آج – 12/دسمبر 2010
نغمہ نگار اور معروف شاعر” نازؔ خیالوی صاحب “ کا یومِ وفات…
اصل نام محمد صدیق اور تخلص نازؔ تھا۔ ناز خیالوی"جھوک خیالی" نامی ایک گاؤں 1947ء میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انھیں خیالوی کہا جاتا ہے۔ جھوک خیالی گاؤں ضلع فیصل آباد، صوبہ پنجاب، پاکستان واقع ہے ۔وہ ایک ممتاز اردو شاعر احسان دانش کے ایک شاگرد تھے۔
ناز کا ذریعہ معاش فیصل آباد ریڈیو سے نشر ہونے والا ایک پروگرام ” صندل دھرتی“ تھا، جس کی میزبانی وہ 27 برس تک کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں میں نغمے لکھے
ناز بنیادی طور پر ان کی ایک نظم "تم اک گورکھ دھندا ہو" ، جسے نصرت فتح علی خان نے گایا تھا، کی نسبت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی کچھ نظمیں عطاء اللہ نیازی نے بھی گائی ہیں ۔
ناز کی شاعری دو مجموعوں پر مشتمل ہے
1- تم اک گورکھ دھندا ہو (اردو)'
2 – سائیاں وے (پنجابی)
انہوں نے شادی نہیں کی اور 12 دسمبر 2010ء کو ماموں کانجن (پنجاب) اپنے مرشد خانہ پاکستان میں وفات پائی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر نازؔ خیالوی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
دل میں ہو شوقِ ملاقات کا طوفان بپا
اور رستے میں چناں ہو تو غزل ہوتی ہے
شوقِ حسرت کے شراروں سے جلا پاتا ہے
جانِ جاں دشمنِ جاں ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ بھی حاصل نہیں یک طرفہ محبت کا جناب
ان کی جانب سے بھی ہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
شوکتِ فن کی قسم حسنِ تخیل کی قسم
دل کے کعبے میں اذاں ہو تو غزل ہوتی ہے
میں اگر ان کے خد و خال میں کھو جاؤں کبھی
وہ کہیں نازؔ کہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشا کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے
بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
عذابِ حسرت و آلام سے نکل جاؤ
مری سحر سے مری شام سے نکل جاؤ
بہانہ چاہیے گھر سے کوئی نکلنے کو
کسی طلب میں کسی کام سے نکل جاؤ
ہمارے خانۂ دل میں رہو سکون کے ساتھ
نکلنا چاہو تو آرام سے نکل جاؤ
خدا نصیب کرے تم کو بے گھری کا مذاق
حصارِ شوق در و بام سے نکل جاؤ
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
کسی طرف بھی کسی کام سے نکل جاؤ
نکال پھینکو دلوں سے بتان بغض و عناد
نہیں تو حلقۂ اسلام سے نکل جاؤ
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
نازؔ خیالوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ