نئی حکومت کے لیے قومیت ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر اُبھرے گی ۔
آج میں اپنی ایک دوست کہ لیے اپنی کتابوں کی کولیلشن میں سے کچھ کتابیں دیکھ رہا تھا ۔ میری نظر ایک دم Alyssa Ayers کی کتاب
Speaking like a state
پر پڑھی جس کا مضمون ہے
Language and Nationalism in Pakistan
یہ کتاب ۲۰۰۹ میں چھپی تھی اور میں نے پاکستان سے ہی ۲۰۱۵ میں خریدی ۔ دو دفعہ پڑھنے کہ باوجود اپنے ساتھ ریفرینس کہ طور پر ساتھ لے آیا اور سوچا چونکہ الیزا امریکہ میں ہی رہتی ہیں ان سے اس سلسلہ میں بطور پاکستانی اسی نقطہ پر بحث جاری رکھینے کا موقع مل جائے گا ۔ یہ کتاب Amy Chua کی پولیٹیکل ٹرائیبز سے ملتی جلتی ہے کیونکہ دونوں کا موضوع قومیت ہے اور دونوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ ریاستیں دراصل صرف قومیت کی بنا پر مختلف قبیلوں کو ساتھ لے کر زیادہ موثر پھلتی پھُولتی ہیں وگرنہ تو توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہیں اور علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیتی ہیں ۔ اس میں پاکستان کا ہندوستان اور انڈونیشیا سے موازنہ کیا گیا ہے جہاں بھی اسی طرح آزادی کہ بعد مختلف زبانوں اور ورثہ کا معاملہ اُٹھا ۔ میں Amy کی کتاب کی طرح یہ کتاب بھی چاہوں گا کہ عمران خان کسی فارغ شام شیرو کی کمپنی میں ضرور مطالعہ کریں ۔ دراصل کتاب لکھی ہی سکالرز اور لیڈروں کے لیے گئ ہے جو multiethnic ریاستوں میں رہتے ہیں ۔ ہاورڈ یونیورسٹی کہ پروفیسر
Of the practice of diplomacy & Int Politics
جو امریکہ کہ انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ بھی رہے سیاسی امور کے ، اسں کتاب کو ایک بہت ضروری مطالعہ سمجھتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو خواہشمند ہیں
In the history of culture and nationalism in one of the world’s most complex , and challenging countries .
سینیر فیلو بروس ریڈل اسے یوں کہتے ہیں
An important study into the complexities of language and history in Pakistan which offer unique insights in to the fragility of Pakistan as nation.
آتے ہیں کتاب کی طرف اور بیانیہ ۔ پاکستان الیزا کہ نزدیک اردو جو کہ colonial masters نے مسلمانوں کی زبان سے منسوب کی صرف ۳ فیصد آبادی کی زبان تھی جب پاکستان بنا ۔ اور اس کو قومی زبان بنا دیا گیا ۔ جس سے مشرقی پاکستان الگ ہو گیا ۔ اور اس نے مثال دی کہ کس طرح سندھ صوبائ اسمبلی میں ۲۰۰۳ میں الیکشن کہ بعد MQM کہ سات وزیروں میں کوئ بھی سندھی نہیں بولنے والا نہیں تھا حتی کہ جو میرپور خاص سے شبیر قائم خانی الیکٹ ہوا وہ بھی ۔ اس کہ علاوہ اسی کیبنٹ میں کلچر اور اکلیتوں کہ وزیر یعقوب الیاس مسیح پنجابی بولتے تھے ۔ اور تین مزید وزیر سندھی بولنے والے نہیں تھے ، مروت ، چوہدری افتخار اور سعیدہ ملک ۔ اور مزید الیزا نے کاہوٹ کی کتاب ‘آؤ پنجابی کو قتل کریں ‘ کا صفحہ ۲۵۳ quote کیا ۔
“میں بھی مہاجر ہوں ۔ میں فیصل آباد سے ہوں میرا گھر اصل میں اقوام متحدہ ہے ۔ خانسامہ بنگالی ہے ، ملازم سری لنکا کا ، ڈرائیور پٹھان اور مالی سندھی۔ میرے بچے اردو بولتے ہیں ۔ اور میں پنجابی ، جب میں کار میں پنجابی گانوں کی ٹیپ لگاتا ہوں تو میرا چار سال کا بچہ کہتا ہے بند کریں ، جب پوچھتا ہوں تو کہتا ہے کہ کتے یہ زبان بولتے ہیں ۔ لگتا ہے ہم پاکستان نہیں رہتے ، ایرکنڈیشنڈ گھر ، ایر کنڈیشنڈ کار اور وڈیو ۔ ہمارے پاس سیٹلائیٹ اینٹینا ہے ، اور ہم اپنے ملک سے کنکشن اور لنک معطل کر چکے ہیں “
کچھ اسی طرح الیزا قدرت اللہ شہاب کی کتاب سے ایک quote کرتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے پاکستان کا مطلب بیان کیا ۔ شہاب اوریسہ میں ہوتے ہیں ، آل انڈیا ریڈیو پر جون ۳ ، ۱۹۴۷ کا پارٹیشن پلان سنتے ہیں کشمیری خانسامہ رمضان اور بنگالی ڈرائیور روز محمد کہ ساتھ ، جب جناح کا خطاب شروع ہوا جو انگریزی میں تھا رمضان نے ریڈیو کو چوما اور جب شہاب نے پوچھا پاکستان کا مطلب کیا ہے اس نے کہا ‘لا الہ الللہ’ اور وہ اس پر بضد رہا کہ اس کا مطلب یہی ہے ۔ شہاب صاحب اس رات سو نہ سکے اور الیزا کہتی ہے کہ شہاب صاحب کو رات کو نیند میں بھی وہی جزباتی نعرہ گونجتا رہا ، کوئ خدا نہیں سوائے اللہ کہ ۔ اور شہاب trance میں چلا گیا ، سوچا پھر کیا ، اگر میری آگہی اور شعور اسی سے خوش ہیں ۔
It matters little if your heart and soul is not Muslim.
اسی پر الیزا اپنی کتاب ختم کرتی ہے کہ پھر کیا اگر اگر آزادی کی تحریک کا یہ مطلب تھا صرف mass way میں ۔ شہاب کا trance میں جانا اس کا جواب yes میں دیتا ہے
With grave consequences to come .
زبردست تجزیہ ، بہت خوبصورت بیانیہ اور کیا کمال کہ ریفرنسز ۔ نجم حسین سعید کی پنجابی ادب پر کتابوں سے لے کر اعتزاز کی Indus Saga ، حنیف رامے کی پنجاب کا مقدمہ اور فخر زماں اور مختلف درجنوں سکالرز کی مختلف کتابیں۔
ہندوستان میں قومی زبان انگریزی رکھی گئ اور یہ پلان تھا نہرو کا کہ ۱۹۶۵تک ہندی اسے replace کرے کیونکہ نہرو نہیں چاہتا تھا کہ زبان کی بنیاد پر تقسیم ہو ریجنز یا صوبوں کی ۔ لیکن الیزا کہ نزدیک کیونکہ یہ حقیقت سے اُلٹ تھا ایسا نہ ہو سکا بلکہ الٹا ہندوستان کو greater unity کہ لیے صوبوں کو زبان اور کلچر کی آزادی دینی پڑی ۔ یہی معاملہ انڈونیشیا میں ہوا ایک common زبان پر اتفاق ہوا لیکن باقی سب علاقوں کی زبانوں اور کلچر کو ساتھ لے کر چلا گیا ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور یہاں تک کہ پونی ٹیل جج جواد خواجہ جب چیف جسٹس بنے تو آرڈر پاس کر دیا کہ کہ اب سے دفتری ، سرکاری ، اور تعلیمی زبان اردو ہو گی ۔
ہم ہمیشہ ہارے ، کیونکہ ہم نے زمینی حقائق اور لوگوں کہ دلوں کی ترجمانی نہیں کی ۔ اپنے ساتھ ان کو relate نہیں کیا ۔ colonial اسٹائل آف گورننس اپنائے رکھا ۔ اپنائیت سے عوام الناس میں نہ دے سکے ۔
کاروبار اور امور سلطنت میں دھونس اور دھاندلی مسلط کی ۔ بھٹو نے ملک کا ایک حصہ تو اسی چکر میں گنوا دیا تھا ، لیکن بعد میں اسے ان محرومیوں کا احساس ہوا اور دوسرا کیونکہ اس کو پنجاب سے بہت ووٹ ملا تھا ، لوک ورثہ بنا گیا ۔ پنجابی ادبی بورڈ اور فخر زماں اور حنیف رامے جیسے لوگوں کو ساتھ لے کر چلا جو پنجابی کو پروموٹ کر رہے تھے ۔ لیکن ضیا کا مداری پن پھر ریاست کو اسی شہاب کے مجبوری کہ ٹرانس پر لے گیا ۔ لا الہ الللہ ۔
آج ۲۲ کروڑ عوام شناخت کہ چکر میں مارے مارے پھر رہیں ، ان کہ کارڈ تاجر اور مولوی بوریوں میں لیے پھرتا ہے ۔ اور ہم سب ہوا میں ۔
صرف پیسہ اور مادہ پرستی خدا ہیں ، دل ان کہ لئے ہی دھڑک رہا ہے ۔ کارپوریٹ ٹھگ نئ حکومت بھی چلائیں گے ، کل ہی اسد عمر نے کہا ۱۲ بلین ڈالر چاہیے فورا وگرنہ ملک ڈوب جائے گا ۔
اب فریکوینسی بدلنی ہو گی ۔ عمران خان کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ۔ سب ملکوں مین یہی ہو رہا ہے ۔ سرائیکی صوبہ یا کئ اور صوبے بنانے ہوں گے احساس محرومی ختم کرنے کے لیے ۔ دل بندوقوں کی نہیں مانتے ، اسی کیے تو خود کش بمبار پیدا ہوا ۔ جان ہو گی تو جہاں ہو گا ۔ علامہ اقبال کا پاکستان کے خواب والا خطاب بھی انگریزی میں تھا لیکن ان کا دل کچھ اور کہتا تھا ۔
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔