عوام سابق حکومتوں میں بھی مصائب اور مسائل کی یلغار میں آہ و فغاں کرتے نظر آتے تھے ،آج بھی مہنگائی اور بیروزگاری کا رونا رور رہے ہیں،غرضیکہ عوام کے مصائب کا سفر نہ کبھی رکا اور نہ کبھی تھما، المیہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ایسے حکمران ہم پر مسلط ہیں جن کی ترجیحات میں عوامی مسائل اور ان کا حل شامل نہیں۔عمران خان نے تبدیلی اورنئے پاکستان بنانے کے وعدے کئے اور کہاکرتاتھا حکومت میں آکرہم غربت مٹائیں گے، کرپشن ختم کریں گے،سارا قرضہ واپس کر دیں گے، دنیا میں اپنی عزت بنائیں گے، نوکریاں دیں گے، گھر بنا کر دیں گے ، تعلیم و صحت کے شعبے کو بہتر بنائیں گے،ہم ڈیم بنائیں گے، یہ وہ وعدے اور نعرے تھے جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت وجود میں آئی اور اقتدار ملنے کے بعد نئے پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کی 70 فیصد آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے او ر ٹیکس اور قیمتیں بڑھانے کو نیا پاکستان کا نام د ے دیا۔ تبدیلی کا کھوکھلا نعرہ عوام کے ساتھ سنگین مذاق بن چکا ہے۔ وقتی ڈنگ ٹپاو اقدامات سے ملکی معاملات کو چلانے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ملکی حالات روز بروز ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کرپٹ ترین افراد وزیراعظم کے اردگرد موجود ہیں، جب تک ان سے وفاقی کابینہ کو پاک نہیں کیا جاتا، اس وقت تک عوام کو وزیراعظم عمران خان کی کسی بات کا یقین نہیں ہوگا۔ پاکستان بڑھتی شرح کے لحاظ سے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہو گیا ہے ۔ کورونا وائرس نے حکمرانوں کی اہلیت کی قلعی کھول دی ہے۔ ملک اس وقت شدید قسم کے بحرانوں اور عوام اضطراب کا شکار ہیں۔ نظام زندگی عملا مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اربوں روپے کا ملکی معیشت کو نقصان ہو چکاہے،روزمرہ کی اشیااتنی بڑھ گئی ہیں کہ غریب آدمی ان تک پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ عام آدمی، محنت کش عوام اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع ناپید ہیں، مصائب کی یلغار سے لڑتے ہوئے عوام تو پہلے ہی بے حال ہو چکے ہیں جو امید کررہے تھے کہ نئے پاکستان میں ترقی آئے گی،اب عوام مہنگائی کی صورت میں ترقی کاسامنا کررہی ہے۔ نیا پاکستان محض نیا ہی نہیں مہنگا بھی ہے۔ عام آدمی پہلے ہی غربت اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے اوراب دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا ہے ۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ بے روزگاری جیسے حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشت کاری مشکل ترین ہوگئی ہے ۔اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں عدم استحکام ہے،گندم ،گھی ،چینی ، اشیا خوردنی کی قیمتیں غریب کی رسائی سے بہت دور ہو چکی ہیں ، سبزیوں پھلوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ،غریب کی سستی ترین سبزی آلو سو روپے سے تجاوز کرگئی ہے ،چینی کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں،اگرعالمی مارکیٹ میں مسلسل کم ہوتے تیل کے نرخوں سے بھی عوام کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا ، پٹرول کی دستیابی یقینی بنانے کے لئے مہنگا کردیا ، ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ،بعض میڈیکل سٹوروں پرجان بچانےکیلئے اہم ادویات دستیاب ہی نہیں، گھی تیل، صابن کی قیمتوں میں اضافے سے شہری خرید بھی نہیں سکتے، پرانے پاکستان میں زندگی مشکل تھی یہاں تو ویسے ہی دوبھر ہو گئی ہے۔ گیس ،بجلی کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کر دیا ہے ، آٹا انتہائی مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے، دیہی علاقوں میں آٹا دستیاب ہی نہیں ،بعض شہروں میں آٹے کے حصول کے لئے شہریوں کولمبی قطاروں میں کھڑا ہوناپڑتاہے،
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود گندم کو دوسرے ممالک سے خریداجا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنا طرز حکمرانی تبدیل کرے،عوام سے ٹیکسوں کا بوجھ کم کرکے ملک سے معاشی بدحالی کو ختم کیا جائے اور بنیادی اشیائے خورد و نوش کی سستے داموں پر فراہمی یقینی بنا کر عام آدمی کو روزگار اور عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ افلاس زدہ طبقات میں سانس برقرار رکھنے اور جینے کی امنگ پیدا ہو۔وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ پاکستان کومدینہ کی ریاست بنانے کاوعدہ پورا کرے، موجودہ نظام،حالات سے تنگ آکر عوام ملک کو اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ایسی ریاست جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو،ناانصافی ، ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...