یہ بات حقیقت ہے کہ جب سے اس ملک میں بی جے پی کی سرکار بنی ہے اس وقت سے کوئی بھی طبقہ سکون کی سانس نہیں لے سکا ہے کیونکہ حکومت اپنے دعویٰ کے برعکس کام کرتی ہے اور سیدھے سادھے بھولے بھالے عوام حکومت کے جھوٹے گلدستہ کے چکر میں آکر اپنی بقیہ سکون کو بھی غارت کر لیتی ہے،
2014 سے لیکر اب تک کی تاریخ میں غور کریں تو کتنے ایسے اقدام کئے گئے جس سے پورا ملک سراپا احتجاج بنا اور پریشانیوں کی دور سے گزرا، کبھی نوٹ بندی جس نے تو نہ جانے کتنے پیسوں والے کی جان لے لی کتنے افراد لائن میں کھڑے کھڑے حالات سے لڑتے ہوئے جان دے دی وہ جو تباہی تھی اس کا عالم کچھ اور ہی تھا،
حیرت ہوگی کہ وکیل اور پولیس کی ایک جماعت نے بھی احتجاج کیا سوچنے کا مقام ہے جس ملک کا وکیل اور پولیس سراپا احتجاج ہو تو جنتا کا کیا حال ہوگا،
ابھی وہ احتجاج ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ CAA and NRC کا سلسلہ شروع ہوا اور2019 کے آخر سے2020 کے مارچ تک تقریباً چار ماہ پورا ملک سراپا احتجاج رہا جگہ جگہ فسادات ہوئے اس احتجاج میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی شریک رہے کتنی جانیں گئیں لیکن حکومت ہر معاملہ میں خاموش رہی اور اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا کام انجام دیتی رہی ،
اس وقت کا جو منظر نامہ ہے وہ یہ کہ کسان دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج زور پکڑتا جارہا ہے اور معلوم نہیں اگے کا منظر نامہ کیا ہوگا لیکن حکومت اندھی گونگی بہری بنی بیٹھی ہے غریب کسان شدید ٹھنڈک میں گھر سے دور روٹ پر زندگی گزار رہے ہیں حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں اپنے حقوقِ مانگ رہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں جس ملک میں حکومت اپنی من مانی کرنے لگے عوام کو ہر معاملہ میں نظر انداز کرنے لگے اس ملک میں تباہی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا،۔* اب یہاں موجودہ بل جس کے خلاف کسان آندولن کررہے ہیں اس کا تجزیہ پیش خدمت ہے*
متنا زع قانون اور حکومت کی کامیابی
حکومت کی دلیل ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیداوار کو حکومت کے زیر انتظام منڈیوں میں فروخت کرنے کی مجبوری سے آزاد ہوجائیں گے۔ وہ کسی بھی بڑے کاروباری شخص کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے اور اپنی پیداوار کو کسی بھی تاجر یا کارپوریٹ کمپنی کو اور ملک میں کہیں بھی فروخت کر سکیں گے، جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔
کسانوں کا ردعمل
کسان رہنما تاہم اسے جھوٹ اور فریب قرار دے رہے ہیں۔ آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردوکے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کی مودی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے دے رہی ہے،'' اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیے ہیں۔‘‘ اتول کمار انجان کا کہنا تھا کہ حکومت کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے۔کیوں کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کے بجائے اونے پونے داموں پربڑے کاروباری خریدلیں گے۔
ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون
بھارت میں تقریباً 55برس پرانے ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون کی رو سے کسان اپنی پیداوار کو ملک کی 7000 سے زائد سرکاری منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں بڑے ادارہ جاتی خریداروں کے استحصال سے بچانا ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ کمیشن ایجنٹوں کا خاتمہ ہوجانے سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوگا۔ تاہم زرعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں کیوں کہ جہاں بھی اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے، وہاں کسانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔
نقصان کیسے
ہند کسان نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس طرح کا نظم صرف بہار میں ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مکئی کے 1765روپے فی کوئنٹل کم از کم سرکاری قیمت کے مقابلے میں بہار کے کسانوں کو مکئی کی اپنی فصل 900 روپے فی کوئنٹل فروخت کرنی پڑی۔" ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اگر بھارت میں اپنی مصنوعات خود فروخت کرنے کا یہ نظام مثالی ہوتا تو بہار کے کسان ہر سال برباد نہیں ہوتے۔
کسانوں میں غربت
بھارت میں تقریباً 85 فیصد کسان کافی غریب ہیں۔ ان کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کے لیے اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے سلسلے میں بڑے خریداروں سے معاملہ طے کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ موجودہ نظام میں کمیشن ایجنٹ مشکل گھڑی میں کسانوں کی مالی مدد کرتے ہیں تاہم بڑی کمپنیوں سے اس طرح کسی انسانی ہمدردی کی امید رکھنا فضول ہے۔
بھارت میں حکومت زرعی پیداوار کی ہر سال ایک کم از کم قیمت (ایم ایس پی) طے کرتی ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ مودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایم ایس پی ختم نہیں کرے گی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے زرعی قوانین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ کسانوں کی طرف سے ان قوانین کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
ماہرین کی رائے
زرعی امور کے ماہر ہرویر سنگھ کہتے ہیں، ”ایم ایس پی لفظ کا اس قانون میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ میری پچھلے دنوں وزیر زراعت سے بات چیت ہوئی تھی، ان کا کہنا تھاکہ ایم ایس پی کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ ایک اسکیم ہے۔" ہرویر سنگھ کے مطابق چونکہ یہ ایک اسکیم ہے اس لیے حکومت جب چاہے کسی اسکیم کو صرف دو سطری حکم سے ختم کرسکتی ہے۔
130کروڑ آبادی والے بھارت میں تقریباً پچاس فیصد افراد زراعت پر منحصر ہیں۔ ہرویرسنگھ کا کہنا تھا کہ لوگ فی الحال زراعت کو اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں لیکن جب بڑی کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی حیثیت یومیہ مزدور جیسی ہوجائے گی۔ یہ بھارت کے سوشل سکیورٹی اور فوڈ سکیورٹی دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہوگا۔
تاریخی اقدام
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی زراعت سے متعلق ان قوانین کو تاریخی حیثیت کا حامل قراردے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے بھی انہوں نے بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی(نوٹ بندی)، اشیاء اور جی ایس ٹی اور پھر کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کو تاریخی بتاتے ہوئے، ان کے بیشمار فائدے گنوائے تھے لیکن ان سب کا حشر ہمارے سامنے ہے۔
مودی حکومت نے ان زرعی قوانین کوگزشتہ جون میں آرڈی ننس کی شکل میں نافذ کردیا تھا لیکن اب انہیں باضابطہ قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔ پارلیمان سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد یہ باضابطہ قانون کی شکل لے لیں گی۔
اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہےتو پھر آنے والا مرحلہ تباہ کن ہوگا مودی حکومت پورے ملک میں گودام بنوارہی ہے جہاں وہ پیداوار اکھٹا کریں گے اور پھر بازار میں جب پیداوار ختم ہوگا تو وہ جس قیمت پر بھی چاہیں گے فروخت کریں گے اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں کسان آندولن کا ساتھ دینا چاہیے اور کسی بھی طرح سے اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دینا چاہیے ورنہ کسان تو کسان ہمارے ہاتھ میں سوائے کاسہ گدائی کے اور کچھ نہیں ہوگا