عریاں، خالص۔ لیکن یہ اسی حد تک پاک صاف یا آزاد ہے کہ اس میں ردیف اور قافیہ استعمال نہیں کیا جاتا لیکن بحر سے آزاد ہے نہ وزن سے۔
نظم معّریٰ میں تمام اشعار ہم وزن ہوتے ہیں اور شروع تا آخر ایک بحر میں ہوتے ہیں۔ اور ترنم میں ہوتے ہیں۔ ایک بحر میں اور ایک وزن سے مراد یہ ہے کہ جو بھی بحر پہلے مصرعے میں استعمال کی جائے اس میں کسی دوسرے مصرعے میں بھی کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔
اول تا آخر ایک ہی بحر ایک ہی وزن میں استمعال ہوتی ہے، مثلا :
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ( پہلا مصرعہ بلکہ ہر مصرعہ)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (آخری مصرعہ)
ایک بحر ایک ہی وزن میں استعمال ہوتی ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ردیف اور قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی۔ ہر مصرعہ الگ قافیہ ردیف میں ہوتا ہے لیکن پوری نظم اول تا آخر ایک موضوع سے جڑی ہوتی ہے۔ غزل کی طرح ہر شعر کا موضوع الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ مطالعہ نثر اور شاعری دونوں کے لیے اہم ہے، علم اور فکر کو بلندی حاصل ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں عمدہ تخلیقات جنم لیتی ہیں۔
نظم معّریٰ میں ہر مصرعے میں وہی بحر استعمال ہوتی ہے جو کہ پہلے مصرعے میں استعمال کی گئی ہو۔ لیکن آزاد نظم کی طرح اس کے مصرعوں میں دوسری بحر کے دخول کی اجازت نہیں۔
~ نثری نظم :
نثری نظم کی بعض بڑے شعرا یعنی اساتذہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی بحر سرے سے استعمال ہی نہیں کی جاتی۔ ان کے نزدیک یہ غیر شاعر افراد کے ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن درحقیقت نثری نظم کا ایک اپنا وجود ہے۔
یہ اور بات ہے کہ نثری نظم سے نظم کے بنیادی تصور کو نقصان پہنچا کیونکہ نظم کی پہلے سے رائج سب اقسام وزن اور بحر یعنی عروض اور شعری آہنگ کی پابند تھیں۔ نثری نظم نے ان جملہ لوازمات کو دیوار سے لگا دیا۔
لیکن شعری اہنگ نثری نظم کا حصہ ہونا چاہیئے۔ اسی لیے اس مضمون میں دی ہوئی نثری نظم کی شرائط میں انہیں شامل کیا گیا ہے تاکہ نظم نظم رہے نثری خاکہ نہ بن کر رہ جائے۔
زیادہ تر جو افراد عروض نہیں جانتے لیکن شاعری کا شوق رکھتے ہیں وہ نثری نظم کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ قافیہ ردیف کی قید کو ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں وہ عروض جانتے ہوئے بھی نثری نظم کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف نئی صنف میں طبع آزمائی کے شوق میں ایسا کرتے ہیں۔
نظم کی اقسام بلحاظ موضوع؛
نظم کی موضوع کے لحاظ سے نو اقسام ہیں جن میں درج ذیل شامل ہیں؛
حمد؛
وہ نظم جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائے اللہ کی صفات اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہو۔یہ نظم کسی بھی ہیت میں ہو سکتی ہے۔ اس کی خصوصیات میں یہ باتیں شامل ہیں کہ حمد رسمی نہ ہو بلکہ یہ عشقِ الہی میں ڈوب کر لکھی جائے۔ہر لفظ ادب و احترام سے بھرا ہوا ہو۔ شاعر کا لہجہ عاجزانہ ہو۔ زبان پاکیزہ اور شستہ و بلیغ الفاظ والی استعمال کرتا ہو۔آخری اشعار میں مغفرت اور امت کی بھلائی کے لیے دعا کی گئی ہو۔
نعت؛
یہ بھی نظم کی ایک اہم قسم ہے اس میں حضورﷺ کی ذات ، صفات اور اخلاق کی تعریف کی جائے وہ نعت کہلاتی ہے۔ موضوع کی وسعت کے پیشِ نظر کسی بھی ہیت میں لکھی جا سکتی ہے۔ نعت کے لیے چند صفات کا ہونا لازمی ہے۔حمد اور نعت کے درمیان حدِ فاصل ہونا ضروری ہے۔ نعت عشقِ رسول میں ڈوب کر لکھی جائے۔زبان پاکیزہ اور الفاظ آپ ﷺ کے مرتبے کے مطابق ہوں۔لہجے میں عقیدت اور محبت ہو۔ نعت پر سوز اور پر تاثیر ہو۔
غزل؛
غزل عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی عورتوں کی باتیں کرنا یا پھر عورتوں کے متعلق باتیں کرنا کے ہیں۔اس میں شاعر حضرات اپنے دل کی باتیں شاعری کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔
قصیدہ؛
یہ عربی کے لفظ قصد سے ہے۔ قصد سے مراد مشق ہے جس کے معنی ارادہ کے ہیں۔ چونکہ قصیدے میں شاعر ارادتاً کسی شخص کی تعریف و توصیف میں اشعار کہتا ہے۔اس لیے اسے قصیدہ کہتے ہیں۔اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں۔ یہ دیگر اصناف میں وہی حثیت رکھتا ہے جو جسم میں دیگر اعضا کے ساتھ مغز کو حاصل ہے۔اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ مطلع۔ تشبیب۔گریز۔مدح۔ حسنِ طلب اور دعا
مرثیہ؛
مرثیہ عربی زبان کے لفظ رثا سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنی مرنے والے کی تعریف اور توصیف کے ہیں۔ اصطلاح میں اس صنفِ سخن کو کہتے ہیں جس میں مرنے والے کی تعریف کی جائے۔عربی کی قدیم شاعری میں شعرا اپنے عزیزوں کے مرثیے کہتے تھے ۔دکن میں اس کا آغاز ہوا۔اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔چہرہ۔ سراپا۔ رخصت۔ آمد۔رجز۔ جنگ۔شہادت۔ بین ۔ دعا وغیرہ
شہر آشوب؛
اس کے معنی شہر میں فتنہ و ہنگامہ یا شہر میں فتنہ برپا کرنے والے کے ہیں۔اصطلاح میں وہ نظم جس میں شہر کے اور شہر کے لوگوں کے حالات کا ذکر ہو۔اس کے لیے کوئی خاص ہیت مقرر نہیں۔ہر ہیت میں شہر آشوب لکھے جا سکتے ہیں۔
واسوخت؛
یہ وہ نظم ہے جس میں بیزاری ، روگردانی اور تنفر کا اظہار کیا جاتا ہے۔ واسوخت مسدس یا مثمن کی ہیت میں عام طور پر لکھی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار کوئی اور صنف بھی استعمال کی جاتی ہے۔
پیروڈی؛
یہ لفظ پیروڈیا سے بنا ہے جس کے لغوی معنی تحریف کے ہیں۔ اصطلاح میں وہ صنف ظرافت ہے جس میں کسی نظم یا نثر کی نقل اتاری گئی ہو۔خیالات کو بدل دیا گیا ہو جس سے مزاحیہ تاثرات پیدا ہو گئے ہوں ۔بعض اوقات حرف اور حرکت کی تبدیلی سے بھی پیروڈی ہو جاتی ہے۔
گیت؛
گیت ہندی سے آیا ہے۔ یہ گانے کی چیز ہے اور موسیقی سے اسکا گہرا تعلق ہے۔ اس میں سر تال کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس میں اظہارِ محبت گا کر کیا جاتا ہے۔ اس کا لہجا دھیما اور نسائی ہوتا ہے اس کی کوئی خاص ہیت مقرر نہیں۔
ہجو؛
وہ نظم جس میں کسی کی مذمت کی جائے اس کے لیے کوئی نھی شکل رباعی، قطعہ، قصیدہ، مثنوی، مخمس، مسدس استعمال کی جاتی ہے۔
نظم کی اقسام بلحاظ ہیت؛
اردو نظم کو ہیت کے حوالے سے بہت سے شعراء نے پرکھا ہے۔ ہیت کے لحاظ سے اس کی بہت سی اقسام ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
مثنوی؛
مثنوی کا لفظ مثنیٰ سے ہے۔ جس کے معنی دو کے ہیں۔اصطلاح میں یہ ایک ایسی نظم ہوتی ہے جس کےہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر شعر کے بعد قافیہ بدل جائے۔یہ صنف طویل کہانیوں پر مبنیٰ ہوتی ہے اس کو داستان کی شعری صورت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اس میں ہر ظرح کا موضوع بیان کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ربط و تسلسل،حسن ترتیب، وضاحت بیان، جزیات نگاری،کردار، سچائی، فطری پن، زبان و بیان وغیرہ شامل ہیں۔
فرد؛
فرد کسی بھی شاعر کا ایسا شعر ہوتا ہے جو کسی بھی نظم یا غزل کا حصہ نہیں ہوتا فرد کہلاتا ہے۔
دوہا؛
یہ دو مصرعوں پر مبنیٰ ایسی چھوٹی نظم ہوتی ہے جس میں مکمل موضوع بیان کر دیا جاتا ہے۔ یہ غزل کے مطلع کی طرح ہم قافیہ ہوتی ہے۔
مثلث؛
وہ نظم جس کا ہر بندھ تین مصرعوں پر مشتعمل ہو مصرعوں کے قافیوں اور ردیف کی ترتیب شاعر کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔
رباعی؛
رباعی کے معنی ربع یعنی چار کے ہیں۔ اس کے چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔اس کے پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے آپس میں ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔
قطعہ؛
اس کے مغوی معنی ٹکڑا کے ہیں۔ اس نظم کو کہا جاتا ہے جس میں کسی خیال یا واقع کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔اس میں مطلع ہونا ضروری نہیں اس میں ہر شعر میں قافیہ اور ردیف کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔موضوع کی اس میں کوئی قید نہیں ہوتی۔قطعہ کم از کم دو شعروں کا ہوتا ہے۔
مخمس؛
جس نظم کے تمام بندھ پانچ مصرعوں پر مشتعمل ہوں وہ مخمس کہلاتی ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔
مسدس؛
وہ نظم جس کا ہر بندھ چھ مصرعوں پر مشتعمل ہوتا ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...