(ہندوپاک کے بھولے بسرے گلوکار یاد سیریز)
’’نیرہ نور۔شہزادیٔ جذبات‘‘
وہ تمام دن وہ تمام غم جو گزرگئے،ہمیں یاد ہیں،ہمیں یاد ہیں
وہ لُٹے سہاگ ،وہ عصمتیں،جو فسانہ ہیں ،وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر جو اجڑ گئے ،وہ عزیز جو سب بچھڑگئے
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں
وہ عجیب لوگ، وہ قافلے،جو رک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے،جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں
وہ تمام عہد جو فرض ہیں،جو امانتیں ہیں جو قرض ہیں
جو پڑھتے تھے ضرب کلیم میں ،جو ہوئے تھے شہر عظیم میں
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں
(کلام :جمیل الدین عالی۔موسیقار:سہیل رانا۔البم:خواب کا سفر)
ٹریجڈی کوین اور بے مثل لب لہجے کی خوب صورت اور دھان پان سی گلو کارہ نیرہ نور نے جب یہ نغمہ 1976میںگایا اور EMIپاکستان نے اسے اپنے ”البم خواب کا سفر“میں ریلیز کیا تومختصرسے عرصے میںاس کی دھوم مچ گئی اور یہ نغمہ، صدائے پاکستان بن گیا۔عوام میں اس نغمے کی پناہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پاک آرمی کے محکمۂ تعلقات عامہ، جسے عرف عام میں ISPR کہا جاتا ہے،نے اسے اس دور کے ٹاپ ٹین نغموں میں مقام عطا کیا۔اب یہ ریڈیو پاکستان،پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر نجی عوامی ترسیل کے پلیٹ فارمس سے نہایت پابندی سے سنا جانے لگا۔کشاں کشاں یہ نغمہ تقسیم ہند موقع پر لٹے پٹے مہاجر قافلوںسے بھی جوڑدیا گیا اسی طرح پاکستان میں قائم ہونے والی ہر نئی سیاسی جماعت کے قیام یاجدوجہد کے معرکوں سے بھی اسے منسوب کرکے کارکنان جماعت یا تحریک کے لہو گرمایاجاتارہا۔ایک موقع تو وہ تھا جب سابق وزیر اعظم محمد خان جنیجو کے مستعفی ہونے اور جنرل ضیاءکے انتقال کے بعد پاکستان میں نئے انتخابات کا بگل بجا، بے نظیر بھٹو نے اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کا علم اٹھایا،تو گلی گلی میں بی بی کی قد آدم تصویر کے ساتھ گلی گلی میں جمیل الدین عالی کی یہ نظم بھی آویزاں کردی گئی اور اونچے مکانوں کی چھتوں سے نیرہ نور یہ سحر آگیں نغمہ اور آواز، آمریت و ڈکٹیٹرشپ کی فضا سے آزادی کا جوش و جذبہ بھررہی تھی اورعوام پاکستان نیزپی پی پی کے جیالوں کا جوش دیکھنے کے قابل تھا۔آخری بار جب عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف مرحلہ جوش وجنوں سے گزررہی تھی ،اس وقت ’یوتھیوں‘ میں جذبۂ تحریک بیدار کر نے کے لیے دیگر تحریکی نغموں کے ساتھ نیر نورکا یہ نغمہ بھی فضاؤں میں گونجنے لگا۔
’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘،’اے جذبۂ دل گر میں چاہوں‘،’توہی بتا پگلی پوَن‘،’ذرا میری نبض دیکھ کر‘،’ہر چند سہارا ہے ترے پیارکا‘،’کبھی ہم خوب صورت تھے‘،’کہاں ہو تم چلے آؤ‘،’ٹوٹ گیا سپنا‘اور ’تیرا پیار بن کے آئے‘،’وطن کی مٹی‘،’جیسے بے شمار زندہ اور سدا بہار نغموں کو اپنی آواز سے انو کھا رنگ روپ بخشنے والی فن کارہ، نیرہ نور،شمال مشرقی ہندوستان کی ریاست آسام کے گوہاٹی شہرمیں3نومبر 1950کو پیدا ہوئیں۔ یہیں پلی بڑھیں اور بیگم اختر کے نغموں،علی الصبح مقامی مندروں کے لاؤڈ اسپیکر س سے گونجنے والے بھجنوں اور شہر میں منعقد ہونے والے کنسرٹس سے محظوظ ہوتی رہیں۔ پھر کشاںکشاں ان کی آواز اور وجود میں یہ فن لطیف داخل ہوہی گیا۔دوسری جانب نیر ہ کے تجارت پیشہ اہل خانہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان ہجرت تحریک پر، آسام سے رخت سفر باندھنا شروع کردیا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ نیرہ کے والد محترم اور چند دیگر اہل خانہ، آل انڈیا مسلم لیگ(اے آئی ایم ایل)کے ممبر اور آسام اکائی کے اہم عہدوں پر فائز تھے۔چنانچہ یہ کارواں پہلے پہل امرتسر واردہوا ،پھر 1958میںوہاں سے سیدھا کراچی پلائن کرگیا۔نیر ہ نور کی گنگناہٹ سب کا دل موہ لیتی تھی ۔ پاکستان میں ریڈیو پاکستان،پاکستان ٹیلی ویژن ،لالی ووڈ فلم انڈسٹری،پاکستان فلمس کارپوریشن جیسے ادارے وجود میں آچکے تھے اور تب تک ان کا مرکزی کراچی ہی تھا۔چنانچہ موقع اور دستور کے مطابق نیرہ نور نے اپنا پہلا نغمہ پی ٹی وی سے ہی نشر کیا ۔
نیرہ کی گلوکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے جس شخص اور شخصیت نے دریافت کیا،اس کا نام نامی ہے پرو فیسر اسرار احمد ،جو اس وقت اسلامیہ کالج ،لاہور میں مدرس تھے۔یہ1968کی بات ہے،ایک دن نیرہ نیشنل کالج آف آرٹس،لاہور میں منعقدہ سالانہ ڈنر کے موقع پر اپنی کالج فرینڈس اور اساتذہ میں گھری میڈم نور جہاں،بیگم اختراور ناہید اختر کی آوازوں میںگارہی تھیں۔وہیں پرو فیسر موصوف نے اس جوہر قابل کو پرکھا اور یونیورسٹی آف لاہور کے مرکزی کیمپس میں واقع،ریڈیو پاکستان،لاہور کے اسٹوڈیو لے آئے ۔اب نیر ہ نور کی آواز،ہواکے دوش پر سوار ہو کرکراچی سے خیبر تک،لاہور سے پشاور تک اور اسلام آباد سے گوادر تک پورے ملک میں سُروں کی عطربیزی کرنے لگی۔ پھر محض دوسال بعد ہی انھیں پی ٹی وی،نیشنل اسٹوڈیو ،اسلام آباد سے دعوت نامہ موصول ہوا اور نیرہ کچھ اپنے پروں اور کچھ فن کے پروں پر اڑتی ہوئی’کانسٹی ٹیوشن اوینیو‘ جاپہنچی ۔نیرہ نے پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب ،فیض احمد فیض اور احمد فراز کی غزلیں گا کر آواز و ساز عطا کیا ۔اس وقت پی ٹی وی مہدی حسن،احمد رشدی جیسے لیجنڈ اور اساتذہ سے موسوم تھا،نیرہ کو ان کے ساتھ گلوکاری کے مواقع میسر آئے۔
نیرہ نور بہت جلد پاکستان شوبز انڈسٹری کے افق کا ستارہ بن گئی ۔اب وہ ریڈیو اور ٹی وی گلوکاری کے علاوہ فلموں میں بھی پلے بیک دینے لگیں۔ان کی پہلی فلم1973میں کے ۔خورشید کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”گھرانہ“ہے۔جس میںانھوںنے رونا لیلیٰ علی اوراحمد رشدی کے ساتھ ’تیراسایہ جہاں بی ہو سجنا‘نغمہ گایا ۔شائقین و فلم بینوں کی پسند پر وہ اس نغمے کے لیے لالی ووڈ کے باوقار ایوارڈ”نگار ایوارڈ “ سے سرفرازکی گئیں،علاوہ ازیں انھیں تین مرتبہ ”آل پاکستان میوزیکل کانفرنس“ کی جانب سے گولڈ میڈل ملے۔لالی ووڈ کے آگے کے سفر میں نیرہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں’ایم اشرف‘،’روبن گھوش‘،’کمال احمد‘اور ’نثار بزمی‘نے کلیدی کردار اداکیا۔
بہزاد لکھنوی کی غزل ”اے جذبہ دل گر میں چاہوں“اس وقت مراد ِشاعر بنی، جب نیرہ نور نے اسے ارشد محمود کی موسیقی میں پی ٹی وی کے پرو گرام ’سخن ور‘ میں گایا ۔آج بھی نیرہ کے البم’میری پسند‘ کاسب سے بہترین اور زیادہ سناجانے والا نغمہ ہے۔جدید شاعروں کے نائب امام ،ناصر کاظمی کی روح بھی اس وقت مسرت سے جھوم اٹھی جب نیرہ نے ان کی’رنگ برسات نے بھرے کچھ تو‘ اور ’پھر ساون رُت کی پون چلی‘غزلیں گائیں ——- اور اختر شیرانی کے رومان پر رنگ اس و قت چڑھا جب نیرہ نے ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘غزل کو اپنا ساز دروں دیا۔فیض احمد فیض،ابن انشا،تسلیم فاضلی،کلیم عثمانی،مسرور انور وغیرہ دیگر شعرا و سانگ رائٹرس ہیں جنھوں نے نیرہ کے لیے نغمے تحریر کیے اور نیرہ نے انھیں سازو آواز کی روح پھونکی۔
یہ بات کس قدر متاثر کن اور زندگانی ساز ہے کہ حکومت پاکستان کے باوقار اعزاز’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔2005‘کی مالک نیرہ نور، انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی خاتون ہیں۔ انھوں نے آغاز سے اب تک اپنے مخصوص انداز اور معیار کو قائم رکھاہوا ہے۔ان کے چہرے پر گلوکاری کے وقت بھی کسی قسم کے تاثرات کی جھلک نہ ہوتی تھی اور عام زندگی میں بھی ان کی شرافت و نجابت مثالی تھی۔ان کا ظاہری رکھ رکھاؤ سادگی کی اعلیٰ مثال ہے۔آج بھی پاکستان میں ان کی وہی شخصی قدرو منزلت۔ہاں البتہ 2012کے بعد سے انھوں نے شوبز کی دنیا سے منہ موڑلیا ہے اور اب یاد خدا میں مصروف ہیں۔
٭٭٭