مجھے وہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ سیاہی مائل رنگت، معمولی سی شکل و صورت۔ میں آج کل فلمیں نہیں دیکھتا۔ اور جس قسم کی فلموں میں وہ کام کرتا ہے بالکل ہی نہیں دیکھتا۔ وہ زیادہ تر غنڈے موالی، باغی اور غصیلے نوجوان کے کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے اس طرح کی فلمیں ہی پسند نہیں۔
یہ کوئی فلمی تقریب ہے جس میں ہندوستان کے بہت سے مشہور لیکن پرانے اداکار مہمان ہیں۔ نئے اداکار بھی ہیں۔ یہ شاید بھولے بسرے ان فنکاروں کو اعزاز دینے کی تقریب ہے جنھیں اب لوگ بھول گئے ہیں اور جو زندگی کی مشکلوں سے لڑ رہے ہیں۔ ماضی کے مشہور ناموں شمی کپور، ششی کپور، سنیل دت، پریم چوپڑہ،، اے کے ہنگل وغیرہ کے ساتھ آج کل کے مشہور اداکار بھی ہیں لیکن پورے ہال کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف ایک شخص ہے جسے عام طور پر دلیپ کمار کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کے قریبی دوست اسے یوسف صاحب کے نام سے پکارتے ہیں۔
دلیپ کمار سب سے اگلی صف میں درمیان میں بیٹھے ہیں۔ شاید وہی آج کے مہمان خصوصی ہیں۔ مختلف لوگ آکر دلیپ صاحب سے مل رہے ہیں۔ کوئی ان کے برابر کچھ دیر بیٹھ کر ان سے سلام دعا کرکے اپنی نشست پر چلا جاتا ہے۔ اس سیاہ رو نوجوان کو بھی دلیپ کمار کے برابر بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ شاید منتظمین نے اسے وہاں بٹھایا ہے۔ ویسے وہ خود بھی آج کا بہت مشہور اور مقبول اداکار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے وہ پسند نہیں تھا۔ وہ دلیپ صاحب کے دائیں جانب با ادب اور نظریں جھکائے بیٹھا ہے۔
بزرگ اداکار اے کے ہنگل دلیپ صاحب سے باتیں کرنے رک گئے۔ دلیپ کمار بھی اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ان سے باتیں کررہے ہیں۔ چھدری داڑھی والا وہ کالا سا اداکار بھی خاموشی سے ایک جانب کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے نظریں جھکائے کھڑا ہے۔ ان کی گفتگو میں شامل نہیں ہے نہ ہی انہیں اس کے قریب کھڑے ہونے کا احساس ہے۔ ہنگل صاحب دلیپ کمار سے باتیں کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دلیپ صاحب اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے بیٹھنے کے بعد وہ نوجوان بھی ان کے برابر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ صرف اس لئے کھڑا ہوا تھا کہ دلیپ کمار صاحب کھڑے تھے اور وہ ان کے قریب ہوتے ہوئے بیٹھے رہنے کو ان کے احترام کے منافی سمجھتا تھا۔
کچھ دیر بعد ماضی کی ایک مشہور لیکن مفلوک الحال اور عمر رسیدہ فنکارہ کو ایوارڈ دینے کے لیے اس نوجوان کو بلایا جاتا ہے۔ وہ انہیں پھول اور ایک لفافہ پیش کررہا ہے۔ عموماً ہندوستان میں ایوارڈ وصول کرنے والے جھک کر ایوارڈ دینے والے کی تکریم اور تشکر کے لیے اس کے پاؤں چھوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں اسے شرک اور ہندوانہ رسم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بھارت میں یہ ایک تہذیب کا حصہ ہے۔
لیکن یہ کیا ؟اس بوڑھی خاتون کو پھول اور ایوارڈ دے کر وہ نوجوان ان کے پیر چھو رہا ہے۔ اسے اس خاتون کی عمر اور مرتبے کا احساس ہے۔ ان خاتون کو سہارا دے کر اسٹیج سے اتار کر منتظمین کے حوالے کرکے وہ ایک لحظے کے لیے دیگر حاضرین کی جانب دیکھتا ہے، سر جھکا کر دو نوں ہاتھ جوڑ کر خاموشی سے اپنی نشست پر چلا جاتا ہے۔
اس با ادب اور حفظ مراتب کی پاسداری کرنے والے، سیاہ رو اداکار کا نام “ نانا پاٹیکر” ہے اور آج کے دور میں وہ اتنا ہی مشہور اور مقبول ہے جتنا کسی زمانے میں شمی کپور، دھرمیندر اور جیتیندر وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ مجھے وہ اچانک ہی بہت اچھا لگنے لگا۔ وہ جسے دیکھ کر میں ٹی وی بند کردیا کرتا تھا آج اس کی صورت آس پاس بیٹھے ہوئے وجیہ اور خوبصورت اداکاروں سے زیادہ پرکشش اور پر نور لگ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ فٹ سے زیادہ قد کے اس سرخ و سفید لڑکے کی عمر ابھی بمشکل سولہ سال ہوئی ہے۔ ابھی تو اس کی مسیں بھیگ رہی ہیں لیکن اپنے کھیل کی وجہ سے اسے آج اسے پاکستان کے مقبول ترین ٹورنامنٹ پی ایس ایل میں کھیلنے کاموقع ملا ہے۔ اور اسے فوراً ہی ایک بڑی کامیابی ملی ہے۔ اس نے ہمارے وقت کے ایک بہت ہی مشہور اور مقبول کھلاڑی “ شاہد آفریدی” کو آؤٹ کردیا ہے۔
جس طرح آج کل کھیل کھیلے جاتے ہیں اور جس طرح کھیل میں ملی کسی کامیابی کا جشن منایا جاتا ہے وہ یقیناً نفیس طبع لوگوں پر گراں گذرتا ہے۔ آؤٹ ہونے والے کھلاڑی پر آوازے کسے جاتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں، نازیبا اشارے کیے جاتے ہیں اور متکبرانہ انداز میں میدان سے باہر جانے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں نے خوشی کے اظہار (celebration )کےمختلف انداز اپنا رکھے ہیں ۔ یہ نوجوان بھی اپنی اتنی بڑی کامیابی پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا۔اس کے ہاتھ ہوا میں بلند ہوتے ہیں۔ لیکن یکلخت وہ ہاتھوں کو نیچے کرلیتا ہے اور اپنے مسکراتے ہونٹوں کو سکیڑ لیتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ جسے اس نے آؤٹ کیا ہے وہ بہت بڑا کھلاڑی ہے اور اس کا اس طرح جشن منانا اس کے ملک کے اس بڑے نام کے شایان شان نہیں۔ وہ عاجزی سے نظریں نیچے کرلیتا ہے۔
اس لڑکے کا نام شاہین شاہ آفریدی ہے اور آج وہ اپنا پہلا پی ایس ایل کا میچ کھیل رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس کھلاڑی کا نام نہیں معلوم۔ نہ یہ یاد ہے کہ کون سے ملک کا اور کون سا ٹورنامنٹ ہے۔ میں تو یونہی ٹی وی پر مختلف چینل دیکھتے ہوئے رک گیا تھا۔
ٹینس میچ ختم ہوگیا ہے۔ اس کھلاڑی نے میچ جیت لیا ہے اور اب اپنی کرسی پر بیٹھا پسینہ پوچھ رہا ہے۔ اس نے اپنا بلا، تولیہ اور دیگر سامان سمیٹ کر بیگ میں رکھا اور کھڑے ہوکر کندھے پر لٹکا لیا۔ ایک لحظے کے لئے پیچھے مڑ کر تماشائیوں کو ہاتھ ہلایا اور باہر جانے کے لئے مڑ گیا۔
اس کی بالکل پیچھے ریلنگ سے لگا ایک چھ سات سالہ بچہ بڑی سی ٹینس کی گیند اور دستخط کرنے والا قلم ( مارکر) لئے اس کھلاڑی کی جانب ہاتھ بڑھائے کھڑا ہے۔ نوجوان چیمپئن کی عمر بھی چوبیس پچیس سال ہی لگ رہی ہے۔ وہ کورٹ کے باہری دروازے کی جانب بڑھ رہا ہے کہ اسے کچھ خیال آتا ہے۔ گیند اور مارکر والا بچہ مایوسی کے عالم میں واپس اپنی نشست کے طرف مڑ گیا ہے جہاں اس کے ماں باپ بیٹھے ہیں۔
کھلاڑی واپس آکر ریلنگ کی طرف جارہا ہے۔ اس نے بچے کے پیچھے سے جاکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے، بچہ مڑ کر دیکھتا ہے اور اس کی خوشی دیدنی ہے۔ نوجوان کھلاڑی نے گیند پر دستخط کرکے گیند اور قلم بچے کے ہاتھ میں تھما دئیے ہیں۔ اب وہ بچے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا جھکا ہوا ہے اور بچے کی ماں ان دونوں کی “ سیلفی بنا رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی باغ ہے جس کے کونے میں ایک فوجی قسم کا ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔ دور سے سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک چھریرے بدن کا طویل القامت، سیاہ فام شخص ہیلی کاپٹر کی جانب جارہا ہے۔ اب وہ سیڑھیاں چڑھ کر ہیلی کاپٹر میں داخل ہوگیا ہے۔ پائلٹ سے سلام دعا کرتے ہوئے اس کوئی خیال آتا ہے اور وہ سیڑھیاں اتر کر ہیلی کاپٹر سے باہر آگیا ہے۔
سیڑھیوں کے دائیں جانب ایک نوجوان گارڈ سنگین لئے مستعد کھڑا ہے۔ سوٹ بوٹ والا شخص گارڈ کے پاس جاکر اس سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ اب وہ واپسی کے لیے مڑ گیا ہے۔
سوٹ بوٹ والے اس سیاہ فام سشخص کا نام “ بارک اوباما” ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نانا پاٹیکر، دلیپ کمار کے احترام میں اپنی نشست سے کھڑا ہوگیا۔ اس نے معمر فنکارہ کو ایوارڈ دے کر ان کے پاؤں چھوئے۔ شاہین شاہ آفریدی نے اپنے سینئیر کھلاڑی اور ملک کے لیجنڈ کے احترام میں “ سیلیبریشن” روک دی۔ ٹینس کھلاڑی مڑ کر اس بچے کی جانب آیا جو آٹوگراف کا منتظر تھا۔ صدر اوباما کو یاد آیا کہ باہر گارڈ بھی کھڑا ہے اور وہ ہیلی کاپٹر سے اتر کر اس گارڈ سے ہاتھ ملانے چلے آئے۔
بھلا یہ بھی کوئی باتیں ہیں بتانے کی۔ ایسی چھوٹی اور معمولی باتوں کے لئے کون صفحات کالے کرتا ہے۔ مجھے لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ ایسی معمولی سی حرکتیں میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں چپک جاتی ہیں اور جب آدمیت پر سے میرا ایمان اٹھنے لگتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی حرکتیں انسانیت کی دیوار کو ڈھے جانے سے روکے ہوئے ہیں۔
یہ چھوٹی چھوٹی سی حرکتیں بتاتی ہیں کہ انہیں کرنے والوں کے سینوں میں کیسا سونے جیسا دل ہے۔ سونے کا دل یوں کہ احساس کی یہ دولت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ حرکتیں بتاتی ہیں کہ یہ کس گھر میں پلے بڑھے ہیں اور ان کی تربیت کرنے والے کیسے ہیں۔ شاید کسی کے نزدیک یہ باتیں اتنی اہمیت نہ رکھتی ہوں لیکن مجھے ایسی ہی فضول سی باتیں یاد رہتی ہیں۔ اور لوگوں کا قد اور کاٹھ ناپنے کا میرا کوئی اور ہی پیمانہ ہے۔ دوسروں کی تکریم کرنے والے اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے والے مجھے بہت ہی قد آور نظر آتے ہیں۔ خود اپنی ہی عظمت کے اسیر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے والے میری نظر میں اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ افسوس فی زمانہ اسی روئیے کا چلن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو چار ایسی ہی، بے مقصد، باتیں اور یاد آئیں۔ نہ جانے کیوں ایسی باتیں یاد آتی ہیں تو آتی ہی چلی جاتی ہیں۔ خوبصورت دل والوں کی خوبصورت باتیں۔
رشید احمد صدیقی اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ انشاء پردازی اور طنز نگاری میں بے مثل۔ صدیقی صاحب نے شاعر فطرت، بلکہ یوں کہئیے کہ شاعر محبت حضرت جگر مراد آبادی کا ایک چھوٹا سا قصہ بیان کیا ہے جسے انہی کی زبانی سنئیے۔
“جگر صاحب جب کبھی میرے ہاں آئے، میں نے یہ سوال کیا” جگر صاحب سفر میں کیا کھو آئے؟ اور تقریباً ہمیشہ یہی معلوم ہوا کہ کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں چھوڑ آئے ہیں۔ ایک دفعہ مشاعرے میں جو کچھ ملا تھا اسے جیب میں رکھ لیا۔ جن کے ہاں ٹھہرے تھے انہوں نے جگر صاحب کی دیکھ بھال کے لئے اپنے کسی عزیز کو مقرر کردیا تھا۔ انہوں نے جگر صاحب کی بڑی خدمت کی، ہر وقت موجود رہتے اور اظہار عقیدت کرتے ۔ جگر صاحب کو غافل سمجھ انہوں نے سارے روپے نکال لئے۔ جگر صاحب یہ سب دیکھ رہے تھے لیکن چپ رہے۔ میں نے پوچھا “ یہ کیوں؟” بولے۔ “ یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا جب میں جائے قیام سے رخصت ہوکر اسٹیشن آرہا تھا۔ بہت سے لوگ موجود تھے۔ کچھ اچھا نہ معلوم ہوا کہ وہاں اس چوری کا اعلان کروں، اور کسی شریف آدمی کو رسوا کروں”۔
شاعروں ہی کی بات چلی ہے تو لگے ہاتھوں شاعر انقلاب حضرت جوش کے والد کا قصہ بھی سن لیں۔ جوش صاحب بھی شاہد آفریدی اور شاہین شاہ آفریدی کی طرح آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو کبھی بڑا جنگجو قبیلہ مانا جاتا تھا۔ یہ قصہ جوش صاحب کے الفاظ میں ہی سنئیے۔
“ ہم آفریدیوں اور قندھار یوں کے مابین شاہی دور میں ہمیشہ تلوار چلتی رہی۔ انھیں قندھار یوں میں ایک صاحب عبدالرحمن خان تھے جو میرے باپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ انھیں آتے جاتے دیکھ کر مجھے اس بات پر تعجب ہوا کرتا تھا کہ قندھار یوں اور آفریدیوں کے درمیان تو ایک مدت سے عداوت چلی آرہی ہے، پھر وہ میرے باپ سے کیوں ملنے آتے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ تعجب اور پشیمانی آمیز افسوس اس بات پر ہوتا تھا کہ عبدالرحمن خان کے آتے ہی میرے باپ کی آنکھیں کیوں جھک جاتی ہیں۔ میں یہ سوچ کر دل ہی دل میں کڑھا کرتا تھا کہ شاید میرے باپ عبدالرحمن خان سے ڈرتے ہیں، جبھی تو ان کو دیکھتے ہی آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں۔ لیکن ڈر کے مارے زبان سے کچھ کہتا نہیں تھا۔ جب بہت دن یہ تماشہ دیکھتا رہا تو مجھ سے ضبط نہیں ہوا اور، ایک روز، ڈرتے ڈرتے میں نے پوچھا میاں آپ عبدالرحمن خان سے آنکھیں کیوں نہیں ملاتے۔ انہوں نے میرا یہ سوال سن کر پہلے تو ادھر ادھر دیکھا، اور پھر مجھ کو اپنے قریب بٹھا کر فرمایا بیٹا، عبدالرحمن خان ایک زمانے میں رئیس تھے اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہا ہے اس لئے میں ان کو وظیفہ دیتا ہوں، اور بیٹا، شریفوں کی یہ آن ہے کہ، جس کو وظیفہ دیتے ہیں ، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھتے کہ کہیں وہ شرمندہ نہ ہوجائے۔
اور جب میں آنکھوں میں آنسو بھرے جانے لگا تو انھوں نے فرمایا، دیکھ بیٹا میرے سر کی قسم، یہ بات کبھی زبان پر نہ لانا۔
شاعر فطرت اور شاعر انقلاب کی یہ باتیں شاید آج کسی کی سمجھ نہ آئیں۔ لیکن ایک وقت تھا کہ شائستگی ، وضع داری اور شرافت کے یہی معیار تھے۔ لوگ ایسی معمولی باتوں کے لیے جان بھی دے دیا کرتے تھے۔
یہ شاعر بھی عجیب لوگ تھے اور اس زمانے کے شاعر تو اور بھی عجیب تھے۔ اور اسی زمانے کے ایک اور شاعر جنہیں جگر اور جوش بھی رئیس المتغزلین مانتے تھے اور لوگ باگ جنھیں رئیس الاحرار کہتے تھے ان کا ایک قصہ مختصر کرکے سناتا ہوں۔
حضرت کسی دوسرے شہر میں مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ُاس زمانے میں شعر پڑھ کر معاوضہ لینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ منتظمین نے انہیں ایک چیک پیش کیا ، یہ تو نہ کہا کہ یہ آپ کا معاوضہ ہےاور عرض کیا کہ یہ آپ کے آنے جانے کا خرچ ہے۔ بولے، کرایہ اور اتنا۔ اب انہوں نے بتایا کہ وہ کس طرح بغیر کرایہ ادا کئے کن لوگوں کے ساتھ یہاں پہنچے اور واپسی میں کس طرح جائیں گے۔ کہنے لگے اگر آپ کو اصرار ہی ہے کہ کرایہ ادا کریں گے تو ٹھیک ہے، احتیاطا” روانگی کا ٹکٹ لے دیجئیے، یہ کرایہ ہوگا۔۔تین آنے! حاضرین حیرت سے نقش بن گئے مگر جانتے تھے کہ کس قلندر سے پالا پڑا ہے۔ سر جھکا کر بولے، جو حضور کی مرضی۔
غنا کی دولت سے مالا مال، کھرے سونے جیسے دل کے مالک، یہ تھے رئیس الاحرار فضل الحسن حسرت موہانی۔
جوش و جگر کے دوست حسرت موہانی کے ایک اور دوست تھے ۔ جہاں حسرت فقیر منش اور درویش صفت تھے، ان کے یہ دوست بڑے “ ٹپ ٹاپ” رہنے والے، انگریزی طرز کی رہن سہن کے عادی تھے اور ہمیشہ بہترین قیمتی سوٹ، ٹائی میں ملبوس رہتے اور قیمتی جوتے پہنتے۔ ان کی خوش لباسی ایک مثال تھی۔ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے قانون دان بھی تھے اور ان کی فیس اس زمانے میں بھی ہر کوئی ادا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنے وقت کی قیمت وصول کرتے تھے کہ بہت بڑے قومی لیڈر تھے اور ان کا وقت بہت ہی قیمتی اور نایاب تھا۔ لیکن تھے آدمی بڑے ہی اصول پسند۔
ان وکیل صاحب کے پاس ایک مقدمہ آیا جس کے کاغذات کی فائل بڑی موٹی تھی۔ مقدمے کی فیس طے ہوگئی تو انھوں نے فائل پڑھنی شروع کی۔ اندازے سے بہت کم وقت میں فائل ختم ہوگئی۔ اپنے مشورے کے بعد فیس میں سے خاصی بھاری رقم انھوں نے لوٹا دی۔ مؤکل نے کہا ، یہ کیا؟ آپ نے تو بہترین مشورہ دیا ہے، آپ پوری فیس کے مستحق ہیں۔ جواب ملا۔۔فیس میں نے اتنے وقت کے لحاظ سے متعین کی تھی جتنا وقت فائل پڑھنے کے لئے درکار تھا۔ میں نے فی گھنٹہ جو شرح سوچی تھی اس سے جتنی زیادہ رقم تھی وہ لوٹا رہا ہوں۔ رہا مشورہ ، وہ اسی فیس میں شامل ہے۔
مقدمے کو خواہ مخواہ سنگین بھا کر بڑا معاوضہ لینا بھی کھلی بے ایمانی ہے۔ اپنے وقت کے یہ بہت بڑے لیکن انتہائی اصول پسند وکیل جو ایک بہت بڑی مسلم مملکت کی بنیاد رکھنے والے تھے، جنہیں میں اور آپ قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں۔
ان میں سے کوئی قصہ ایسا نہیں جو بیان کرنے کے قابل ہو۔ زمانہ اب اور ہی طرح کا ہے۔ ایسی باتیں اور ایسی حرکتیں تو کوئی کوئی اب بھی کر جاتا ہے لیکن اب یہ باتیں اور یہ لوگ بہت ہی نایاب ہیں۔ مجھ جیسے اگلے وقتوں کے لوگ انہی فضول باتوں میں الجھے رہتے ہیں ۔
میں بھی کیا قصے لے کر بیٹھ گیا۔ عید کے دن ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔۔آپ سب کو عید مبارک۔
حوالہ جات۔ یو ٹیوب، کلیات جگر، یادوں کی برات ( جوش ملیح آبادی) تجلی ( شاہ بلیغ الدین)۔