میرے عزیز!
تم نےگزشتہ خط کے پس نوشت کے تحت لکھا ہے کہ میں تخلیق کاروں کے تعلق سے اپنے کچھ تجربات میں آپ کو شریک کروں۔ "اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے"۔ تم نے ہلکا سااندازہ لگالیا ہوگا کہ یہ تجربات کیسے رہے ہوں گے۔مثالی اور سبق آموز قسم کے۔
میں پہلے ان تخلیق کاروں کا ذکر کرنا چاہتاہوں ،جن سے میرے مثالی تعلقات رہے ہیں۔ میں نے کسی خوف، ترغیب اور اندیشے کے بغیر ان کی تخلیقات پر لکھا ہے۔ ان پر ہر طرح کے سوالا ت قائم کیے۔ انھوں نے مجھے فراخ دلی سے یہ اجازت دی کہ میں ان کی تحریروں کو ہر ہر زاویے سے کھوجوں اور پھر بھی مجھے اپنے سوالوں کے جواب نہ ملیں تو میں ان کی نارسائی یا کسی کجی کا برملا ذکر کروں۔ یوں سمجھیں ، انھوں نے اپنے گھر ، دل اور دماغ کے سب دروازے میرے لیے کھلے رکھے۔ کوئی حجاب ،کوئی تکلف روا نہیںرکھا۔اپنی تعریف پر ہواؤں میں اڑے نہ تنقید پر آپے سے باہر ہوئے۔ کسی بات کا برا مانا نہ کسی سوال پر سیخ پا ہوئے۔ میں نے ان میں بلا کے تحمل کے ساتھ ساتھ ، ایک بنیادی بصیرت کا مشاہدہ کیا۔ یہ کہ جب ہم اپنی تحریروں کو اشاعت کے بعد زمانے کے سپرد کرتے ہیں تو ہم ان پر اپنا ہر طرح کا اختیار کھودیتے ہیں۔ ہماری سب کتابیں یا تحریریں چھپنے کے بعد ،ہم پر ایک آخری الوداعی نظر ڈال کر اس دنیا کے کارزار میں چلی جاتی ہیں جہاں ان جیسی کئی دوسری کتابیں پہلے سے موجود ہوتی ہیں ۔میں ان مصنفوں کا ذکر نہیں کررہا جو اپنی کتابوں کو بازار
کی چیز کے طور پر ، بازار میں بھیجتے ہیں اور اکثرخودبھی بازار میں ، چوراہوں پر ، فٹ پاتھوں پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ انھیں کتاب کے قاری کی نہیں، گاہک کی تلاش ہوتی ہے۔ان کی بلاسے کہ گاہک کیسا ہے،انھیں کسی سے بھی دام اور کسی بھی طرح شہرت چاہیے اور ان کے پبلشر کو محض دام،وہ بھی ڈھیر سارے۔ میں تو ان تخلیق کاروں کی بات کررہا ہوں جو کتابیں اس لیے لکھتے ہیں کہ وہ اپنی روح پر ایک پیدائشی زخم لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کتاب لکھنے سے زخم مندمل نہیں ہوگا ،خود وہ بھی نہیں چاہتے کہ زخم ٹھیک ہوجائے اور وہ بھی دنیا کے بازار میں ، بازار کو درکار چیزیں فراہم کرنے لگیں اور خوش رہیں۔ وہ تو ہر کتاب سے اس زخم کو گہرااور مزید ہرا کرتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی شخص تخلیق کار ہو اور اپنی ہستی کے پاتال تک اداس نہ ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔مزاح نگار بھی اپنے اندر گہرا المیہ احساس لیے ہوتے ہیں۔بہ قول غالب:
عشرت پارہ دل زخم تمنا کھانا
لذت ریش جگر غرق نمکداں ہونا
ایسے تخلیق کار دنیا کے ـبازار نہیں ،کارزار میں کتابیں روانہ کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کتابوں کوبلاشبہ اپنے تحفظ اور بقا کے سنگین مسائل درپیش ہوتے ہیں مگر ہم مصنف اس ضمن میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مصنف ایسےدیوتا ہوتے ہیں جو کتاب کی تخلیق کے بعد ، اس سے الگ ہوجاتے ہیں؛ اس کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں کہ انھوں نے کتاب کی تقدیر، کتاب کی تخلیق کے دوران ہی میں طے کر دی ہوتی ہے۔یا وہ ایسے با پ ہیں جو اپنے بچوں کو باہر کی دنیا میں اس وقت بھیجتے ہیں ،جب انھیں یقین ہوجاتا ہے بچے جسمانی ،ذہنی اور جذباتی طور پر اتنے پختہ ہیں کہ وہ اکیلے ہر قسم کی غیر متوقع صورت ِ حال کا سامنا کرسکتے ہیں اور اگر پھر بھی بچے ناکام ہوجائیں تو وہ اسے بچوں کی تقدیر سمجھ کر صبر شکر کر لیتے ہیں۔دنیا میں کوئی باپ ایسا ہے کہ جس کا ہر بچہ جینئس ہو؟
اگر بقا واقعی ایک جنگ ہے تو کتابوں کو یہ اکیلے لڑنا پڑتی ہے۔ ہر کتاب کے پاس اس جنگ کے لیے ہتھیار ہونے چاہییں۔ ان کا اہتمام بلاشبہ مصنف کرتا ہے ،مگر اسی دوران میں جب وہ کتاب لکھ رہا ہوتاہے۔اسی لیے ہر مصنف کو کتاب کی اشاعت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے لخت جگر کو کس ان جانی دنیا میں اس وقت تک جدوجہد کے لیے بھیج رہا ہے، جب خود مصنف کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی اور اس کا نشان بس ایک قبہ گور ہوگا،اور وہ بھی کئی مصنفوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ہر مصنف چاہتا ہے کہ اس کی کتاب کی عمر اس کی اپنی عمر سے کئی گنا زیادہ ہو۔یہ تو طے ہے کہ کتاب مکمل ہونے کے بعد ، مصنف اپنی کتاب کوایک معمولی سی قرولی بھی نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ اسی کتاب کو نئے سرے سے زرہ بکتر پہنا کر جنگ کے محاذ پر بھیج سکتا ہے۔ جو مصنف اپنی کتابوں کو بعد میں ان کے دفاع کے لیے کوئی ہتھیار دینے کی کوشش کرتے ہیں،وہ کتاب کواسی طرح اپنی شکست کا اعتراف کروانے پر مجبور کرتے ہیں ،جس طرح کسی بڑے ملک کی فوج کا کمانڈر سر عام، دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اپنے ملک کی تاریخ کو سدا کے لیے سرنگوں کردے۔ ہم عام طور پر مصنفین کو دنیا کی عقل مند ترین مخلوق سمجھتے ہیں۔ جب مصنفوں سے ہمارا واقعی سابقہ پڑتا ہے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم کتنے خوش فہم تھے۔ اکثر مصنف اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ اگر انھیں اپنی کتاب کی جنگ کے دوران میںاس کی مدد کرنی ہے تو ایک اور کتاب لکھیں۔جنگ میں سپاہی کی ٹانگ ، بازویا حوصلہ ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ نیا سپاہی بھیجتے ہیں، زخمی سپاہی کے صحیح سلامت ہونے کا واویلا ، مصنفوں کو شرمندہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ اکثر مصنف یہ بھی نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی کتاب کو جنگ کا کوئی ہتھیار نہیں دے سکتے، صرف جنگ کی زبان دے سکتے ہیں، وہ بھی کتاب کے منھ میں نہیں، اپنے یا اپنے کسی جاننے والے کے منھ میں۔جنگ کی زبان، بقا کی جنگ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ میرے ان سب مصنفین سے مثالی تعلقات رہے ہیں جو یہ بصیرت رکھتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کوئی مصنف ، کتاب کے ساتھ ہرجگہ ہوسکتا ہے کہ نہ سداکے لیے۔وہ جانتے تھے کہ کتاب کو دنیا کے کارزار میں بھیجنے کے بعد، مصنف کو خاموش ہوجانا چاہیے۔جو کچھ کہے ،کتاب کہے۔اگر کوئی مصنف یہ سمجھتا ہے کہ کتاب خو دکچھ نہیں کہتی ، انھیں کتاب کی ہستی اور قاری کی صلاحیت ، دونوں پر شک ہوتا ہے ۔ اتفاق ہے کہ یہ سب مصنفین مرحوم تھے۔
کیا اپنے معاصر مصنفین سے تعلقات سے ذکر کی اب بھی ضرورت ہے؟
اخلاص کار
ناصر عباس نیرّ
9 اگست 2021ء