نام کتاب : نئے پرانے افسانے : متن اور تجزیے
مصنفہ : ڈاکٹر زرنگار یاسمین
مبصر : شاہد حبیب
ڈاکٹر زرنگار یاسمین ایک علمی خانوادے کی چشم وچراغ ہیں ۔ ان کے بابا جناب کیف عظیم آبادی صاحب کو ادبی دنیا ایک معتبر شاعر کے طور پر یاد رکھی ہوئی ہے۔ کیف صاحب کا ایک شعر کافی مشہور ہواجو اب ان کی شناخت کا حصہ بن گیا ہے،سہلِ ممتنع کا یہ شعر آپ بھی ملاحظہ کرتے چلیں ـــ:
عیش و غم کے پھیرے ہیں
شب کی آغوش میں سویرے ہیں
ایسے ہی باکمال شاعر کی نگہداشت میں ڈاکٹر زرنگار یاسمین کی پرورش و پرداخت ہوئی ہے۔لیکن اب ان کی پہچان ان کے بابا کے حوالے سے نہیں ہوتی، کیونکہ وہ خود لکھنے پڑھنے کا ایک بالیدہ ذوق رکھتی ہیں۔ وہ بابا کی طرح شاعری تو نہیں کرتیں لیکن فکشن کی اچھی طالبہ رہی ہیں اور اسی حوالے سے اپنی پہچان بنانے میں سرگرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن تنقید کے حوالے سے اب ان کا نام نامانوس نہیں رہا۔پروفیسر ابوالکلام قاسمی کہتے ہیں کہ ’ وہ فکشن فہمی کے سلسلے میں اپنی بعض تحریروں کی مدد سے اپنا اعتبار قائم کر چکی ہیں‘(ص:۹)۔انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے فکشن تنقید کے موضوع پر ڈاکٹری کی سند حاصل کی ہے اور اسی موضوع کو مرکز ومحور بناکر پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ کے ساتھ ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔دریں اثنا ان کے نگراں پروفیسر اعجاز علی ارشد نے انہیں مشورہ دیا کہ ’ اردوکے اہم افسانوں کے انفرادی تجزیاتی مطالعے کی طرف توجہ دی جائے تو ایک ضروری کام انجام پا سکتا ہے‘(ص:۶)۔ یہ مشورہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین کے فکشن کے لیے دھڑکنے والے دل کو چھو گیا اور انہوں نے کام کے ابتدا کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ چونکہ گزشتہ چند دہائیوں سے بہار کی سرزمین افسانہ نگاری کے لیے بڑی زرخیز قرار پائی ہے ، اس لیے فطری طور پران کے دل میں اس پروجیکٹ کی ابتدا کاخیال بہار سے ہی شروع کرنے کا آیااور مہینوں کی محنت کے بعد زیرِ تبصرہ کتاب (نئے پرانے افسانے: متن اور تجزیے) عالمِ وجود میں آئی۔یہاں مصنفہ کو یہ مشورہ ضرور دیا جانا چاہیے کہ اپنے صوبے کے حصار سے نکلنے کاان کا دعوی اگر واقعی سچا ہے تو جلد سے جلد ان کو اس کتاب کی اگلی جلدیں منظرِ عام پر لانی چاہئیں۔ اس میں شک نہیں کہ بہار میں افسانہ نگاری واقعی اچھی ہو رہی ہے لیکن بہار سے باہر بھی افسانے بڑے پیمانے پر لکھے جارہے ہیں اور عمدہ فن پارے سامنے آرہے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک آپ دونوںکا تجزیہ نہیں کر لیتیں تب تک آپ ’اپنے منہ میاں مٹھو‘ بنی رہیں گی۔دیکھا گیا ہے کہ اپنے صوبے کے حصار میں بند رہنا یا اپنے صوبے کے فنکاروں کے لیے جانبداری کا جذبہ رکھنا کسی تنقید نگار کی اپنی شناخت اور وقعت کو منفی طور سے متاثر کرنے کا سبب ہوا کرتاہے۔اس لیے ذہن و دل کو کشادہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
یوں تو ادبی تخلیقات کے انتخاب کا عمل انتہائی دشوار گزار ہوتا ہے اور جب بات ایک سے زائد فنکاروں کی تخلیقات سے انتخاب کی ہو توپھر وہ حد درجہ محنت طلب اور جان لیوا ہو جاتا ہے۔سبھی فنکاروں کی تخلیقات پر گہری نظر ہونا اس کی اولین شرط ہوتی ہے اور اگر اس کا لحاظ نہ کیا جائے تو یہ دنیا کا سب سے آسان کام قرار پاتا ہے۔اس انتخاب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے انتخاب کے مراحل کو بڑی عرق ریزی سے طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بہار کی افسانہ نگاری کے تینوں ادوار کا احاطہ کیا ہے اور پندرہ نمائندہ افسانہ نگاروں کے کسی ایک اچھوتے موضوع کے حامل افسانے کے انتخاب کی کوشش کی ہے بلکہ ان افسانوں پر خاطر خواہ انداز میں تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ان کے اس حوصلے کی تعریف ضرور کی جانی چاہیے۔ لیکن جیسا کہ ہر ناقد نہ چاہ کر بھی اپنی پسند اور نا پسند کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے، ڈاکٹر زرنگار یاسمین بھی بہار کے نمائندہ افسانہ نگاروں کا انتخاب کرتے ہوئے اس کمزوری کا شکار ہونے سے بچ نہ سکیں۔ اس انتخاب میں جن ناموں کو شامل کیا گیا ہے یعنی اختر اورینوی (کیچلیاں اور بال جبریل)، سہیل عظیم آبادی (بدصورت لڑکی)، شکیلہ اختر (ڈائن)، سید محمد محسن (انوکھی مسکراہٹ)، غیاث احمد گدی (بابا لوگ)، قمر جہاں (انتظار)، ذکیہ مشہدی ( چاندی کے ہاتھ)، حسین الحق (نیو کی اینٹ)، عبدالصمد (آگ کے اندر راکھ)، شوکت حیات( گنبد کے کبوتر)، مشتاق احمد نوری (لمبے قد کا بونا)، غضنفر (پارکنگ ایریا)، مشرف عالم ذوقی (فزکس کیمسٹری الجبرا)، قاسم خورشید (باگھ دادا)، فخرالدین عارفی (دیوار) انہیں بہار کے نمائندہ افسانہ نگاروں کی جامع فہرست نہیں کہا جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس فہرست کو تھوڑا اور طویل کر لیا جاتا یا پھر کچھ ناموں کو حذف کرکے اس کی جگہ پر ان سے کامیاب ترین افسانہ نگاروں کو شامل کیا جاتا تو کام کو مکمل کہا جا سکتا تھا۔ وہاب اشرفی، شفیع مشہدی، شکیل الرحمن، کلام حیدری،شین مظفرپوری، شفق، شفیع جاوید، صبوحی طارق، شموئیل احمد، سید احمد قادری، احمد صغیر اور مجیر احمد آزاد جیسے فنکاروں کو کسی انتخاب میں کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے! ان ناموں کی شمولیت سے انتخاب کے وقار میں مزید اضافہ ہوتا۔
مصنفہ نے بہار میں افسانہ نگاری کی شروعات اختر اورینوی سے کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اختر اورینوی سے عرصہ پہلے سے ہی بہار میں افسانے لکھے جا رہے تھے۔ تحقیق کے مطابق بہار سے تعلق رکھنے والے ’علی محمود‘ پہلے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کا افسانہ ’چھاؤں‘ مخزن کے جنوری ۱۹۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر محض ایک ماہ قبل ان کا یہ افسانہ شائع ہو گیا ہوتا تو آج محمود علی کو اردو کا اولین افسانہ نگار قرار دیا جاتا۔ کیونکہ راشد الخیری کا افسانہ ’نصیر اور خدیجہ‘ دسمبر ۱۹۰۳ میں مخزن میں اشاعت پذیر ہواتھا۔ ایسے میں اگر بہار کے افسانہ نگاروں کی شروعات اختر اورینوی (۱۹۱۰۔ ۱۹۷۷) سے کی جائے تو اسے کیسے حق بجانب قرار دیا جا سکتا ہے!
جن پندرہ افسانہ نگاروں کے افسانے اس انتخاب کی زینت بنے ہیں، ان افسانوں میں سے کم ازکم ایک سے زائد افسانے کو متعلقہ افسانہ نگاروں کا نمائندہ افسانہ نہیں کہا جا سکتا۔ اختر اورینوی کے شامل افسانے ’کیچلیاں اور بال جبریل‘ پر تو خود پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے کتاب میں شامل اپنے مقدمے میں یہ کہہ کر نکیر کی ہے کہ ’اختر اورینوی کے مشہور افسانہ ’بال جبریل‘ کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ نیم رومانی یا تصوراتی افسانے اور عہد جدید کے حقیقت پسند افسانوی رجحان میں تفریق قائم نہیں کی گئی ہے بلکہ بعض غیرتنقیدی تصورات کو مسلمات کی طرح تسلیم کر لیا گیا ہے‘۔ اس کے علاوہ مشتاق نوری کا افسانہ ’لمبے قد کا بونا‘ اس انتخاب میں شامل ہے، اس افسانے کو فنی معیار پر مشتاق نوری کا نمائندہ افسانہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس افسانے کے بجائے بہتر ہوتا کہ نوری کا افسانہ ’مرد‘ کو انتخاب میں جگہ دی جاتی ، جو پہلی بار پروفیسر وہاب اشرفی کے ’مباحثہ‘ میں شائع ہوا تھا۔
اس کے علاوہ اگر صنفی توازن کے اعتبار سے اس انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو اس لحاظ سے بھی مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔پندرہ تخلیق کاروں کی فہرست میں صرف تین خواتین تخلیق کار کا نام حیرت انگیز ہے۔جبکہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین خود ایک خاتون فنکار ہیں تو ایسے میں ان سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ صنفی توازن کو لے کر حساس ہوں گی۔لیکن یہاں ایسا نہیں دکھتا۔ اس لحاظ سے ۱۹۸۹ میں بہار اردو اکادمی کا شائع کردہ اور پروفیسر وہاب اشرفی کی مرتبہ کتاب ’بہار میں اردو افسانہ نگاری‘ نے بھی مایوس کیا تھا۔ ۷۴؍ افسانہ نگاروں میں سے صرف نو (۹) خواتین افسانہ نگاروں کو ہی اس میں جگہ مل سکی تھی۔آج تیس سال کے بعد شائع ہونے والے انتخاب میں بھی خواتین کی حصہ داری کا نہ بڑھنا ، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔حالانکہ اس وقت نزہت نوری اور تبسم فاطمہ جیسی معتبر خواتین افسانہ نگاروں کی ایک بڑی کھیپ میدان میں ہے۔امید ہے آئندہ انتخابات میں اس طرف توجہ دی جائے گی۔
ان معروضات کو نظر انداز کرکے دیکھا جائے تواس لحاظ سے یہ انتخاب اپنی اہمیت ثابت کر رہا ہے کہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین کا ہر افسانے پر تجزیاتی مطالعہ بہت سے پوشیدہ مفاہیم کو و ا کرتا ہے۔ان کے تجزیاتی اظہار نے ایک نئے طور کی شان اپنایا ہوا ہے۔ تجزیے نہ صرف توازن سے بھرپور ہیں بلکہ اس کی زبان اور اسلوب بھی عام فہم اور سادہ ہیں۔ان میں طلبہ اور افسانوں کے شائقین کے استفادے کے لیے بہت کچھ موجود ہیں۔اس لیے مطالعے کا مشورہ بغیر کسی تردد کے دیا جا سکتا ہے۔ کتاب کے بیک کور میں معروف ناقد قدوس جاوید کے تاثرات کتاب اور مصنفہ دونوں کے اعتبار میں اضافہ کر رہے ہیں۔آخرمیں ایک ضروری بات، بہتر ہوگا کہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین پروف کی غلطیوں کی بہتات کو دور کرکے اس کے اگلے ایڈیشن کی تیاری کریں۔ رہے نام اللہ کا۔