“عجیب نئی دنیائیں تلاش کرنے، نئی زندگی اور نئی تہذیبوں کو ڈھونڈنے اور بہادوری کے ساتھ ان جگہوں پر جانے کی جستجو، جہاں کوئی پہلے کبھی نہ گیا ہو”
یہ تو سٹار ٹریک کے عملے کا مشن تھا لیکن انسانوں کی اپنی بھی یہی تاریخ رہی ہے۔ لیکن کیوں؟
آج سے ایک لاکھ پینتیس ہزار سال قبل ہونے والی بڑی موسمیاتی تبدیلی نے انسانی آبادی کو قریب قریب ختم کر دیا۔ بچنے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق صرف چھ سو رہ گئی تھی۔ انہوں نے افریقہ کے جنوب میں سمندر کے قریب رہ کر اپنی نسل جاری رکھی۔ یہ دور ہمارے آباء کے لئے ایک انتہائی ٹریجڈی تھی، لیکن ہماری نوع کے لئے ایک نعمت۔
اب کئی سائنسدان یہ یقین کرتے ہیں کہ اس ماحولیاتی مار نے ہمارے کردار کو بدل دیا۔ اس میں وہی زندہ بچے جو نیا کرنے کے خواہش مند تھے۔ جو ایک ڈگر پر ایک ہی طرح سے زندگی بسر کرنے والے تھے، وہ اس میں نہیں بچے۔ جبکہ وہ جو نئی جگہوں کی تلاش میں رہتے تھے، نئی خوراک، نئی جگہ اور نئے ماحول سے خوف زدہ نہیں تھے۔ صرف وہ اس میں باقی رہے۔ سائنسدانوں نے یہ نتیجہ انسانی باقیات دیکھ کر نکالا ہے جو لاکھوں سال تک افریقہ کے ایک حصے تک رہیں جبکہ اس بڑے سانحے کے بعد چند ہزار سال میں ہی یہ ان کے آثار مشرقیِ وسطیٰ سے چین تک ملتے ہیں۔ لاکھوں سال تک انسان زیادہ تر افریقہ میں اپنی جائے پیدائش کے قریب قریب کے علاقوں تک محدود رہا۔ جبکہ اس واقعے کے کچھ ہی ہزار سال کے اندر ان بچنے والوں کی اگلی نسلیں دور دراز تک پھیل گئیں۔ 2015 میں ہونے والی دریافتوں میں جدید اور قدیم آبادی کی جینیاتی تجزیے نے اس خیال کو تقویت دی ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ پچاس ہزار سال قبل انسان پورے یورپ میں پھیل چکے تھے جبکہ بارہ ہزار سال قبل دنیا کے گوشے گوشے بکھر گئے تھے۔ کالونائیزیشن کے اعتبار سے یہ رفتار بہت تیز رہی۔ نینڈرتھال، جو لاکھوں سال سے دنیا پر تھے لیکن کبھی یورپ اور مغربی ایشیا سے باہر نہیں گئے۔
اگر ہماری نوع کو ایک بڑے حادثاتی واقعے نے تبدیل کیا اور اس وقت کا مشکل دور صرف ان کے لئے تھا جو خطرات مول لے سکتے تھے تو کیا یہ ہمارے جینز میں بھی کہیں موجود ہے؟ ایسی جین 1996 میں دریافت ہوئی اور اس کو ڈوپامین ریسپٹر جین ڈی فور کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دماغ پر ڈوپامین کے رپسپانس پر اثر ڈالتی ہے۔
ڈوپامین ایک نیوروٹرانسمیٹر ہے (ایسے سو سے زیادہ نیوروٹرانسمیٹر اپنا اپنا کام کرتے ہیں)۔ ایک پروٹین کا مالیکیول جو نیورونز کے رابطے کا کام کرتا ہے جو دماغی انعامی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آسان سمجھ کیلئے یہ کہ ہمارا انعامی سسٹم ہمیں خوشی کا جذبہ دیتا ہے اور ڈوپامین ان سگنلز کو لے کر جاتا ہے۔ (اس کے بغیر اچھی خبر پر آپ چھلانگیں نہیں ماریں گے)
اس جین کے کئی ویری اینٹ ہیں جو ٹو آر یا تھری آر وغیرہ کہلاتے ہیں۔ ہر ایک میں یہ جین ہے لیکن جس طرح کسی کا قد یا آنکھ کا رنگ مختلف ہوتا ہے، ویسے ہی تھرِل اور نئی چیز کی تلاش کی خواہش میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اس کا ایک ویری اینٹ سیون آر ہے۔ جس میں یہ موجود ہو، اس میں مہم جوئی اور تھرل کا جذبہ زیادہ ہونے کا امکان موجود ہے، کیونکہ ایسے لوگوں کو یہ کرنا خوشی دیتا ہے۔
اس جین کے ملنے سے کچھ سوالوں کے جواب مل گئے لیکن کچھ نئے سوال بھی پیدا ہوئے۔ وہ آبادیں جو اپنی جائے پیدائش کے قریب ہی رہتی رہی ہیں، کیا ان میں سیون آر کی کمی ہے؟ اس کا جغرفیائی کنکنشن 2011 میں کی جانے والی اہم سٹڈی نے دیا۔ اس سے ہمیں پتا لگا کہ وہ آبادیاں جو افریقہ سے جتنی دور گئی تھیں، ان میں اس ویری اینٹ کی موجودگی زیادہ تھی۔
یہاں پر یہ یاد رہے کہ شخصیتی خاصیتوں کو کسی ایک جین سے منسلک کر دینا کسی چیز ضرورت سے زیادہ سادہ کر دینا ہے۔ ہر چیز کئی جینز کے ملاپ سے نکلتی ہے اور پھر انسانی زندگی اور حالات کا ان پر اثر ہوتا ہے لیکن جینیاتی کنٹریبیوشن سے اثر نکالا جا سکتا ہے اور مزید جینز بھی تلاش کر کے ایک تصویر بنائی جا سکتی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ بدلتی دنیا سے مطابقت رکھنے میں وہی جینز ہماری مددگار ہیں جس نے ہمیں ایک لاکھ پینتیس ہزار سال قبل زندہ رکھا تھا۔
اس سے بھی اچھی خبر یہ ہے کہ نہ صرف یہ جینز نئے معاشرے میں رہنے میں مدد کرتی ہیں بلکہ یہ کہ معاشرہ خود ان جینز کو شکل دیتا ہے۔ ایپی جینیٹکس پر ہونے والی پیشرفت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نہ صرف ہمارا ڈی این اے ہمیں پروگرام کرتا ہے بلکہ ہماری سوسائٹی ہماری ڈی این اے پر اثر ڈالتی ہے، یعنی ڈی این اے کے ساتھ بندھی پروٹین بیرونی ماحول کے مطابق جینز کو آن یا آف کر سکتی ہیں۔ ہم معاشرے کی تبدیلیوں کی رفتار کا سامنا کرنے کی اس سے بہتر صلاحیت رکھتے ہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔
زرعی انقلاب کے بعد ایک لمبے عرصے تک یکسانیت والی زندگی کو صنعتی انقلاب میں آنے والی تبدیلی نے ضرب لگائی۔ بہت سی جگہوں پر بزنس اور نفسیات کا لٹریچر یہ کہتا ہے کہ انسان تبدیلی سے اور نئی چیزوں سے گھبراتے ہیں۔ یہ تصور بالکل غلط ہے۔ بطور نوع ہم نئے کی جستجو کو پسند کرتے رہے ہیں۔ ہر نئی دریافت، خواہ کسی نئے فلکیاتی مظہر کی ہو، کوئی نئی ٹیکنالوجی ہو، کسی نئی جگہ کی سیر ہو، ہمیں بھاتی ہے۔ تیزرفتار تبدیلیوں والا دور آج کا ہمارے اس جذبے کو چھیڑتا ہے۔ اگر اس جذبے کو زبردستی اور شعوری طور پر نہ دبایا جائے، تو یہ ہماری فطرت ہے۔
“عجیب نئی دنیائیں تلاش کرنے، نئی زندگی اور نئی تہذیبوں کو ڈھونڈنے اور بہادوری کے ساتھ ان جگہوں پر جانے کی جستجو، جہاں کوئی پہلے کبھی نہ گیا ہو”
یہ ہمارے جینز میں لکھا ہے۔