{کلیدی لفظیات اوراصطاحات::: سامراج۔ پس نو آبادیات، ثقافتی تسلط، ثقافتی سامراج، عالمگیریت اور اردو ادب}
اب نو آبادیات، پس نوآبادیات، رد نوآبادت، نئی نو آبادیات کے بعد اپنی نئی فکری مباحث کے نئے آفاق میں داخل ہو رہی ہے اور بہت سے متنازعہ مباحث کی سوچوں کے تصادم سےسامراج ، ںو آبادیات اور ثقافتی مطالعوں اور تحقیق کا مزاج تبدیل ہورہا ہے۔ اردو میں ںوابادیات سے متعلق دانشوروں اور ادبّا کو اس نئی فکری ہواوں سے آگاہی ہونی چاہیے
تاریخ استعماریا سامراج اور نو نوآبادیات بنی نوع انسان کی تاریخ میں دو ادبی اور معاشرتی ادوار ہیں۔ یہ دونوں ادوار مغربی نوآبادیاتی دور کے بعد کے دور کو کہتے ہیں۔ نوآبادیات کے بعد نظریاتی نقطہ نظر سے مراد ہے جو سابق نوآبادیات کی سیاسی یا معاشرتی حالت کو ظاہر کرتی ہے اور نو نوآبادیات دوسرے ممالک کو خاص طور پر سابقہ منحصر نوآبادیات کو کنٹرول کرنے یا ان پر اثر انداز ہونے کے لئے معاشی ، سیاسی ، ثقافتی یا دیگر دباؤ کے استعمال سے مراد ہے۔ مغرب. یہ دونوں ممالک میں معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو کبھی مغرب کی نوآبادیات تھے۔ نوآبادیات اورپس نوآبادیات کے مابین کلیدی فرق یہ ہے کہ نوآبادیات کا مطلب استعمار اور تنازع کے دور سے وابستہ امور کے مطالعے سے مراد ہے جبکہ نئی نو آبادیاتی مغرب کی طرف سے ان کی تسلط پھیلانے کے لئے معاشی اور معاشرتی سیاسی بااثر قوتوں کے استعمال سے مراد ہے۔کی دینا میں ان قوتوں کا انسلاک ٹوت پھوت گیا ہے۔
پس نو آبادیاتی نظریہ بنیادی طور پر فکر کا ایک ڈھانچہ ہے جو 18 ویں صدی میں 20 ویں صدی میں پوری دنیا میں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی کے سیاسی ، جمالیاتی ، معاشی ، تاریخی ، اور معاشرتی اثرات کا محاسبہ کرتی ہے۔ پوسٹ کلونیل تھیوری بہت سی مختلف شکلیں اور مداخلتیں لیتا ہے ، لیکن سب ایک بنیادی دعوی میں شریک ہیں: کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اسے سمجھنا ناممکن ہے سوائے اس کے کہ سامراجی تاریخ اور نوآبادیاتی حکمرانی کی تاریخ سے وابستہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری دنیا میں یورپ کے نوآبادیاتی مقابلوں اور جبر کی عدم موجودگی میں "یوروپی فلسفہ ،" "یوروپی ادب" ، یا "یوروپی تاریخ" کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ نوآبادیاتی دنیا عالمی جدیدیت کے فراموش کردہ مرکز پر کھڑی ہے۔ "پس نو آبادیاتی نظریہ " کے ماقبل {"پوسٹ"} پرکٹھن فکری اور نظریاتی بحث بھی کی گئی ہے، لیکن اس نے کبھی یہ اشارہ نہیں کیا کہ نوآبادیات ختم ہوچکی ہے درحقیقت ، پس نو آبادیاتی کا زیادہ تر حصہ سلطنت کے باضابطہ خاتمے کے بعد نوآبادیاتی اختیار کی دیرپاہیتوں سے منسلک ہوتی ہے۔ پس نوآبادیاتی نظریہ کی دوسری شکلیں استعمار کے بعد کسی اور دنیا کے تصور کے لئے کھلے عام کوشش کر رہی ہیں ، لیکن ایک ایسی چیز جس کا وجود ابھی باقی ہے۔ 1980 ء کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ کی اکادمیوں میں پس نو آبادیاتی نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جس میں انسانیت پرستی کی تحقیقات کے نئے اور سیاسی نوعیت کے شعبوں کی ایک بڑی لہر کا حصہ بن گیا ، خاص طور پر نسائی ازم اور تنقیدی نظریہ۔ جیسا کہ یہ عام طور پر تشکیل پایا جاتا ہے ، 20 ویں صدی کے پہلے نصف حصے میں پس نوآبادیاتی نظریہ ابھر کر سامنے آتی ہے اور جنوبی ایشیاء اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی سوچ سے دل کی گہری طور پرمتعلق اور پابند ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی اکادمیوں میں ، تاریخی طور پر اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس کی توجہ کا مرکز یہ ہی علاقوں رہا ہے ، اکثر یہ لاطینی اور جنوبی امریکہ ، ہندوستان سے نکلنے والے نظریہ کی قیمت پر ہے۔ گذشتہ تیس سالوں کے دوران ، یہ 20 ویں صدی کے پہلے نصف حصہ نوآبادیاتی حکمرانی کی حقیقت کے ساتھ بیک وقت ایک دوسرے سےجکڑا ہوا ہے اور عصری لمحے میں سیاست اور انصاف کے پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں: اس کا تعلق سیاسی اور جمالیاتی نمائندگی کی شکلوں سے ہے۔ یہ عالمگیریت اور عالمی جدیدیت کے لئے محاسبہ کرنے کے لئے پرعزم ہے؛ اس کو شاہی طاقت کے نیچے سیاست اور اخلاقیات کے ایک ساتھ سمجھنے میں سرمایہ کاری کی گئی ہے ، ایک ایسی کوشش جو اس کے اثرات کا شکار رہنے والوں کے لئے پرعزم ہے۔ اور اس میں ماحولیات سے لے کر انسانی حقوق تک ، انسانی ناانصافی کی نئی شکلوں کو ہمیشہ دریافت اور نظریہ بنانے میں دلچسپی رہی ہے۔پس نو آبادیاتی نظرئیے نے ہمارے متن کو پڑھنے کے طریقے کار، مناجہیات ، قومی اور بین الاقوامی تاریخ کو سمجھنے کے طریقے ، اور عالمانہ سطح پر اس حیثیت سے اپنے اپنے علم کے سیاسی مضمرات کو سمجھنے کے طریقے کو متاثر کیا ہے۔ اس میدان کے باہر سے بار بار تنقیدوں کے باوجود (اسی طرح اس کے اندر سے بھی) ، پس نو آبادیاتی نظریہ دونوں ہی نصابی اور تدریسی اور دنیا میں تنقیدی انسانیت سوز تفتیش کی ایک کلیدی شکل ہے۔ جو کچھ کی نظرئیے میں قابل مذمت اور دل دکھانے والی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے دنیا در حقیقت ، ایسی جگہ تلاش کرنا مشکل ہے جس کے بارے میں علماء دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح کے ثقافتی سامراج کے تابعاور زیر اثر ہیں۔ مصر سے بیلیز ، ہندوستان سے برطانیہ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ تک – یہ سب ممالک اپنی ثقافت پر کسی اور طرح کے اثر و رسوخ کا شکار رہے ہیں شاید ہی یہ حیرت کی بات ہو۔ بہرحال ، عالمگیریت کوئی راز نہیں ہے۔ تاہم ، ثقافتی سامراج اور تسلط تصورات ایسے تصورات نہیں ہیں جن کو "عالمگیریت" یا محیط ارّض کے طور پر بیان اور تجزیّہ کیا جاسکتا ہےجس کو ہم نو نوآبادیاتی آفاق میں داخل ہوتے ہیں۔ جو ایک بااثر طاقت کے طور پر ابھری ہے۔ نو آبادیات کو متعدد وجوہات کی بناء پر طاقتور ممالک استعمال کرتے ہیں ، اور یہ نہ صرف انفرادی ثقافتوں بلکہ عالمی ثقافت کی تشکیل کرتا رہتا ہے۔ جو کسی نہ کسی پر " مصنوعی" ہوتی ہے۔
جو نو استعمار کے زیادہ پیچیدہ پہلوؤں میں سے ہے اور ایک اس کی ایک اہم تعریف ہے۔
1960 کی دہائی کے اوائل میں ، نو نوآبادیات کو سب سے پہلے اس معاشی (اور دوسرے) اور اس کی طولت کی وضاحت کے طور پر بیان کیا گیا تھا کہ ایک ملک کسی بیرونی علاقے میں ثقافتی امتزاج کو تیز کرنے کی کوشش میں جاسکتا ہے۔ ثقافتی امتزاج ، جیسا کہ اس وقت کووام نکرومہ نے بیان کیا ہے ، نوآبادیاتی ملک کی خواہش ہے کیونکہ وہ نوآبادیاتی ملک کو اقتصادی شراکت کے لئے بھی کھول دیتا ہے – یہاں تک کہ استحصال قوتوں کو بھی خوش آمدید بھی ہے۔ یہ تعریف سیدھی سادھی اور ہلکی سی لگ سکتی ہے ، لیکن جنگ عظیم کے بعد کا ماحول جس میں "نو آبادیات " کی اصطلاح وضع کی گئی تھی وہ بالکل انوکھا تھا۔ ان برسوں میں بہت سارے ممالک – خصوصا افریقی ممالک – کے یوروپی حکمرانی کے تابع رہے تھے۔ "نو آبادیات" کی اصطلاح ان نوآبادیات کو اپنے سابق نوآبادیات کے ساتھ رکھے ہوئے تعلقات کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ چونکہ جنگ کے بعد کے اس دور میں نو استعمار ایک تصور کی حیثیت سے تیار ہوا ، نوآبادیاتی اور نوآبادیات کے مابین جاری وابستگی پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔
میرا خیال ہے کہ نو نوآبادیاتی تعلقات ان جیسے (جو کہ ایک نوآبادیاتی رشتے پر اتنے منحصر ہیں) زیادہ تر نوآبادیاتی نظریہ کے تحت اپنایا جانا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نوآبادیات کے وہی رواج ثقافتوں کے مابین چل رہے ہیں جن کا کوئی تاریخی نوآبادیاتی تعلق نہیں ہے۔ نوآبادیات کے بعد کے ادوار میں ثقافتی رشتوں کا مطالعہ کرنا نو استعمار کے نظریات کو کئی طریقوں سے بے نقاب کرسکتا ہے ، لیکن نوآبادیاتی نظریہ نو نوآبادیات کے مکمل جوہر کا اظہار نہیں کرتا ہے۔
یہاں دو اصطلاحات ہیں جو میرے نزدیک نو استعمار کی لطافتوں کو پوری طرح سے سامنے لاتی ہیں: ثقافتی سامراج اور ثقافتی تسلط۔ ثقافتی سامراج کا خلاصہ اس طریقے کے طور پر کیا جاتا ہے کہ بقول ڈنج"بعض ثقافتی مصنوعات کو غیر قانونی ثقافت میں زبردستی مسلط کرنے کے عمل کے ذریعہ بالعموم سیاسی یا معاشی طاقت سے ان کے تعلقات کے ذریعہ غلبہ حاصل ہوتا ہے"۔ اگرچہ سامراجی خصوصیت کے مطابق فوجی اختیار اور ضبط { کنٹرول } کے ذریعے طے کیا جاتا ہے ، لیکن ثقافتی سامراج کے ساتھ یقینی طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے۔
ثقافتی تسلط مارکسی فلسفے کا ایک پہلو ہے جو ایک ثقافت کے دوسرے ثقافت کے فروغ کی طرف اس مقصد کے ساتھ توجہ دیتا ہے کہ حکمران طبقہ ’عالمی نظریہ معمول بن جاتا ہے۔ یہ ثقافتی امتزاج خاص طور پر مفید ہے کیوں کہ اس سے حکمران طبقے کے معاشی فائدے کے امکانات کے حامل صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ ماتحت گروہ کو راضی کرکے کہ معاہدے سے حاصل ہونے والے منافع مل کر کام نہ کرنے کے نقصانات سے بھی زیادہ ہیں ، حکمران ثقافت اپنی اعلی حیثیت کو برقرار رکھنے کے قابل ہے ۔
یہ ان متعلقہ تصورات کی ثقافتی سامراج اور ثقافتی تسلط کی باہم بدل جانے اور اجتماعی تعریف ہے۔ جو نو آبادیاتی نظام اور ثقافتی فروغ کی حتمی تصویر ایک ہی ملک کے مفادات میں رنگتی ہے ، اکثر ایک دوسرے کے خرچے پر۔ تاہم ، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تمام حالات میں "زبردستی مسلط کرنے" کا اطلاق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بعد میں اس تک پہنچیں گے۔ خاطرنشان رہے کی دسری جنگ عظیم سے قبل جس کو " سامراج" کیا جاتا تھا اس کا نام دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیات ہوگیا۔
اردو ادب بھی نوباآدیاتی حوالے سے بہترین تحقیقںات ،تجزیات اورانتقادات لکھے جارہےہیں۔ پاکستان کی جامعات کے صیغہ ارد میں بھی اس موضوع پر دلچسپی لی جارہی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں نو آبادیاتی کلامیے کی تحسین و تنقیص ، ردو وقبول اور مفاہمت و مزاحمت کے سلسلے میں غزل کی روایتی لفظیات اور فکری سرمائے کو نئے نظام خیال سے جوڑا گیا تھا جس کا صحیح تر مفہوم متعلقہ سیاق اور تناظر کی تعین اور جدید تنقیدی قرینوں کے اطلاق سے ہی ممکن بنایاجاسکتا ہے ۔ اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی غزل میں بہ جا فرمایا تھا:
نظمِ اکبرؔ سے بلاغت سیکھ لیں اربابِ عشق
اصطلاحاتِ جنوں میں بے بہا فرہنگ ہے
(کلیاتِ اکبر، ص ۱۶۲)
نو آبادیاتی تناظر میں یہ اصطلاحاتِ جنوں اپنے معنوی انسلاکات میں کچھ یوں بیان کی جاتی ہیں: عاشق (انقلابی) معشوق (وطن، مقامی حکمران، نوآبادکار) رقیب (نو آبادکار) وصل (حصول آزادی) ہجر (حالاتِ استحصال) حسن (سماجی انصاف) گل (نصب العین، سیاسی آدرش) عندلیب (انقلابی ادبا) گل چیں، صیاد (آزادی مخالف قوتیں) وغیرہ
اس فرہنگ نامے کی رو سے اردو غزل کی روایتی لفظیات محض کلیشے سے نکل کر معاصر سیاست کا تاریخی بیانیہ بن جاتی ہے ۔ یہاں ہم شاعر کو جبراً عاشق فرض کرنے کے بہ جائے اسے ایک استعمار زدہ معاشرے کا مضطرب فرد خیال کرتے ہوئے اس کے تخلیقی اظہاریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی تعبیری کاوش محض تفہیم کا ایک ممکنہ راستہ نہیں بلکہ یہ بقول شمس الرحمان فاروقی ‘مطالعہ کا افقِ مطلق (Absolute Horizone)) ہے" ۔
مرزا غالب نے اس دور کے فلسفۂ محبت کا یوں تجزیہ کیا ہے :
مجبوری و دعواے گرفتاریٔ الفت
دستِ تہہ سنگ آمدہ پیماں وفا ہے
(دیوانِ غالب ، ص ۱۹۴)
یہاں ہندوستانی قوم کے دستِ ناتواں پر نو آبادکار کے سنگ گراں کی عمل داری اور حالتِ مجبوری میں مقتدر قوت سے عہد وفا ، حقیقت حال واضح کردیتی ہے ۔ مرزا نے اپنے ایک خط میں غزل کے روایتی محبوب کی نایابی پر کہا تھا:
‘‘غزل کا ڈھنگ بھول گیا۔ معشوق کس کو قرار دوں جو غزل کی روشن ضمیر میں آوے ۔ (۱۳)
اردو غزل میں ‘سیاست اور غزل کے مابین اشارے کی صفتِ مشترک (۱۴) مزاحمتی بیانیے کے اظہار میں بہت ممد ثابت ہوئی ہے ۔ لہذا نو آبادیاتی دور میں عتاب شاہی سے بچتے ہوئے شعرا نے بالخصوص غزلیہ کرداروں کی معنیاتی قلب ماہیت کرتے ہوئے اپنے سماجی فرائض نبھائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی غزل اپنے عمومی بیانیے کے لحاظ سے مغرب کو مرکوز ہے ۔ یہاں ہمیں حسن و عشق کی غیر روایتی وارداتیں ، بعض مسلمات متعارفہ سے گریز اور عاشق و معشوق کی غیر معمولی باتیں اور گھاتیں سننے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً نو آبادیاتی معشوق سے متعلق یہ اشعار دیکھیے :
کفار فرنگ کو دیا ہے
تجھ زلف نے درس کافری کا
(کلیاتِ ولی ، ص ۹۴)
سانوے رخسار اوپر کھول کر زلفوں کے تئیں
ہند میں کافر نے عالم کو کیا قیدِ فرنگ
(دیوان زادہ، ص ۸)
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
(مہتاب ِ داغ، ص ۱۸۳)
تونے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی
(یادگار ِ داغ، ص ۲۰۱)
تیار رہتی ہیں صفِ مژگاں کی پلٹنیں
رخسار یار ہے کہ جزیرہ فرنگ کا
(کلیاتِ آتش، ص ۲۲۰)
یہ نہ سمجھے اور ہی شاطر نے شہ دی تھی انھیں
زعم میں اپنے سلاطین آپ کو شَہ کر گیے
(دیوان درد، ص ۷۵۔۔۔۔ { محمد روف، "اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں"، شمارہ ۵, تحقیق وتنقید, غزل تنقید ۱۵ اپریل،اردو ریسرچ جرنل}
دوسری جنگ عظیم کے بعد نو آبادیات کے نام سے ایک نئی سامراجی اصطلاح وجود میں آئی۔ نو آبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے جس کے تحت طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور علاقوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ ان کا سیاسی، معاشی و ثقافتی، ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی تنقید اور فکر کو عام انسان تک پہنچانے میں مؤرخین اور خاص طور پر ادیبوں کا بہت بڑا اور اہم کردار ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہی کی وجہ سے نو آبادیاتی نظریات، ان کی باقیات اور ان کے ثقافتی اور سازشی ہتھکنڈوں سے عام قاری کو شناسائی ہوئی۔
نو آبادیاتی قوتوں اور مقامی لوگوں کے تصادم سے جو نظریہ پیدا ہوا اسے آئیڈیالوجی کا نام دیا گیا۔ اور اسی تصادم کے نتیجے میں تقریباً 50 کی دہائی میں ’’تیسری دنیا‘‘ کی ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی۔
نو آبادیات اور استعماریت لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ استعماریت وہ تصور ہے جسے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے روبہ عمل لایا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کی ابتدا مصر اور یونان سے ہوئی۔ پھر ایک وقت میں روس، برطانیہ، فرانس اور ڈچ نو آبادیاتی قوتیں تھیں۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں انگریزوں نے اس کا آغاز کیا۔
جب انگریز اس خطے میں آئے تو اپنے مفادات کےلیے انہوں نے تین چیزوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا: روپیہ، مذہب اور جنس۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام قادر ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کا نو آبادیاتی تجزیہ" کرتے ہوئے لکھتے ہیں "تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان نے جب بھی مار کھائی ہے، ان ہی تینوں کی وجہ سے کھائی ہے۔ یہ سوچ نسل در نسل سفر کرتی رہی۔ تقسیم کے بعد ایک نوزائیدہ ملک جو مذہب کی بنیاد ہی پر وجود میں آیا تھا، وہاں یہ سوچ ختم ہوجانی چاہیے تھی، لیکن بالادست طبقے میں یہ ختم نہیں ہوئی۔ ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم آزاد ہوگئے ہیں لیکن انگریز یا نو آبادیاتی قوتیں یہاں سے بظاہر جانے کے باوجود یہیں موجود اور ہم پر قابض ہیں۔
یہ چیز ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ {ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کا نو آبادیاتی تجزیہ"از غلام قادر جمعـء 28 جون 2019، ایکپرس نیوز ، لاہور}
۔۔۔ برصغیر کی تقسیم کے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے اس پُرآشوب دور میں انسان سے روا رکھی جانے والی ناانصافی اور اسی کی مجبوری کا بہت گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے"۔ { ایکپریس نیوز، جمعہ ۲۸ جون ،۲۰۱۹}۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے آ شکار ہوتا ہے کہ نو آ بادیاتی نظام اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی اقتدارکے خلاف مزا حمت کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا لیکن انگریز نے ہندو مسلم تضادات اور سماجی و سیاسی استحصال سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ہر مز احمت کو سختی سے کچلنے میں کامیاب ہوا۔ ابتدائی مزاحمتوں کا سلسلہ اٹھارہویں صدی کے اختتام سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حوالے سے تلنگانہ کی مزاحمتی تحریک ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے جو انگریز کی کالونیل جاگیر داری کے خلاف سخت ردِ عمل تھا۔ بنگال میں حاجی شریعت اللہ اور تیتو میر کا کاشتکاروں کی مدد سے ’’ فرائضی تحریک ‘‘کا آ غاز، سید احمد شہید کی جدو جہد، ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی، ریشمی رومال کی تحریک اور عبید اللہ سندھی کی جدوجہد، تحریک ِ خلافت، عدم تعاون کی تحریک، غدر پارٹی کا قیام، بھگت سنگھ کی جدو جہد، خان عبدالغفار خان کی ’’ سرخ پوش ‘‘ یا ’’خدائی خدمت گار‘‘تحریک، راشٹریہ سیوک سنگ، کیمونسٹ پارٹی کی تحریک اور خاکسار تحریک اس امر کی واضح مثالیں ہیں۔ اگر غور کریں تو سیاسی سطح پر ابھرنے والی ان تحریکوں کے علاوہ یہاں کے تخلیق کاروں نے بھی اپنی تحریروں کے توسط سے نو آ بادیاتی نظام کے خلاف اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آ غاز میں ادب اور ادبی روایات نے شعوری اور لاشعوری طور پر مزاحمتی رویہ اختیار کیا۔ پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آ بادی، علی سردار جعفری، فیض احمد فیض اور سا حر لدھیانوی ایسے ادیب ہیں جنھوں نے سامراجی رویوں اور نو آبادیاتی نظام کی کج رویوں اور بے اعتدالیوں کو اپنی تخلیقات کا مو ضوع بنایا۔{ساحرلدھیانوی کی نظم ’’پرچھائیاں‘‘ کا نو آبادیاتی مطالعہ —- عبدالعزیز ملک،"دانش، ۲۶ اپریل ۲۰۱۹۔ بلاگر}
"صفدر زیدی کا ناول ” چینی جو میٹھی نہ تھی“ نو آبادیاتی جبر کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ناول پس کربیہ یا ناسٹلجیائی کیفیت اورنقل مکانی کے المیات کو فنکارانہ سیاق و انداز میں پیش کرتا ہے ۔اس ناول میں ثقافتی اور تہذیبی معاملات کا بشری اور انسانی تاریخ میں پنڈولم کی طرح ڈولتا ہوا فرد سامراج یا نوآبادیات کے کثیرُالملکی جبر سے دوچار ہے ، جس کل آج پر بھاری ہے۔ اس ناول کے منفرد اور اچھوتے ہونے کا انداز اس کے اصل بیانیے یعنی فرد، اجتماع اورنقل مکانی میں پوشیدہ ہے۔ ان کا افسانوی اسلوب و اظہار اردو میں نئے فکشن کی شعریات کو بڑی ہنر مندی سے خلق کرتا ہے۔
یہ ناول ولندیزی نوآبادیات سرینام، ولندیز اور ہندوستان کے مثلث سے ترتیب پاتاہے۔ ناول کے مرکزی کردار، راج اور لکشمی ہیں اور دیگر کردار رمضان، رام لال، دین محمد، بدھو سنگھ، دہنی بخش، حسن لالہ، پرمود، جمیلہ او ر چمپا کے ہیں ۔ یہ کردار ناول کی داستان کو دلچسپ ہی نہیں بلکہ مختلف ذہن سے انسانی حیّت اور مزاج کے تحت اس کی کہانی کو مختلف رنگوں سے سنوارتے ہیں۔ ناول میں ہندوستان کے علاقے بہار اور مشرقی یوپی سے بھرتی ہونے والے محنت کشوں کی کہانیاں بکھری ہیں جن کو سرینام میں غلاموں کی جگہ کاشت کاری کرنے کے لئے لایا گیا تھا ۔ غلاموں کو آزادی کے اعلان کے بعد اب مزید دس سال سرینام کے کافی اور گنّے کے کھیتوں میں کام کرنے کے بعد آزادی کا پروانہ حاصل کرنا تھا ۔ صدیوں کی غلامی کے بعد ان غلاموں کا دل بیگاری سے اکتا گیا تھا۔ کھیتی باڑی میں ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرینام کی کافی اور شکر کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی تھی۔ چنانچہ ولندیزی نو آبادیات کے انگریز نو آبادیاتی دوستوں نے ان کو ہندوستانی محنت کش مہیا کرکے اس بحران سے نکالا۔ 1873 سے 1916 تک ہندوستانی مزدور جنوبی امریکہ کی اس ولندیزی نو آبادیات کو بھیجے گئے۔ ان مزدوروں کی اکثریت کا تعلق بہار اور مشرقی یوپی سے تھا۔ کچھ برسوں بعد ان مزدورں کو زمین خریدنے اور سرینام میں کاروبار کرنے کے حقوق حاصل ہو گئے تھے، اور کچھ نسلوں بعد ان کو ولندیزی شہریت کے حقوق بھی حاصل ہو گئے۔ دسمبر 1982 کے فوجی انقلاب میں بہت سے ہندوستانی نژاد سیاست دانوں کو قتل کردیا گیا تو ہندوستان کے لوگوں کی ہالینڈ کی جانب ہجرت میں اضافہ ہو گیا۔ اس وقت بھی ہندوستانی نژاد سرینامی ، سرینام کی حکومت میں کئی وزارتوں پر فائز ہیں" {"نو آبادیاتی پس منظر میں لکھے ناول کا مطالعہ"،تحریر احمد سہیل منگل 14 / فروری / 2017، ' کاروان' بلاگر}
ڈاکٹر محمد آصف نے زمرے میں اپنی کتاب " اقبال اور نیا نوآبادیاتی نظام" { "مابعد نو آبادیاتی سیاق میں افکار اقبال کا مطالعہ" ۔۔۔ فکشن ہاوس ۲۰۱۹} میں پر مغز تحقیقی کام کیا ہے۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...