کوئی ایک مصیبت اس قوم پر ہوتی تو اس کا علاج بھی ممکن ہوتا‘ یہاں تو پے درپے مصیبتیں ہیں ڈھانچہ ایک ہے اور اس کو بھنبھوڑنے والے زیادہ ہیں۔ صرف وہ تو نہیں جو پنجوں سے نوچ رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کے دانت نوکیلے لمبے اور تیز ہیں۔ وہ تو ہڈیاں تک چبا رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کی چونچیں کدالوں جیسی ہیں۔ ان میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جسے دیکھ کر عفریت کانوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔
اس قوم پر کوئی ایک مصیبت تو نہیں! ابھی تو ملک بنا بھی نہیں تھا کہ یونینسٹ پارٹی کی شکل میں جاگیردار چھری کانٹے لے کر انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ کیا ہی نامبارک گھڑی تھی جس وقت ٹوڈیوں کے اس گروہ کو مسلم لیگ میں آنے دیا گیا!کاش ایسا نہ ہوتا! یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی عرضداشت ملکہ برطانیہ کو پیش کی تھی کہ برصغیر سے انگریز نہ جائے۔ یہ عید کے دن انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر مبارکباد دینے جاتے تھے۔ گھنٹوں کھڑے رہتے چپڑاسی آ کر بتاتا تھا کہ صاحب بہادر نے مبارک باد قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ غیرت مند ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے گلے ملتے تھے۔ تاریخ کو ابھی تک یاد ہے کہ اپنے ہم وطنوں سے فرعونوں کا سلوک کرنے والی یہ گاجر مولیاں جب انگریز حاکم کو سلام کرنے کیلئے جھکتی تھیں تو ان کی پشت سے کپڑا اٹھ جاتا تھا اور ان کی سرینیں برہنہ ہو جاتی تھیں!
پھر جرنیل آ گئے اور حکومت ملی تو وہ سب کچھ کیا جو نودولتیے کرتے ہیں۔ آج ان کی نسلیں جب اپنے آپ کو اقتدار کیلئے پیش کرتی ہیں تو لوگ کس قدر نفرت کرتے ہیں‘ اس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتیں اور عوام کی سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ ان کی نفرت فیصلے کرانے میں کوئی کردار نہیں ادا کر رہی!
پھر افسرشاہی نے کھلبلی مچا دی یہی دارالحکومت تھا جس میں نوکرشاہی کے ایک نمائندے نے بیٹی کو شادی پر سونے کا جوتا پہنایا۔ کسی کے پاس چونسٹھ پلاٹ‘ کسی کے پاس بیس بنگلے اور کسی کے پاس بیرون ملک بنکوں میں ان گنت ڈالر‘ کیا اس سے بڑا مذاق بھی ہو سکتا ہے کہ فوجی آمروں کے دستِ راست رہنے والے‘ ان کی خفیہ ایجنسیاں چلانے والے اور انکے اقتدار کو طول دینے کیلئے سب کچھ کر گزرنے والے آج وعظ نما مضامین لکھ رہے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں۔ اس قوم پر کوئی ایک مصیبت تو نہیں!
لیکن یہ ساری مصیبتیں تو پرانی ہیں خلق خدا ان کی عادی ہو چکی ان میں سے کچھ ٹل رہی ہیں اور کچھ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی لیکن قوم پر اب جو نئی مصیبت ٹاک شو منعقد کرنے والے میزبانوں
(ANCHOR-PERSONS)
اور بزعمِ خود تجزیے پیش کرنے والے بزرجمہروں کی شکل میں نازل ہوئی ہے اس نے عذاب کی دوسری شکلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ کالم نگاروں سے بھی پڑھنے والے تنگ آ گئے ہیں لیکن کالم نگار اپنے آپ کو مسلط نہیں کرتے کوئی چاہے تو انہیں پڑھے‘ چاہے تو چھوڑ دے پھر کالم نگار تو اپنا نکتۂ نظر بہت باعزت طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ وہ مجمع لگاتے ہیں نہ اپنی پسند کے ان لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل کرتا ہے کہ ٹیلی ویژنوں کی سکرینیں پتھروں سے ریزہ ریزہ کر دیں۔ کالم نگار تو ایک معصوم بے ضرر مخلوق ہے اور اپنی طرف سے خیر کا اہتمام کرتی ہے۔
لیکن اس پروردگار کی قسم! جس نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی ایسی تخلیقات کریگا جنہیں تم نہیں جانتے! تو کسی کو کیا خبر تھی کہ اس مغضوب اور مقہور سرزمین پر جو پہلے ہی مصیبتوں میں گلے گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ ٹاک شو کے میزبان لوگوں کی گردنوں پر نہ صرف خود سوار ہونگے بلکہ اپنے پسندیدہ سیاست دانوں‘ پسندیدہ تجزیہ کاروں اور پسندیدہ جہلا کو بھی مسلط کریں گے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے اردو پڑھنا تک نہیں آتی۔ افسوس! یہ کتنی خوفناک حقیقت ہے کہ سیٹھ جب ٹیلی ویژن چینلوں کے مالک بنتے ہیں تو انکے ٹیلی ویژن شعبدہ بازوں کی تحویل میں آ جاتے ہیں۔
کیا اس سے بڑا ظلم بھی اس ملک کے باشندوں پر ہو سکتا ہے کہ جن نام نہاد سیاسی رہنماؤں کو انہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے گھروں میں واپس بھیج دیا یہ ٹاک شو ان مسخروں کو نہ صرف اہتمام سے بلکہ التزام سے بلاتے ہیں اور سننے والوں کو اذیت پہنچاتے ہیں پھر ہر میزبان اور نام نہاد تجزیہ کار کے چند پسندیدہ صحافی اور مخصوص ’’مبصر‘‘ ہیں۔ جن کی شکلوں سے آنکھیں اکتا چکی ہیں‘ جن کی آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب انہیں نہ بلایا جاتا ہو اور ان کی مضحکہ خیز آرا نہ سنائی جاتی ہوں۔
اور ان کا تکبر! خدا کی قسم! یہ اپنے آپکو قیصر و کسریٰ سے کم نہیں سمجھتے۔ میڈیا کی طاقت نے انکے نتھنے پھلا دیئے ہیں۔ انکے سینے تن گئے ہیں اور انکی گردنیں اس فولادی سریے میں پروئی گئی ہیں جو جہالت کی بھٹی میں تیار ہوتا ہے۔ معصوم سادہ لوح عوام میں سے کچھ اپنے مسائل کے حل کیلئے انہیں ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذلتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس میں ایک رمق بھر مبالغہ نہیں کہ یہ میزبان خلقِ خدا کو ملتے ہیں نہ ان کی بات سنتے ہیں۔ ان کی دل آویز مسکراہٹیں صرف پردۂ سیمیں کیلئے ہیں۔ وہ احمق جو ان کے ’’فین‘‘ بن کر ان کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ان کیلئے انکی تنگ پیشانیوں پر شکنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا تو اپنا اپنا ایجنڈا ہے اور یہ تو اپنے اپنے گروہ کو نمایاں کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ انکی پیشہ وارانہ زندگی کی معراج تو انکے نزدیک یہ ہے کہ یہ اقتدار کی غلام گردشوں میں عمائدین کے کندھوں سے کندھے رگڑیں‘ انکے ساتھ جہازوں میں ہوٹے لیں اور پوری دنیا میں گھومتے پھریں۔
سیاست دان تو عوام کی عدالت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ان کا حساب بھی ہوتا ہے اور مواخذہ بھی! انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں لیکن میڈیا پر حکومت کرنے والوں کیلئے کوئی نیب ہے نہ ایبڈو! کوئی حساب ہے نہ کتاب! احتساب کرنیوالے ان سے خائف ہیں یا مرعوب! یہ چاہیں تو کسی کے عیب اتنے اچھالیں کہ اسکی نیکیاں دب جائیں اور چاہیں تو مجرموں کے چہروں پر اتنا میک اپ کر کے ناظرین کے سامنے لائیں کہ انکے ڈھیروں گناہ چھپ جائیں!
میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ دارالحکومت کے ہوٹل میریٹ کی لابی میں‘ میں چند دوستوں کیساتھ بیٹھا تھا۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک ٹاک شو کا میزبان باہر سے آیا اور کافی دیر (شاید کسی کے انتظار میں) کھڑا رہا۔ ظاہر ہے اس کا چہرہ کسی کیلئے بھی اجنبی نہیں تھا۔ گزرنے والے اسے ملتے تھے۔ کیا استکبار تھا اسکی گردن میں! وہ یوں ہاتھ ملاتا تھا جیسے وہ بادلوں کے اوپر ہو اور ملنے والے تحت الثریٰ میں!
لیکن قدرت نے
EXPOSE
کرنا ہو تو پل بھر میں سب کچھ ہو جاتا ہے۔ مبلغِ علم کی حالت یہ ہے کہ چند روز پہلے اس قبیلے کے ایک سرکردہ رکن سورت الشعرا کو اشعر کہہ رہے تھے اور بچے بھی سن کر ’’علم‘‘ کی داد دے رہے تھے۔
اقبالؒ نے ضربِ کلیم میں ایک دلچسپ نظم لکھی ہے ۔ بہائی مذہب کا بانی محمد علی باب قرآن غلط پڑھتا تھا …؎
تھی خوب حضورِ علما باب کی تقریر
بے چارہ غلط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰت
اس کی غلطی پر علما تھے متبسم
بولا تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات
اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد
محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات
الیکٹرانک میڈیا کے قیصر و کسریٰ قرآنی آیات کو تلفظ کی قید سے آزاد کر رہے ہیں!!