اسے آرام یا ذہنی سکون کی ضرورت تو نہ تھی مگر پھر بھی اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔ گہری سانس لی اور اپنے دماغ سے انرجی لیتے ہوئے آنکھوں کی پلکوں کو ایک دو بار جھپکا تو سامنے روشنی کے کئی انسان نما ہیولے نمودار ہوئے ۔ کسی کا رنگ سرخ تھا کسی کا رنگ نیلا تو کسی کا رنگ پیلا اسی طرح ناجانے کتنے رنگوں کے انسان نما ہیولے تھے ۔۔ پھر اس نے ان ہیولوں کیطرف پھونک ماری تو سبھی حرکت میں آئے اور بولنے لگے ۔ کئی ہزار داستانیں تھیں جو بیک وقت سنائی اور دکھائی جا رہی تھیں اور وہ ان داستانوں کو بڑے شوق سے سنے اور دیکھے جاتا ۔۔ اس وقت نہ تو اس کے چہرے پہ حیرت کا تاثر تھا اور نہ ہی پریشانی تھی البتہ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سنائے اور دکھائے جانیوالے قصہ جات سے محظوظ ہو رہا ہو ۔۔ چند منٹوں تک یہی سلسلہ جاری رہا " ہیولوں کو پھر سے پلکیں جھپکا کر غائب کرنے کے بعد بولا ہائے میری بے بسی اور بے حسی ۔۔
پھر اچانک کمرے میں آواز گونجی زبیر میں زرا واک کے لیے زحل تک جا رہی ہوں "
یہ سن کر زبیر نے کہا " کیا کرو گی واک کر کے نہ تو تمہیں واک کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فٹنس کی ۔۔ تم نے دبلی پتلا تو ہونا نہیں ہے ۔ تو خوامخواہ کی کثرت کیوں کرتی ہو ۔۔۔ ویسے عجیب ہے یہ زمین بھی کہ انسان کی ابتداء غار سے ہوئی اور آج زحل مشتری مریخ تک مسخر ہو چکے ۔۔ ایک وقت تھا کہ کھانے کو گھاس پھوس کچا گوشت اور پہننے درختوں کے پتے یا جانوروں کا چمڑہ استمعال ہوتا پھر گندم کپاس مکئی باجرہ اور طرح کی فصلیں کھیتیاں اگائیں انسان نے اسکے بعد ضروریات اور خوراک ٹیکنالوجی اور دوائیاں سے محدود ہوئی یوں ہی سلسلے چلتے چلتے آج نوبت فریکوینسی اشارے اور انرجی تک آ پہنچی ۔۔پہلے کثرت کرتے تھے تو سانس پھول جاتی پسینہ نکلتا اور اب صرف محظوظ ہوا جاتا ہے ۔۔
زبیر صاحب کہاں آپ قصہ آدم و اولاد آدم لے کر بیٹھ گئے ۔۔ بھول جائیے اب تو "
ہاہاہا " اچھا مزاق کر لیتی ہو مسرت " کہ بھول جاؤں " محترمہ یاد دلائے دیتا ہوں کہ مجھے جو آپ نصیحت کرتی ہیں کہ قصہ آدم و اولاد آدم لے کر بیٹھ جاتا ہوں ۔ بھول جاؤں " تو بتائیے " 3850ء میں اگر کسی بیماری کا وجود باقی ہے تو ؟۔۔
بھولنے کی بیماری تو دور کی بات " موت کا نام و نشان تک ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ۔۔ موت کو بھی چھوڑو انسانی نسل کی بھی ضرورت نہیں " جو ہے سو ہے ۔ نئے انسانوں کی ضرورت ہی کیا ۔۔ اب نہ تو مزہب ہے نہ خوف " نہ ڈر ہے نہ قیاسات اس پہ نظریات تک ختم ہو چکے ۔۔
ارتقاء و بقاء جدلیاتی مادیت کھانا پینا سونا اٹھنا بیٹھنا سیکس کرنا وغیرہ کی وقعت ہی کیا ۔ تم ہی بتاؤ کیا ہمیں کبھی ہمبستری تک کرنے کی کبھی ضرورت محسوس ہوئی ۔ یا پھر ہم کبھی روئے کبھی حیران ہوئے ۔ ہمارا کبھی کسی مصیبت سے پالا پڑا ۔ نفسیات کیا تھیں ۔ اور انکے اثرات کیا تھے ایک مدت سے ہمارا ایسے تمام تر حالات اور محسوسات سے شناسائی ہی نہیں ۔۔۔
اس سے پہلے کہ مسرت" زبیر کی باتوں کا جواب دیتی " اس بار کسی نوجوان لڑکے کی آواز گونجی ۔۔
ہائے پوپس ۔۔ مومس" وٹس گؤئنگ آن ؟
لڑکے کے سوال کے جواب میں زبیر بولا " بیٹا فضول سوالات مت پوچھا کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے ۔۔ تم دیکھ اور سن سکتے ہو ۔۔ سامنے آنا یا نہ آنا تمہاری مرضی کے تابع ہے ۔۔
اوکے ۔ اوکے ۔۔ پوپس " لیکن ایک بات بتائیے کیا آپ یہ اوٹ پٹانگ بحث اور لیکچرز بند نہیں کر سکتے ۔۔
ہو سکتے ہیں ۔۔ کبیر ۔۔ مگر ایک شرط ہے ۔۔
جی بتائیے "
پلیز بیٹا مجھے وہی غار والا انسان بنا دو ۔۔ اتنی ترقی کے باوجود میں تھک چکا بے مقصد اب مجھ سے جیا نہیں جاتا ۔۔۔ پلیز ساری انتہاؤں کے بعد پھر سے نئی ابتداء دو ۔۔
آئی ایم سوری پوپس " یہ ناممکن ہے ۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...