(Last Updated On: )
کتنی خوشبوؤں نے آ گھیرا مجھے
شب نکالے جب تیرے ادھورے خط
یہ خط نہیں میری زیست کا اثاثہ ہیں
یہ خط میرے ہر دکھ کا مداوا ہیں
مسکراتی آنکھوں کی ایک کہانی ہے
اس کہانی کے سبھی لفظ جاناں اب تک
ہیں ترے لمس کی حدت میں گرفتار کہیں
انھیں چھو لوں تو میرے سینے میں
اک دھواں سا اٹھتا ہے بکھر جاتا ہے
یہ خط نہیں اے معصوم سانولی لڑکی
ترا وجود ہے جو روح میں اتر جاتا ہے
تیری پاکیزگی تیری وفا کی خوشبو
تیری معصوم چاہتوں کے سبھی نغمے
مجھے ہر سطر میں یوں سنائی دیتے ہیں
جیسے دور سے آتی اذان کی آواز
اک گنہگار کو خدا سے ملا دیتی ہے
کسی اجڑی ہوئی دنیا کو بسا دیتی ہے