نئے پرانے چراغ کے لیے
میرتقی میر پرلکھے گئے مقالے کی تلخیص
شاعرشورانگیز
امتیازرومی
شعروادب دراصل لطیف جذبات واحساسات کی ترسیل کا ایک نظام ہے،جس میں قارئین یاسامعین اپنے ذوق وشوق اورتفہیمی صلاحیت کوبروئے کارلاکرنشاط وانبساط حاصل کرتے ہیں۔شاعرکے لیے چوں کہ خیال ہی سب کچھ ہے ۔اس لیے وہ اپنے جذبے کوخیال میں ضم کرکے جتنی ریس لگاتاہے اس کے اشعارمیں اتنی ہی گیرائی اورتہہ داری پیداہوتی ہے۔
شاعری کے جواز،مستقبل اورمنصب پرمغربی مفکرین نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے جن کے مطابق شاعری گویاالہام ہے اورشاعرپیغمبر۔بقول فلپ سڈنی’شاعری وہ پہلی دایہ تھی جس کے دودھ نے رفتہ رفتہ زیادہ مشکل علوم کوہضم کرنے کااہل بنایا‘۔(1) نیزاس نے بے مثال شاعرکوفلسفی اورمورخ سے بہترگردانا اوراسے ’سچاعوامی فلسفی ‘قراردیا۔رہی بات مصوری کی توان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مصوری میں تمام خطوط نمایاں ہوتے ہیں تاہم شاعری میں جذبات انگیزاوراثراندازپہلوکونمایاں کیاجاتاہے اورباقی ماندہ کوتخیلات کے حوالے کردیاجاتاہے ،جنہیں قارئین اپنی فہم وفراست اورتخیلاتی بصیرت کے ذریعے منقش کرلیتے ہیں۔اس عمل سے شعرکے ظاہرمیں بھی حسن پیداہوتاہے اورباطن میں بھی لطافت کااحساس ہوتا ہے۔
محاسن کلام غالب میں عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں:’’شاعری کواکثرشعرانے اپنی اپنی حد نگاہ کے مطابق حقیقت اورمجاز،جذبہ اوروجدان،ذہن اورتخیل کے لحاظ سے تقسیم کیاہے،مگریہ تقسیم خود ان کی نارسی کی دلیل ہے۔شاعری انکشاف حیات ہے جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدودنہیں،شاعری بھی اپنے اظہار میں لاتعین ہے۔‘‘(2)
خدائے سخن میر تقی میرخواص پسنداشعارکاشاعرعوام سے محوگفتگوہے۔اس قول میں بظاہر تضادنظرآتاہے تاہم غورکرنے سے واضح ہوجاتاہے کہ میراپنی زبان واسلوب کے اعتبارسے عوام سے محوگفتگوہیں اورفکروخیال اورتہہ داری کے لحاظ سے ان کے اشعارخواص پسندہیں۔ ان کی ’سادگی وپرکاری بے خودی وہوشیاری‘کو دیکھ کرغالب نے کہا’جس کادیوان کم ازگلشن کشمیرنہیں‘۔
میرنے سب سے پہلے اردوشاعری کوزبان وبیان اورفکروخیال کی سطح پراستنادکادرجہ بخشااورساتھ ہی ببانگ دہل یہ اعلان بھی کیاکہ ’مستندہے میرافرمایاہوا‘۔یہ محض شاعرانہ تعلی نہیں بلکہ سچائی ہے۔انہوں نے سادگی وپرکاری میں تہہ داری اورمعنی آفرینی کی بے شمارپرتیں ڈال دی ہیں۔’کوئی سادہ ہی اس کوسادہ کہے‘ورنہ تواس سادگی پہ کون نہ مرجائے جس میں معنی آفرینی کی لامحدودوسعتیں ہیں۔بس اپنی اپنی تفہیم وتعبیر کے مطابق پرتیں الٹتے جایئے اورطلسم معنی میں گم ہوتے جائیے۔
میرکی عام شناخت یاسیت ،قنوطیت اورسادگی سے ہوتی ہے تاہم ان کے یہاں ایسے شورانگیز اشعاربھی موجودہیں جوگنجینہ معنی کے طلسم ہیں۔ اس کے باوجود نقادوں نے ان کی شاعری کویاس وناامیدی کاسمبل بنادیاہے۔حالاں کہ ان کے یہاں موضوعاتی سطح پربے حدتنوع ہے۔اس یک رخی تشریح وتعبیرنے میرکی’ میریت‘ کوکسی قدرمجروح کیاہے۔ان کے یہاں مایوسی سے زیادہ عشق کی جمالیاتی انسلاک وانبساط کااحساس ہوتاہے۔اب رہی بات یہ کہ عشق ومحبت اگرقنوطیت کااستعارہ ہے توپھران کویاسیت کاامام کہاجاسکتاہے۔کیوں کہ میرکے یہاں تو’عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو ‘اسی عالم عشق میں مدہوش ہوکر کہتے ہیں:
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں کچھ ہے
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
بابائے جمالیات شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’میرکی جمالیات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ عشق ومحبت کے جمالیاتی تجربوں میں باربار ایسی اٹھان پیداہوتی ہے کہ زبردست جمالیاتی مسرت حاصل ہوتی ہے۔اکثروجد اورکیف کی عجیب کیفیت پیداہوجاتی ہے،اردوکی عشقیہ شاعری میں روحانی سروراوروجدوکیف (Exaltation)کی ایسی مثال بہت کم ملتی ہے۔(3)
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
کھینچا بغل میں، میں جو اسے مست پاکے رات
کہنے لگاکہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
جہاں سے دیکھیے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہرجا میرے دیواں میں
اگرچہ گوشہ نشیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شورنے روئے زمیں تمام لیا
میر کاسخن کسی سے نہیں ملتا کیوں کہ ان کی گفتگوکاڈھب الگ ہے۔ہوریس کہتاہے:’میں ایک ایساطرزاختیارکروں گاجس کے زبان وبیان نامانوس نہ ہوں۔ایک ایساطرزجسے ہرمصنف اختیارکرنے کی کوشش توکرے لیکن خون پسینہ ایک کرنے کے باوجودبھی اسے حاصل نہ کرسکے۔‘‘(4)
غالب وذوق کے علاوہ کثیرشعرانے طرزمیرکونہ صرف سراہابلکہ حتی المقدورزورماراتاہم میرکااندازنصیب نہ ہوا۔البتہ غالب نے موضوعاتی اورمعنیاتی سطح پرخوب استفادہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ میروغالب میں محض اسلوبیاتی سطح پرفرق نظرآتاہے۔ورنہ دونوں کی شعریات اورمفروضات تقریبا ایک ہیں۔فاروقی کی زبان میں میروغالب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ’غالب کاتخیل آسمانی اورباریک تھا،میرکاتخیل زمینی اوربے لگام۔غالب نے اپنی شاعری کے لیے اس طرح کی زبان وضع کی جسے’’ادبی‘‘زبان کہاجاسکتاہے۔میرنے روزمرہ کی زبان کوشاعری کی زبان بنادیا۔‘(5)
’لہجے میں ہوعام کہ سوپائے وہ توقیر‘اسی ٹرک نے میر کومیریت کے عہدے پرفائز کیا۔آزادکے الفاظ میں’بیان ایساپاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں…اورزبان میں خدانے ایسی تاثیردی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں‘۔فرانس کاعظیم شاعربولونے روزمرہ کے تجربات ومشاہدات کوسادے الفاظ کاجامہ اتنی خوب صورتی سے پہنایاہے کہ انسان اس سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔میرکایہ اندازدیکھیں:
کہتے ہو تو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
کچھ طرز ایسی بھی نہیں ایہام بھی نہیں
نہ رکھو کان نظم شاعران حال پر اتنے
چلو ٹک میر کو سننے کہ موتی سے پروتا ہے
الفاظ پرحیرت انگیزقدرت ہی شاعری میں تہہ داری پیداکرتی ہے اوریہ میرکوخوب آتاہے۔’’علویت اعلی دماغ کی صدائے بازگشت ہے‘‘۔اس طرح ایک سیدھاساداخیال بھی،بغیر کہے بھی،اس دماغ کی عظمت کی وجہ سے،جواسے اداکررہاہے،خودبخوداثرکرے گا‘‘ (6)لونجائنس کایہ قول میرپرہوبہوفٹ بیٹھتاہے۔
غرض کہ لب دریائے سخن پر میرکے دم قدم سے ہی جلوہ ہے ۔ان کی رواں طبیعت میں صدرنگ موجوج ہیں بس نگاہ دوربیں کی ضرورت ہے،جن کااحساس وادراک انہیں یہ کہنے پرآمادہ کرتاہے :
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر
صد رنگ میری موج ہے میں طبع رواں ہوں
چند اشعار ملاحظہ ہو :
سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سوگئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
سمجھے تھے ہم تو میر کو عاشق اسی گھڑی
جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
(1)جمیل جالبی ،ارسطوسے ایلیٹ تک،ایجوکیشنل،2015 ص295
(2)عبدالرحمن بجنوری،محاسن کلام غالب،غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی،2016ص 9
(3)شکیل الرحمن ،میرتقی میرکی جمالیات،عرفی پبلیکشنز،2011،ص 15
(4)جمیل جالبی ،ارسطوسے ایلیٹ تک،ایجوکیشنل،2015 ص164
(55)شمس الرحمن فاروقی ،شعرشورانگیز،جلد اول،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان ،تیسراایڈیشن 2006،ص 35
(6)جمیل جالبی ،ارسطوسے ایلیٹ تک،ایجوکیشنل،2015 صص206
9810945177
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“