نیّر اقبال علوی کا شمار پاکستان کے اُن ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتاہے جنھوں نے پس نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی کے واقعات کو موثر کہانیوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔ بیس افسانوں پر مشتمل اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’می رقصم‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ اس نجموعے کا انتساب اظہر غوری کے نام کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں قیصر اقبال کا پیش لفظ ’’ لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی ‘‘اور مصنف کا مضمون ’’ میر ی تخلیقی اساس ‘‘ بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ایک زیرک، معاملہ فہم ، مستعد اور فعال افسانہ نگار کی حیثیت سے نیّر اقبال علوی نے شعور کی رو پر گرفت کرنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کا راز اسبات میںمضمر ہے کہ انھوں نے آزادتلازم کے بر محل استعمال سے اپنے افسانوں کو روح اور قلب کی گہرائیوںمیں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع کیا ہے ۔معاشرتی زندگی کی نشیب و فراز پر ان کی گہری نظر ہے یہی وجہ ہے کہ آزاد تلازموں تک رسائی میں انھیں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ۔ اپنے افسانوں میں بات سے بات پیدا کرنے اور ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ تک رسائی ان کے اسلوب کا اہم ترین وصف ہے ۔اپنے افسانوں میں وہ گلدستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والے کسی ایک واقعہ کو منفر د رنگ سے پیرایۂ اظہار عطاکرنے کی لائق تحسین صلاحیت سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ قاری اش اش کر اُٹھتاہے ۔وہ اپنے حافظے ،جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں میں آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں ۔اپنے سماج اور معاشرے کے مسائل کی کہانی وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اُن کا اسلوب پتھروں کو بھی موم کر دیتاہے۔ اس افسانوی مجموعے میں شامل تمام افسانے نئی کہانیوں اور نئے اسالیب سے متعارف کراتے ہیں ۔مصنف نے ان کہانیوں کے وسیلے سے جمود کا خاتمہ کر کے جہد و عمل کی راہ دکھائی ہے ۔جذبات ،احساسات اور ارفع تصورات کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی سے سنجیونی بُوٹی کی تلاش ایک افسانہ نگار کا مدعا ہوتاہے ۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے مصنف نے اپنے افسانوں میں قلعہ ٔ فراموشی کے اسیروں کو عوج بن عنق کے مکر کی چالوں سے متنبہ کیا ہے۔