آج بازار سے گزرتے ہوئے ایک کباڑیے کی دکان پر نظر پڑی جہاں ایک پرانی لالٹین بہت سارے کباڑ کے نیچے اوندھی پڑی ہوئی تھی. میرے قدم آہستہ ہوتے ہوتے رک گئے اور اس نظارے نے مجھے کچھ ایسے گرفت میں لیا کہ تخیل کی پرواز مجھے پندرہ سال پرانے زمانے یعنی اپنے بچپن کی حسین وادیوں میں لے گئی جہاں سردیوں کی کسی گہری سیاہ رات میں بادل بہت ہی زور سے گرج رہے تھے چاند بادلوں کی بھول بھلیوں میں کہیں اپنا راستہ تلاش کر رہا تھا اور تیز سرد ہوا کے زور دار تھپیڑے کچے صحن کی زمین پر سے میرے قدم اکھاڑ رہے تھے. اتنے میں آسمانی بجلی زور دار کڑاکے کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین بار چمکی اور اس کے ساتھ ہی زمینی بجلی گُل ہو گئی. بجلی چلے جانے سے صحن میں اندھیرا مزید گہرا ہو گیا اور پھر یکایک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی. میں بھاگ کر صحن کے اس کونے میں جا کھڑا ہوا جہاں بارش ترچھی پڑنے کی وجہ سے تھوڑی سی جگہ خشک بچ گئی تھی. اتنے میں ساتھ والے کمرے سے نانی اماں کی مدھم سی آواز سنائی دی میں نے غور کیا تو نانی اماں مجھے لالٹین جلا کر لانے کا کہہ رہی تھیں. میں بھاگا بھاگا کچے کمرے میں گیا اور دیوار کے ساتھ ایک لمبے کیل پر لٹکی لاٹین اتاری، اس کی چھوٹی سی تیل والی ٹنکی میں مٹی کے تیل کی مقدار ہلا کر چیک کی اور ٹنکی کے اوپر لگی کیل نما سلاخ کو گھما کر لالٹین کی "وَٹ" اوپر کی، ساتھ ہی ایک اور چھوٹی سی سلاخ کو نیچے کی طرف کھینچا تو لالٹین کا شیشہ اوپر ہو گیا اور ساتھ پڑی ماچس کی تیلی جلا کر مٹی کے تیل سے تر وٹ کو آگ دکھائی تو وہ فوراً بھڑک اٹھی میں نے شیشہ نیچے گرایا لالٹین کو اوپر لگی تانبے کی تار سے پکڑا اور اماں کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی.
اماں اپنے کمرے میں رات کی ضرورت کی کچھ چیزیں تلاش کر رہی تھی، میں لالٹین پکڑے اماں کے پیچھے پیچھے چل کر چیزیں تلاش کرنے میں انکی مدد کر رہا تھا، مجھے ان دنوں بڑا دِکھنے کا بہت شوق تھا میں چلتے چلتے لالٹین کو اپنی کمر کے پیچھے لے جاتا تو سامنے دیوار پر میرا سایہ بڑا ہو کر پڑتا مجھے اس عمل میں بہت مزا آ رہا تھا اور میں بڑا سایہ دیکھ کر خود کو بڑا سمجھنے لگا اور اِتراتا ہوا چلنے لگا، اسی دوران اماں نے ایک صندوق کھولا تو اس صندوق سے اٹھنے والی کسی مانوس سی چیز کی میٹھی میٹھی خوشبو پورے کمرے میں پھیل گئی اماں نے صندوق میں سے کچھ گُڑ اور الائچی دانے نکال کر مجھے اس شرط پر دیے کہ میں دوسرے بچوں کو اس صندوق کے بارے میں نہیں بتاؤں گا. میں نے خوشی خوشی الائچی دانوں اور گُڑ سے اپنی جیب بھری اور اماں کے ساتھ واپس سونے والے کمرے میں آ گیا.
اس رات بارش بہت زور سے برس رہی تھی بارش کے ساتھ آندھی اتنی تیز چل رہی تھی کہ گھر کے باہر کھڑے سمبل کے درخت کا ایک بڑا لڑا تڑاخ کی آواز سے ٹوٹا اور صحن میں آ گرا. تمام لوگ بارش کی گھن گرج سے سہمے ہوئے تھے میں نے جلدی سے جلتی ہوئی لالٹین دیوار کے ساتھ لگے کیل کے ساتھ ٹانگ دی اور خود اپنے بستر میں دبک کر بیٹھ گیا. میں دوسرے بچوں سے چھپ چھپا کر الائچی دانے اور گُڑ بھی کھا رہا تھا اور مسلسل لالٹین کی لو کو تکے جا رہا تھا پورے کمرے میں مٹی کے تیل کی بو پھیلی ہوئی تھی جو مجھے ہمیشہ سے بہت بھلی لگتی تھی. مجھے اس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے اس لالٹین کی لو کو تکتے ہوئے پوری زندگی بتا دونگا، یہ مٹی کے تیل کی خوشبو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی. مجھے لگا تھا کہ اس کمرے میں بنے ہوئے مٹی کے چولہے میں جلتی قدرے گیلی لکڑیوں سے پیدا ہونے والی چٹخ پٹخ کی آواز میں ہمیشہ سنتا رہوں گا. مجھے لگا تھا لالٹین کی لو کی طرح نانی اماں بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی میں ہمیشہ پانچ چھ سال کا رہونگا اور اسی طرح اماں کے چھوٹے چھوٹے کام کرتا رہوں گا. مجھے لگا تھا اماں کی الائچی دانوں اور گُڑ والی صندوق ایک بہت بڑا راز ہے اور یہ میں ہمیشہ اپنے سینے میں لیے سب سے چھپائے رکھوں گا. لیکن بہت جلد موسم بدلا دنیا بدلی اور حالات بدل گئے، میرے خیالات بالکل غلط ثابت ہوئے. میرا بچپن میرے ہاتھوں سے نکل گیا، اماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی اماں کے صندوق کا راز بھی فاش ہو گیا اور اماں کی صندوق میں پڑے گُڑ اور الائچی دانے سب میں بانٹ دیے گئے، لالٹین کو زنگ لگ گیا اسکا شیشہ ٹوٹ گیا، مٹی کا تیل مہنگا ہو گیا اور میں بڑا ہو گیا.
انہی خیالوں میں گم سم کھڑا تھا کہ کسی راہ گزرتے آدمی کا بازو مجھ سے ٹکرایا اور میں پندرہ سال کا سفر ایک لمحے میں طے کر کے کباڑیے کی دکان پر آ کھڑا ہوا. جہاں میرا جی بہت چاہ رہا تھا کہ سامنے پڑے کباڑ سے وہ لالٹین اٹھا لوں لیکن پھر خیال آیا کہ سب مجھ پر ہنسیں گے سب اس حرکت پر میرا مذاق اڑائیں گے، کتنی عجیب بات ہے کہ میں اس وقت چاہ کر بھی وہ لالٹین نہیں خرید سکتا، شاید میں کچھ زیادہ ہی امیر ہو گیا ہوں یا شاید بہت ہی زیادہ غریب اور تہی دامن…!
“