برادرعزیز!
تم نے کئی نقادوں کی تحریروں میں یا ان کی زبانی یہ جملہ پڑھا ہوگاکہ نقاد کا کام اچھے ادب کی تشویق پیدا کرنا ہے۔ قارئین کواچھی اور اعلیٰ کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دیناہی تنقید ہے۔
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں ، یہ حقائق سے زیادہ آرا اور تاثرات کی دنیا ہے۔لوگوں کے آرا قائم کرنےاور اپنے تاثرات میں دوسروں کو شریک کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ آدمی ،دنیا اور اس میں موجوداشیا و مظاہر کے بارے میں رائے قائم کرکے ،دراصل اپنی ازلی تنہائی اور بے بسی کا مداوا کرتا ہے۔وہ اپنی رائے کے ذریعے ، اشیا کی ماہیت و مقصد سے متعلق اپنا مئوقف پیش کرتا ہےاور پھر یہی مئوقف ،دنیا کو اس کی موجودہ شکل یا بدلی ہوئی شکل میں قبول کرنے کی بنیاد بنتا ہے(اسی لیے مقتدر قوتوں کا ہدف ،دنیا کو بدلنے کے بجائے ،دنیا سے متعلق آرا کو تبدیل کرنا ہوتا ہے)۔بغیر کسی مئوقف کے دنیا میں جینے والا آدمی ، اس سیارے کی سب سے تنہا مخلوق ہے،لیکن سب سے دل چسپ بھی۔آہ!دنیا میں دل چسپ آدمیوں کا قحط ہے۔تم دیکھو گے کہ یکسرغلط ، بے بنیاد مئوقف بھی آدمی کی تنہائی مٹا سکتا ہے(اور اس کی بنیاد پر ایک پوری جماعت وجود میں آسکتی ہے) ۔ اسی لیے لوگ اپنی تنہائی مٹانے کے لیے بے بنیاد باتیں قبول کرنے اور اس سے بڑھ کر،عجیب وغریب کام کر نے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
تم کبھی سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے گروہوں کا جائزہ لو تو تم پر کھلے کہ وہ سب گروہ دراصل ہم خیال لوگوں کے ہیں۔ اسی طرح تم کسی شخص کی آرا سے ،یہ باآسانی جان سکتے ہو کہ وہ کس قسم کی دنیا اپنے اور دوسروں کے لیے پسند کرتا ہے،لیکن تم یہ بھی دیکھو گے کہ کسی رائے کو بار بار دہرانے والے چالاک لوگ ہوتے ہیں،وہ چیزوں کی اصل سے ہماری توجہ ہٹانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کررہے ہوتے ہیں۔جب یہ گروہ کی صورت اختیار کرتے ہیں تو طاقت بھی حاصل کر لیتے ہیںاور یہ طاقت، جو اپنی اصل میں گروہی ہے، انھیں اپنی رائے کے تنقیدی جائزے سے اکثر محروم رکھتی ہے۔گروہ اپنی طرف پلٹنے،یعنی اپنی اصل کو سمجھنے کے بجائے،دوسروں پر جھپٹنے کاقائل ہوتا ہے۔
رائے کی جگہ تاثر رکھنے والے لوگ ابتدا میں معصوم ،مگر آخر آخر میں متعصب ہوجاتے ہیں۔تاثر اور رائے، دونوں ہمیں صرف ایک بات کی خبر دیتے ہیں کہ لوگ چیزوں کو کس طور دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ چیزیں اپنی اصل میں کیا ہیں، اس کا علم تمھیں آرا اور تاثرات سے نہیں ملےگا۔ جو لوگ صرف رائے اور تاثر پر بھروسا کرتے ہیں، وہ بھول ہی جاتے ہیں کہ دنیا میں حقائق بھی وجود رکھتے ہیں۔وہ ایک بڑے آبی بلبلے میں مقید زندگی بسر کرتے ہیں، یہ تسلیم کیے بغیر کہ یہ آبی بلبلہ کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ نقاد کے لیے لاز م ہے کہ وہ ادب کی حقیقت اور اس سے متعلق آرا اور تاثرات میں فرق کرنا سیکھے۔ تمھیں اپنے ارد گرد اور کتابوں میں آرا ور تاثرات کا انبار ملے گا جو تمھیں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ لوگوں نے ادب کو دیکھنے ، جانچنے اور بیان کرنے کے کیا کیا اسالیب اختیار کیے ہیں۔گویا رائے اور تاثر ہمیں ، لوگوں کے ادراک سے متعلق خبر دیتے ہیں، چیزوں کی اصل سے متعلق نہیں۔چیزوں کی اصل تک کوئی کوئی پہنچتا ہے ، مگر یہ وہی شخص ہوتا ہے جو سب سے پہلے چیزوں سے متعلق آرا اور خودچیزوں میں فرق کرنا سیکھتا ہے۔ لہٰذا جب تم یہ پڑھتے ہو کہ "ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں: مقدس وید اور دیوان غالب" تو مسحور ہوجاتے ہیں اور یہ جملہ تمھاری یادداشت کا مستقل حصہ بن جاتا ہے(آدمی عقلی باتیں یادرکھنے میں کاہل مگر جذباتی باتیں یاد رکھنے میں ماہر ہے) اور تم غالب کی شاعری کا تجزیہ نہیں کرتے، اس کی عظمت کا قصیدہ لکھتے ہو۔تم الہامی کتاب کے بشری عقل سے تجزیے کی جرآت شاید ہی کرو۔کسی مصنف کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھادینے کا نتیجہ ،اس کی پرستش کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔یاد رکھو، خطابت ،تاثر کا لازمی عنصر ہے۔ خطابت، منطق کو چار پتھر دور رکھتی ہے۔ خطابت اور تاثرکا آمیزہ ، افیون سے کم نہیںاور یہ جابجامفت دستیاب ہے ۔ رائے میں بلاشبہ کچھ نہ کچھ منطق ہوتی ہے ،اور رائے رکھنے والا، مسحو ر کرنے سے زیادہ ، قائل کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ رائے(اگر وہ میکانکی تکرار سے خود کو محفوظ رکھ سکے) انسانی شرف کے احترام کا بہ ہر حال خیال رکھتی ہے۔اپنی خطابت سے دوسروں کے ذہنوں پر آسیب کی مانند چھا جانے والے، انسانی شرف( یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ) کوبری طرح پامال کرتے ہیں۔لیکن تمھیں آرا اور تاثرات دونوں کے سلسلے میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہوگی۔ تمھیں یہ پورا حق ہے، بلکہ لازم ہے کہ تم میرے خیالات کو بھی قبول کرنے سے پہلے چھانوپھٹکو۔ تو اس ساری گفتگو کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ خط کے آغاز میں درج کی جانےو الی رائے کا جائزہ لواور پھر اسے قبول کرو۔
آؤ ،یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی "نقاد کا کام اچھے ادب کی تشویق پید اکرنا ہے"؟کیا نقاد کا یہ بنیادی کام ہے یااس کے کام کے حاصلات میں سے ایک ہے ؟ یہ دونوں مختلف باتیں ہیں۔بنیادی کام اوراس کے حاصلات میں فرق رو ارکھنا چاہیے۔بہت سے حاصلات میں سے ایک حاصل کو کسی چیز کی ماہیت کے لیے حکم کیسے بنایا جاسکتا ہے؟بنیادی کام ،وہ کام ہے، جہاں سے کوئی چیز اپنے ہونے کا جواز حاصل کرتی ہے؛جس کے بغیر اس چیز کا موجود ہونا اور اپنے ہونے کے معنی متعین کرنا محال ہے۔ تنقید کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ کسی تحریر کے فن پارے کے طور پر قائم ہونے کے اصولوں کا محاکمہ کرے اور ان اصولوں کے بارے میں کسی ابہام کا شکا ر نہ ہو؛صاف لفظوں میں،تنقید ادب کے سرچشمے تک پہنچے؛ فن پارے کے معانی اوران معانی کی تشکیل کے پیچیدہ عمل کا تجزیہ کرے۔ کوئی فن پارہ، فن پاروں کی بھیڑ میں کیسے اور کتنی جگہ بناتا ہے، اس پر غیر مبہم رائے دے۔ وہ دنیا سے کسی نئی ، مگر فن پارے کے لیے ناگزیرزبان میں بات کرتاہے یا مانگے تانگے کی زبان میں ، اسے واضح کرے۔ وہ انسانوں کی تنہائی میں ، ان کی روحوں سے سرگوشی کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں؛ وہ جن چیزوں کاانکار کرتے ہیں، یا جن سے فرار اختیار کرتے ہیں، اور اپنے انکار وفرار کے سو طرح کے جواز گھڑتے ہیں،ان کے روبرو انھیں لاتا ہے کہ نہیں۔مت بھولو کہ صرف وہی ادب ،دنیا کے بدلنے میں حصہ لے سکتا ہے،جو ہماری تنہائی میں ،ہم سے کلام کرسکتا ہے۔ اس بنیادی کام کے احسن طریقے سے انجام دینے کے حاصلات کئی ہیں۔ لوگ ،تنقید کے نتیجے میں کچھ تحریروں کی طرف متوجہ ہوں، یہ محض ایک حاصل ہے،اور اس کی اہمیت سے نکار نہیں۔
لوگوں کو اچھی کتابیں ضرور پڑھنی چاہییںاور خراب کتابوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھناچاہیے۔خراب کتابیں ، خراب کھانے کی مانند ہیں۔آدمی کو بیمار بنادیتی ہیں۔لیکن سوا ل تو یہ ہے کہ اچھی اور خراب کتابوں کافیصلہ کیسے ہوتا ہے؟کسی اصول کے تحت یا اتھارٹی کے تحت؟ کیا محض کسی مشہور و مقتدر شخص کے کہہ دینے سے کوئی کتاب اچھی یا اس کے برعکس بن جاتی ہے؟شہرت میںاتھارٹی بننے کے وافر جراثیم ہیں۔اس سے اشتہاری کمپنیاںفائدہ اٹھاتی ہیں۔ تنقید ، عقلی تجزیے کے سوا کسی کو اتھارٹی نہیں مانتی،اس لیے اچھی بری کتاب کا فیصلہ اس تجزیے اور دلیل سے ہوتا ہے،جس کے بارے میں نقاد کا ذہن قطعی واضح ہوتا ہے۔بات یہ ہے کہ جہاں تنقید اپنا کام نہ کررہی ہو، وہاں عقل و منطق وتجزیے کی جگہ شخص ،اس کا منصب ، مرتبہ یا محض عمراتھارٹی سمجھے جانے لگتے ہیں۔اگر تمھیں تنقید کی دنیا میں زندگی بسر کرنی ہے تو یا درکھو کہ عمر، منصب ، مرتبہ، شہرت، ان میں سے کوئی چیز دلیل کی جگہ نہیں لے سکتی۔
تنقید کے متعدد حاصلات میں سے ایک حاصل کو اس کا بنیادی کام بنا دینے کا نتیجہ کیا ہے؟ ایک ہی نتیجہ ہے: تنقید، آڑھت بن جاتی ہے۔ نقاد کی نشست پر کسی ایجنٹ کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ آڑھتی یا ایجنٹ کیا کرتا ہے؟وہ چیزوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے(حالاں کہ وہ اکثر نہیں ہوتیں، اوراگر اتفاقاً ہوں تو ان کے خوش نما ہونے کا سبب کبھی نہیں بتاتا۔بتا ہی نہیں سکتا) تاکہ لوگ ان کی طرف پرشوق محویت کے ساتھ متوجہ ہوں، انھیں پسند کریں ، خریدیں اور اسے اس کا حصہ ملے۔ایجنٹ کی ضرورت تاجروں کو ہوتی ہے۔ میں مانتا ہوں ، ادب کی کتابیں ،تجارت نہ بنیں تو ادب کو بقا کے لالے پڑ جائیں۔ اس لیے ادب ہی نہیں،سب طرح کی کتابوں کو آڑھتی بھی چاہییں۔آڑھتی کے لیے علم و ذوق کی نہیں،منڈی کے معاصر رجحانات پر عبورکی ضرورت ہے۔کچھ تنقید لکھنے والے شوق سے آڑھتی بنیں، مگر تم دونوں کے فرق کو نہ بھولو۔
اسی معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔تم غور کرو، جو "نقاد "یہ رائے رکھتے ہیں،وہ منڈی کے بروکر ہونے کے علاوہ، ایک بنیادی حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں۔ وہ صرف انھی کتابوں کی تشویق کی سعی کرتے ہیں جو ان کے ہم خیالوںاور دوستوں کی ہوتی ہیں یا ان لکھنے والوں کی جو ان کے تصورِدنیا کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ اپنی آرا کے پردے میں یہ بات چھپاتے ہیں۔کیا وجہ ہے کچھ نقادوں کی تحریروں میں شروع سے آخر تک چند ہی ادیبوں ،شاعروں کے ناموں کی تکرارہوتی ہے؟ انھیں پڑھیں تو لگتا ہے کہ اردو ادب بس چار شاعروں اور دو فکشن نگاروں کے سوا اپنے دامن میں کچھ نہیں رکھتا۔ نقاد تووہ ہے جو ان کتابوں پر بھی لکھے جو اس کے خیال یا تصور دنیا سے یکسر ٹکراتی ہوں مگربہ طور ادب پارہ اہمیت کی حامل ہوں۔ نرگسیت اور تنقید ، ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ نقادکی وفاداری ،ادب سے ہے، شخص سے نہیں۔شخصی وفاداریاں ، تجارت اور سیاست میں ہوتی ہیں۔
اسی مسئلے کا ایک زیادہ گہرا پہلو بھی ہے۔تم ان نقادوں کے طرز عمل کا بہ غور مطالعہ کرو جو اپنے پسندیدہ ادیبوں کے لیے موقع بہ موقع تحسینی کلمات لکھتے ہیں۔ تم پر کھلے کہ وہ اس عمل سے درحقیقت خود اپنی نفسی دنیا کو ایک بحران سے بچا رہے ہوتے ہیں۔وہ اپنے ہی تصورِ دنیا کے ساتھ تنہا جینے سے خود کو بحران میں پاتے ہیں۔ وہ جس مذہبی ، سیکولر،کلاسیکی، جدید، مابعد جدید، ترقی پسندکسی بھی تصورِ دنیا کے حامل ہوتے ہیں، اس کے سلسلے میں انھیں مسلسل تائید چاہیے ہوتی ہے۔ عام زندگی سے لے کر ،تاریخ ،ادب ، سیاست میں "بت سازی"،دراصل اپنے لیے کوئی تائید چاہنے کے سوا کیا ہے ؟ہم صرف اسی سے تائید چاہتے ہیں جو ہم سے "بڑا" ہو۔ نقاد "بت سازی " کے عمل میں شریک ہونے کے بجائے، اس عمل کا تجزیہ کرتا ہے۔
نقاد کے کام سے متعلق کچھ باتیں پہلے کہہ چکاہوں۔کچھ وہی اورکچھ دوسری کہناچاہتا ہوں۔ نقاد، ادب کی شعریات سے لے کر اس کے موضوع ،ہیئت، اسلوب ،تکنیک وغیرہ کا تجزیہ اور محاکمہ کرتا ہے ۔شعریات وہ سرچشمہ ہے ،جہاں سے ادب بہ طور ادب نمو کرتا ہے،اور خو دکو غیر ادب سے جدا کرتا ہے۔ایک لکیر ایسی ہوتی ہے ،جہاں کے ایک طرف ادب ہے ، دوسری طرف نا ادب ہے۔کچھ لوگ اسے روند کر ایک نئی لکیر بھی کھینچ دیتے ہیں(ایسوں کو زیادہ توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے)، لیکن لکیرکے ہونے سے انکار نہیں۔ سب ادبی کتابیں اسی سرچشمے سے نمو کرتی ہیں ۔یہ سب ادبی تحریروں میں اسی طرح رواں ہوتا ہے،جس طرح چشمے کے پانی میں ابلنے اور پھر ندی کی صورت بہنے کی صفت۔لو گ سہل پسند ہیں۔اسی لیے وہ صرف پانی کو دیکھتے ہیں،اس کے شور یا خاموشی کوسنتے ہیں ،اور اس میں ڈوب جانے کا خیال انھیں آتا ہے(یہ پانی خامشی سے بہ رہا ہے/ اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں: احمد مشتاق)، یہ پانی کیسے بہہ رہا ہے ، کہاں سے اپنےبہاؤ کی صلاحیت حاصل کررہا ہے،اپنےا ندر سے یا کہیں باہر سے یا بہ یک وقت دونوں سے، اس پر دھیان نہیں دیتے۔وہ حسن وترغیب حسن کے لیے تو حساس ہوتے ہیں، لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے اور اس کے مضمرات کیا ہوتے ہیں، اس سے غافل ہوتے ہیں۔ نقاد دونوںکے سلسلے میں یکساں حساس ہوتا ہے۔فن پارے میں کئی ترغیبات ہوتی ہیں، کچھ تو کوہ ندا کی مانند ہوتی ہیں،بس آدمی کھنچا چلا جاتا ہے۔سپردگی آسان ہے کہ آدمی خود کو دوسرے کی ذمہ بنادیتا ہے۔ تنقید سپردگی میں ہوشیاری کو لازم قراردیتی ہے۔" صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے"۔
تو بھائی بات یہ ہے کہ لوگ خود کو فن پارے کے بارے میں دو چار تحسینی جملے لکھتے ہیں،یازیادہ سے زیادہ اس کے معنی تھوڑی بہت تشریح کردیتے ہیں یا پھر(کہانی کا)خلاصہ کردیتے ہیں،ساتھ دو جملے بہ طور رائے ٹانک دیتے ہیں،وہ فن پارے کی اصل ،اس کے معانی کے سرچشمے تک نہیں پہنچتے۔ شعریات کو تم ادب اور دوسری کتابوں کے ان تھک مطالعے کے بعد ہی گرفت میں لے سکو گے۔ادب کے سوا کتابیں بھی انسان فہمی کا کام کرتی ہیں، ان سے نقا د کو ضرور بہرہ مند ہونا چاہیے(اس پر گفتگو ہم ایک اور خط میں کر چکے ہیں)۔ دو ایک کتابیں پڑھنے کے بعد ، کسی کتاب پر مقتدر انداز میں رائے دینے والوں پر بس مسکرا دیا کرو، ان کی جسارت پر۔(نقا دکومسکرانا بھی چاہیے )۔ہر مصنف ، شعریات یا سرچشمے کو باانداز دیگر بروے کار لاتاہے، اسے سمجھے بغیر تنقید ادھوری ہے۔پھر موضوع ،اسلوب ،تکنیک وغیرہ کے تجزیے کی باری آتی ہے۔ اب نقاد کے تجزیے کے نتیجے میںلوگ کسی مصنف یا کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے ۔ اگر نقاد اس خیال سے کسی کتاب پر لکھے کہ لوگ ا س کی طرف متوجہ ہوں گے تو یہ خیال اس کے طریقہ نقد پر بری طرح اثرا نداز ہوگا۔ وہ خود سے یازیر نقد کتاب سے بے ایمانی کا مرتکب ہوگا۔وہ کسی کتاب کو دوٹکے کی ثابت کرنے یا اسے آسمان پر چڑھانے کے خیال سے نہیں لکھ سکتا۔وہ اپنے طریق کار کی پوری دیانت داری سے پابندی کرتے ہوئے، کتابوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ نتیجہ کچھ نکلے۔ کوئی کتاب یامتن ، اعلیٰ ثابت ہو یا اسفل،لوگ اسے پسند کریں یا اس سے دور ہوں۔ نقا دکو اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کہ نقاد، ادب کے قارئین سے کوئی ربط ضبط نہیں رکھتا۔ ایک نقاد اور قاری میں بس یہ فرق ہے کہ نقاد فن پارے کو باریک بینی سے دیکھتا ہے،اور اس کے پاس دیکھنے اور جانچنے کا باضابطہ طریق کارہوتا ہے اور پھر اپنے مطالعے کو مدلل اندا ز میں بیان کرنے کا اسلوب رکھتاہے ۔ یوں سمجھو، قاری بس سیر کرتا ہے ، نقاد سفرنامہ بھی لکھتا ہے۔ چیزیں بیان میں آکر ہی پوری طرح واضح ہوتی ہیں۔لہٰذ ا قارئین کی سرسری نظر سے جو چیزیں غیر واضح رہ جاتی ہیں، نقاد انھیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اکثر قارئین اسی لیے حیران ہوتے ہیں کہ نقاد کو اسی ادب پارے کے وہ پہلو کیسے نظر آگئے ،جن کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا تھا۔ اس میں کوئی گہرا راز نہیں۔ ایک قاری متن اور خود اپنے خیالات پر ارتکازکرنا سیکھ لے اور اس ارتکازسے وابستہ ذمہ داریوں(جو مسلسل ادا کرنا ہوتی ہیں، دو ایک دنوں کی بات نہیں) کو پورا کرنے پر کمر باندھ لے ، اپنی ذہنی کاہلی اور سرسری پن سے نجات پالے تو وہ نقاد ہے۔ گویا، نقاد ادب کی دنیا میں سہل پسندی کی تلافی کرتا ہے۔سہل پسند قارئین کی(فکری ،جمالیاتی) مدد کرتا ہے ۔(تم جانتے ہو ، میں رہ نمائی جیسے الفاظ سے گریز کرتا ہوں)۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، سب ادبی کتابیں مل کرایک اپنی دنیا (تم اسے روایت کہہ لو،جس کا علم تمھیں لازماً ہونا چاہیے)تعمیر کر رہی ہوتی ہیں،اس دنیا میں کسی کتاب کی جگہ کیا ہوگی ، اس پر رائے دیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے ،جہاں نقاد آزمائش سے گزرتا ہے۔ یہ آزمائش اس کےذوق، فہم ،بصیرت ہی کی نہیں ،اعصاب کی بھی ہے!
ناصر عباس نیرّ
23 اگست 2021ء