اُس زمانے میں دہشت گرد تھے نہ اغواء کرنے والے۔ دیہات اس قدر محفوظ تھے کہ گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے۔ جن حویلیوں میں مال مویشی باندھے جاتے تھے انکے بھی گیٹ نہیں رکھے جاتے تھے۔ گھروں میں داخل ہونے کے ان کْھلے راستوں کو مغربی پنجاب میں ’’درُنڈے‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وہ زمانہ یوں ہوا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں، اب تو دیواروں کے اوپر بھی خاردار تاروں کے جنگل اْگے ہیں۔مجھے میلبورن میں آئے پندرہ دن ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے اس دوسرے بڑے شہر میں اکثریت ایسے گھروں کی ہے جن کے گیٹ یا صدر دروازے نہیں ہیں۔ بس ’’درْنڈے‘‘ ہیں۔ اندر کاریں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ بہت سے گھر تو چار دیواری سے بھی بے نیاز ہیں۔
عالمی تحقیقی ادارے ہر سال ایک فہرست جاری کرتے ہیں کہ دنیا میں رہنے کیلئے بہترین شہر کون کون سے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے کینیڈا کا شہر وین کوور اور آسٹریلیا کا شہر میلبورن اس میں سرفہرست آ رہے ہیں اس سال آسٹریا کا شہر ویانا بھی ٹاپ پر آیا ہے۔ محفوظ ترین شہروں میں دبئی کا نام بھی آتا ہے۔ استنبول جدہ اور مدینہ منورہ بھی پہلے چالیس پچاس بہترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس فہرست کی تیاری میں بہت سے عوامل کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً سیاسی اور معاشرتی پہلو۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات، قانون کے نفاذ کی حالت، عوام کتنے محفوظ ہیں؟ فرد کو کتنی آزادی میسر ہے؟ اور میڈیا کس قدر آزاد اور غیر جانبدار ہے؟ بہترین قرار دیئے جانے والے شہروں میں ’’سہولیات‘‘ کی فراہمی بھی جانچی جاتی ہے۔ علاج معالجہ کی سہولیات، پینے کا صاف پانی، گندے پانی اور کوڑے کرکٹ سے نجات، ٹریفک کی صورتحال، بجلی، ٹیلی فون، پبلک ٹرانسپورٹ، ڈاک کا انتظام، ان سب سہولیات کی موجودگی اور ہمہ وقت موجودگی کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ تفریح کتنی میسر ہے، ریستوران، جہاں دنیا کے مختلف کھانے دستیاب ہوں، سینما، تھیٹر، کھیل، اشیائے خوردو نوش کا معیار، گھروں کی تعمیر کا سسٹم، شاہراہوں کی صفائی مرمت کے نظام کی برق رفتاری۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آب و ہوا بہترین ہو اور قدرتی آفات کا ریکارڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہو یا کم سے کم ہو۔
آپ غور کریں کہ اس کٹھن معیار پر صرف وہ ملک پورے اتر سکتے ہیں جہاں بدعنوانی کا نام و نشان نہ ہو۔ جن ملکوں کے شہر رہنے کیلئے بہترین قرار دئیے جاتے ہیں، یہ کم و بیش وہی ممالک ہیں جو کرپشن سے پاک تسلیم کئے جاتے ہیں۔ تین چیزیں فیصلہ کرتی ہیں کہ کوئی ملک بدعنوانی سے محفوظ ہے یا نہیں۔
– آزاد و غیر جانبدار عدلیہ ۔–
قانون کا زبردست نفاذ جس میں کسی کیلئے کوئی رعایت نہ ہو اور
حکومتی شعبے کا مکمل اور کڑا احتساب ۔
کینیڈا، آسٹریا، جرمنی سوئٹزر لینڈ، فن لینڈ، سنگاپور اور آسٹریلیا وہ ممالک ہیں جو بدعنوانی سے پاک ملکوں کی فہرست میں بھی ٹاپ کرتے ہیں۔ اس کی صرف ایک مثال ملاحظہ کریں کہ برائن مل نری 1984ء سے 1993ء تک کینیڈا کے وزیراعظم رہے۔ آج کل وہ ایک مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ اسلحہ کے ایک تاجر سے انہوں نے چند خدمات کے عوض کچھ رقم قبول کی تھی‘ اگرچہ یہ رقم انہوں نے اس وقت لی تھی جب وہ وزیراعظم نہیں تھے لیکن رقم دینے والے کا مؤقف یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ ختم ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے کہ معاملات طے ہوگئے تھے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم کا تعلق بھی اسی سیاسی جماعت سے ہے جس کے رکن برائن مل ہیں۔ دونوں سالہا سال سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ دونوں کا سیاسی مستقبل بھی ایک ہی جماعت سے وابستہ ہے لیکن موجودہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سوال منصب کی حرمت کا ہے اس لئے تفتیش پوری ہوگی۔ مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں میں سے ایک نے یہ کہہ بھی دیا ہے کہ ملزم کا طرز عمل اسکے عہدے کی مناسبت سے درست نہیں تھا!
اب کینیڈا میں میڈیا کی آزادی کی ایک مثال دیکھئے۔ معروف صحافی خاتون کیمرون نے چند دن پہلے ایک تقریر کی ہے جس میں اس نے دس وجوہات بیان کی ہیں جن کی بناء پر وہ ’’بدعنوان سیاست دانوں کی نسبت سیریل قاتلوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں‘‘ اگر یہ دس وجوہ ساری بیان کی جائیں تو بات لمبی ہو جائیگی۔صرف ایک وجہ سن لیجئے اور وہ یہ کہ سیریل قاتلوں کے خفیہ بنک اکاؤنٹ نہیں ہوتے۔
حکومتی پارٹی میں سے کسی نے یہ نہیں کہاکہ برائن کے خلاف مقدمہ سازش ہے یا پارٹی کو بدنام کرنے کیلئے گھڑا گیا ہے یا سسٹم تباہ ہو جائیگا یا میڈیا حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے یا صحافی اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ آج کل مغربی ممالک ’’ دہشت گردی‘‘ کیخلاف فوبیا کا شکار ہیں۔ اسکے باوجود برائن یا انکے کسی حمایتی نے یہ نہیں کہا کہ دہشت گردوں کی سازش ہے حالانکہ فضا اس قسم کا الزام عائد کرنے کیلئے بہت ہی مناسب تھی۔ ! سیدھی بات ہے کہ سابق وزیراعظم کیخلاف پوری تفتیش ہوگی۔ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر سو فیصد عمل ہوگا۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کا رخ کینیڈا کی طرف کیوں ہو؟
ہم میلبورن میں واپس آتے ہیں شہر میں سینکڑوں لائبریریاں ہیں جنہیں حکومت چلا رہی ہے۔ ہمارے محلے کی لائبریری میں سولہ کمپیوٹر نصب ہیں جن پر ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ آپ بیک وقت تیس کتابیں پڑھنے کیلئے گھر لا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتابیں آپ اپنے نام خود ہی جاری کرتے ہیں۔ فیکس کے سائز کی ایک مشین ہے۔ آپ منتخب کی ہوئی کتابیں اسکے سامنے رکھتے ہیں۔ اپنا لائبریری کارڈ، مشین پر، اوپر سے نیچے کی طرف کھینچتے ہیں‘ بٹن دباتے ہیں‘ مشین سے ایک رسید نکلتی ہے جس پر کتابوں کے عنوانات اور تاریخ لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ کتابیں واپس کرنے کیلئے بھی آپ کو کاؤنٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ایک مخصوص کھڑکی میں کتابیں ڈال دیجئے وہ ڈھلوان کی طرف سرکنا شروع کر دیں گی اور متعلقہ عملے کے پاس پہنچ جائیں گی۔ بوڑھوں بیماروں اور اپاہجوں کیلئے لائبریری انکے گھروں میں بھیجی جاتی ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ کتابیں بستر پر بیٹھے بیٹھے چن سکتے ہیں۔ ٹرکوں اور بسوں میں بنی ہوئی ان متحرک لائبریریوں کو ’’موبائل لائبریری‘‘ کہا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک اور فہرست بھی سامنے آئی ہے۔ یہ ان دس شہروں کی ہے جو رہنے کیلئے دنیا کے خراب ترین شہر ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ہمیں اس فہرست کی بھی تفصیلات میں جانا چاہئے؟ چھوڑیے! رہنے دیجئے! کہیں ہمیں کوئی نئی سازش نہ نظر آئے۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان تو دنیا کے بہترین لوگ ہیں لیکن ہم کیا کریں، ہمارے خلاف سازشیں بہت ہوتی ہیں۔ ہمارا اپنا تو کوئی قصور ہی نہیں۔ ہے نا یہی بات؟