سر یہ جو بلوچ ہیں، سرکش اور ناراض، اپنے بیٹوں اور شوہروں کی تصویر اٹھا کر سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے رونے والے، اپنے پہاڑوں اور محرومیوں پر فخر کرنے والے، اِن کا کوئی مستقل بندوبست کرنا ہے آپ نے۔ گوادر کی زمین برفی کی ٹکڑیوں کی طرح اصل باشندوں کو ہی بیچیں سر۔
اور یہ جو سابق شمال مغربی سرحدی صوبے میں سامراجیوں سے بھتہ لینے والے پختون ہیں، یہ جہالت اور پسماندگی کو کلچر کہتے ہیں، ان کی تلاشیاں لینے کے بعد اُنھیں چوکی پر ہی ننگا کرنے کا اہتمام بھی کر دیا جائے تو صحیح مزے والی تذلیل ہو گی۔ یہ ہونا چاہیے سر۔
اور یہ جو سندھی ہیں، اِنھیں صحیح اجرک اور ٹوپی کے تقدس میں مبتلا کیا گیا ہے۔ یہ سالے پیپلز پارٹی کو آخری سچ مانتے ہیں، ان کی نمائندگی کو تھوڑا بریک کریں۔ میں تو کہتا ہوں کہ غنویٰ کمپنی میں دوبارہ پھونک بھریں، جیسے ایم کیو ایم میں سے لندن اور پاکستان گروپ الگ کیے اور دونوں چل رہے ہیں۔ کیا آئیڈیا تھا سر! مہاجر صوبے کی جدوجہد بھی تھوڑی تیز ہونی چاہیے، لیکن بس ایک حد تک۔ وہ جو پرے فالتو سا جزیرہ پڑا ہے، چھینیں اُسے، جب سمندروں پر آپ کا راج ہے تو ایک جزیرہ کیوں چھوڑیں۔ ویسے بھی جزیرہ پاکستان کے نقشے میں نہیں۔
اور پنجاب! ہاہا! یہ بارہ تیرہ کروڑ خصی لوگ، بے زبان، بے ثقافت، آپ نے جس طرح شہری علاقوں میں عمرانی شاؤنزم اور فاشزم کا بیج بویا ہے، اب اُس کا پھل سامنے آنا چاہیے سر۔ شہری زندگی کو تعطل اور ابتلا کا شکار رہنا چاہیے۔
سر ایک اصول آپ کو یاد ہی ہو گا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی عفریت سر پہ منڈلاتا رہے گا تو کام چلے گا۔ پہلے امریکہ، انڈیا، روس، پھر سٹوڈنٹس، پھر دہشت گردی، ساتھ ساتھ ملکی سالمیت، اب ذرا یہ ’’معیشت بحران کا شکار ہے‘‘ والا سلسلہ مزید بڑھایا جائے۔ پلیز۔
میں ایک بات بتاؤں سر؟ یہ بالخصوص پنجاب والے کالونیلزم کے بعد شاہ پرست بن گئے ہیں (باقی ’قومیتوں‘ کی عقل شاہ کیا شاہ کے کاسہ لیس سراردوں تک ہی محدود ہے)۔ اِنھیں بادشاہ اور مسیحا پسند ہیں۔ یہ جوابدہی پسند نہیں کرتے، اِن پر حکومت کا نظام بھی اِن کی ترجیحات کے مطابق ہونا چاہیے۔
ولی عہد کی جانشینی کا بھی کوئی ضابطہ بنائیں سر۔ یا پھر ہر تین چار سال بعد اِس طرح ہیجان پیدا کرنے سے آپ کو مزہ آتا ہے؟ جو بھی ہے اچھا کر رہے ہیں آپ۔ ایسی بکواسیات سے نکل گئے لوگ تو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور پتا نہیں کیا کیا مانگیں گے۔ بہتر ہے اُنھیں ’’معیشت بحران‘‘ اور ’’ڈیفالٹ کا خطرہ‘‘ جیسی عینکیں پہنائے رکھیں۔
نصاب تو سست رو مگر مؤثر عمل ہے۔ ٹیلی وژن پر مزید لائیں اشفاقیوں کو۔ پلیز، التجا ہے۔ کتنی اچھی باتیں کرتا ہے مستنصر، پرندوں سے باتوں کی۔ انور مسعود صاحب سے وہی تین چار نظمیں بار بار پڑھوائیں، ایک ایک گھنٹے کے پروگرام میں۔ کوئی عارفہ، کوئی صافی، کوئی قاسم شاہ، کوئی بہاولپوری سرجن ڈاکٹر۔ نئے باریش اور بے ریش موٹیویشنل سپیکرز کی کھیپ آنی چاہیے۔ جس طرح کے ادیبوں کو کئی سال سے قومی اعزازات مل رہے ہیں، یہ سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ سب مہوش حیات جیسے ریورس کاؤ گرل بنیں گے، وقت آنے پر۔
یہ سب کام کرنے کے لیے اٹھارھویں ترمیم ایک خواہ مخواہ کی رکاوٹ ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ دو چار ماہ صدارتی نظام لاگوکر کے یہ کانٹا تو نکالیں۔ اچھا نہیں لگتا کہ آپ بار بار چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اسمبلیوں اور صوبوں کے پاس جائیں۔ عمران جیسا بے ریڑھ جانور ایسا دُم پر کھڑا ہو گیا ہے تو نواز اور زرداری بھی دوبارہ کھڑے ہوں گے۔ ان کا ابد کے لیے خاطر خواہ انتظام کریں۔
یاسر جواد