جنریشن گیپ نیوروسائنس کی نظر سے
نئی نسل کس طرف جا رہی ہے؟ یہ پریشانی میرے جیسی پرانی نسل کو اکثر رہتی ہے لیکن اس سوال پر ایک سائنسی نظر۔
پرانی اور نئی نسل کا فرق (جنریشن گیپ) آج کا نہیں، ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ اگر اردو ادب میں دیکھیں تو اقبال نے نئی تہذیب کے گندے انڈوں کو اٹھا کر باہر پھینک دینے کی بات کی۔ اس سے سو سال پہلے جائیں تو ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے اپنے دور کی مشہور کتاب توبۃ النصوح اسی موضوع پر لکھی کہ برا دور آ گیا ہے اور نئی نسل بگڑ گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلسل ہر دور کے نوجوان بڑی عمر کے لوگوں کو جامد سوچ رکھنے والے اور چڑچڑا جبکہ زیادہ عمر کے لوگ نوجوانوں کو اقدار سے باغی، جذباتی اور جلدبازی میں فیصلے کرنے والا سمجھتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے ایک نظر ہمارے دماغ کی ڈویلپمنٹ پر۔
دماغ حمل کے پہلے تین ماہ بہت ہی سادہ ہوتا ہے اور چوتھے ماہ سے اس کا سٹرکچر بننا شروع ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت یہ اس صورت میں آ چکا ہوتا ہے کہ زندگی کے بنیادی فنکشن کنٹرول کر سکے۔ لیکن ابھی یہ ایک طرح سے کورے کاغذ کی طرح ہے۔ زندگی کے شروع کے سالوں میں اس میں نیورونز اور ان کے کنکشنز تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ایک خاص سٹیج میں یہ اپنی زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی تراش خراش کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے گلاب کی جھاڑی بڑھ جائے اور اس کے بعد اس کی تراش خراش شروع ہو جائے۔ جن حصوں کو استعمال نہ کیا جائے، دماغ میں اس کے کنکشنز کٹتے جاتے ہیں اور استعمال ہونے والے حصوں کے پکے ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی چیزیں چھوٹی عمر میں سیکھنا آسان ہے لیکن بڑی میں نہیں۔
پہلی تصویر کو دیکھ لیں۔ یہ دماغ کے ایک حصے کے نیورونز ہیں۔ اس میں ایک ہی جگہ سے عمر کی تین ادوار میں دماغ کے ایک حصے کا نقشہ ہے۔
اب دوسری تصویر۔ دماغ کے تمام حصوں میں اس کا گھٹنا بڑھنا تو ہے لیکن یکساں نہیں۔ دماغ کے کسی حصے میں اس کی پِیک جلد آ جاتی ہے اور کسی میں دیر سے۔ یہ گراف دماغ کے دو حصوں کا آپس میں موازنہ ہے۔
اب تیسری تصویر۔ نومولود بچہ سب سے جلد حسیات کو استعمال کرنا سیکھتا ہے، پھر ہاتھ پاؤں کنٹرول کرنا، چلنا، دوڑنا بھاگنا اور زبان۔ اس کے بعد پھر سوچنے کا اور ہائیر کوگنیشن کا طریقہ۔ دماغ کا یہ بدلنا وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ سست ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لئے ایک بیس سالہ نوجوان کا اپنا ذہن بدل سکنا بہت آسان ہے۔
چوتھی تصویر عمر کے ساتھ ساتھ ذہن کی آؤٹ پُٹ کی۔ بڑھتی عمر کے ساتھ نیورونز کی موت ہوتی چلی جاتی ہے لیکن دماغ کا اس سے بھی ایڈجسٹ کرنے کا طریقہ ہے۔ اس طریقے سے جہاں وہ کم ہوتے ہارڈوئیر کے باوجود اچھے طریقے سے تمام فنکشنز کر سکتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ کہ نئے زاویے سے چیزیں دیکھنا اور اپنے دماغ میں موجود خیالات سے ہٹ کر سوچنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کی پلاسٹسٹی کم ہو جاتی ہے۔ (کچھ بدتمیز نوجوان اسے تنگ نظر ہونا کہتے ہیں)۔
جسے جنریشن گیپ کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے یہ بالآخر بڑھتی عمر میں ہوتا ہوا یہ فرق ہے۔
اگر اس گیپ میں آپ زیادہ عمر والی طرف ہیں تو یاد رکھیں کہ کبھی آپ بھی دوسری طرف تھے اور اگر کم عمر والی طرف ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ نے بھی کبھی دوسری طرف ہونا ہے۔ نہ نئی نسل خراب ہوئی ہے اور نہ پرانی چڑچڑی۔ اس کے پیچھے نیورولوجی ہے۔
اس پوسٹ کو پڑھ کر آپ کا ری ایکشن کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب بھی آپ کے دماغ کی موجودہ حالت اور اس کی پراسسنگ کیپیسٹی پر ہے۔
دماغ کی ایکٹیویٹی کے جنریشن گیپ کے بارے میں
http://science.sciencemag.org/content/296/5576/2131.full…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔