محمود ہوا کا جھونکا تھا آیا اور گزر گیا۔ محمود ایک معمہ تھا جو سلجھ نہ سکا۔ محمود ایک راز تھا جو بھید ہی رہا۔ محمود صرف ایک شاعر ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک فلسفی تھا، سکالر تھا، معلم تھا، دوست تھا، بہت پیارا باپ اور محبت کرنے والا انسان تھا۔ محمود ان مٹھی بھر شعرا میں شامل تھا جن کو اپنی اہمیت کا درست احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس احساسِ عظمت نے اس کو ایک احساسِ تفاخر عطا کر دیا تھا جو اس پر جچتا بھی تھا۔
میر تقی میر جب دلی تباہ ہونے کے بعد لکھنو روانہ ہوئے تو ایک ریڑھے والے نے ان کو لفٹ دینا چاہی۔ لیکن وہ کوچوان یہ سن کر حیران رہ گیا کہ بجائے مشکور ہونے کے الٹا میر صاحب ریڑھے پر بیٹھنے کی شرطیں لگا رہے ہیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ تمام راستے آپ مجھ سے کلام نہیں کریں گے کیونکہ آپ کے اور میرے درمیان علم و ادب کی ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ وہ شریف آدمی تھا سو میر کی شرط تسلیم کر بیٹھا لیکن جب گھنٹوں کے خاموش سفر کے بعد میر سے میر کا نام پوچھ بیٹھا تو میر صاحب نے ریڑھے سے نیچے اتارنے کو کہا اور موصوف کو اپنی شرط یاد کرائی کہ تم نے راستہ بھر خاموش رہنے کیا پیمان کیا تھا۔ میر کے اس رویے کو ہم نہ غرور کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی احساسِ برتری بلکہ اس کو ادائے بے نیازی کا نام دیا جا سکتا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم نابغہ روزگار اور خدائے سخن ہی کو جچتا ہے۔
ایسی ہی ادائے بے نیازی اور نازک مزاجی محمود کی طبیعت کا حصہ تھی۔ محمود پر ہمہ وقت ایک سرمستی کا ساعالم چھایا رہتا ۔ خمار آلود نگاہوں کو گھماتے ہوئے جب وہ گفتگو کیا کرتا تو سننے والے پر سحر طاری ہو جاتا۔ محمود کا بولنے کا انداز بہت خوبصورت تھا۔ وہ دھیمی آواز میں وقفے وقفے سے مدلل اور منطقی گفتگو کیا کرتا۔ اس کی زندگی اور طرزِ زندگی افسانوی نوعیت کی تھی۔ ایک دفعہ میں گرمیوں میں اس کے گھر گیا تو لمبی سی بیٹھک میں چھوٹی سی مٹی کی گھڑی سے پانی نکال کر مجھے پیش کیا۔ میں نے پانی کے اچھوتے ذائقے کی بابت دریافت کیا تو محمود ایک عام سی بات کوبھی فلسفے میں ملفوف کر کے گویا ہوا کہ پانی کی اس گھڑی میں میں نے ہریڑ ڈالی ہوئی ہے۔ چھوٹی گھڑی میں ایک عدد اور بڑے گھڑے میں دو عدد ہریڑیں ڈالنے سے آپ فلاں فلاں بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔
شروع شروع میں مجھے محمود کا احساسِ تفاخر پسند نہیں تھا۔ میں اس کو بلا کا مغرور اور خودپسند انسان سمجھتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان کبھی گہرے دوستانہ مراسم قائم نہ ہوئے۔ جب اس نے محمود اکیڈمی کی بنا رکھی تو مجھے اس کا ایک عہدہ دینا چاہا۔ لیکن بعد میں مجھےجب یہ پتہ چلا کہ وہ اسی اکیڈمی کے پلیٹ فارم پر محمود ادبی ایوارڈ کا اجرا کرنا چاہ رہا ہے تو میں چپکے سے سائڈ پر ہو گیا۔ میں نے کھل کر تنقید کی کہ تم اپنے نام پر ادبی ایوارڈ جاری کر کے خودنمائی چاہتے ہو۔ میری اس شدید تنقید پر وہ لاجواب ہو گیا۔ ہمارے درمیان فاصلہ پیدا ہوا تو میل ملاقات بھی ختم ہو گئی۔ میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر مجھے افسانے لکھنے پر ایوارڈ دیا گیا تو میں لینے سے انکار کر دوں گا۔ لیکن محمود نے افسانے کا ایوارڈ سیڑھیوں والے پل کے مصنف افسانہ نگار کو دیا جس کا نام مجھے یاد نہیں آ رہا۔
اس کی شخصیت سے لاکھ اختلاف سہی میں محمود کی شاعری کا اندھا عاشق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ عرصہ بعد اس کو کالج دعوت دی۔ ان دنوں میں بی ایس سی کو انگریزی پڑھایا کرتا تھا اور ہفتے میں ایک دن بزمِ ادب کا پیریڈ منعقد کیا کرتا۔ ہر ہفتے اس پیریڈ میں کسی مقامی شاعر کو مہمان شاعر کے طور پر دعوت دیا کرتا۔ محمود کی شاعری اپنی کلاس کو سنانے کے لیے میں نے اس کو بلا تو لیا لیکن پورا پیریڈ اس نے اپنی بائیوگرافی پر صرف کر دیا۔ جب پیریڈ ختم ہوا تو چند اشعار سنا کر اجازت طلب کر لی۔ اسی رات ایف ایم ریڈیو پر اس کا پروگرام تھا۔ جس میں اس نے حسبِ سابق مجھے چڑانے کے لیے کالج کی تقریب کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے میرا نام ہی بدل ڈالا اور میرے نام کی بجائے وقار محمود کو بزم ادب پیریڈ کا میزبان قرار دیا۔
ایک روز میرے والدِ محترم گورنمنٹ کالج کی لائبریری آئے تو میں نے ان کی تصویر اس عبارت کے ساتھ پوسٹ کی کہ والد محترم مطالعے میں غرق۔ محمود نے کمنٹ کیا کہ بہت خوب ، والد صاحب کے لیے غرق کا لفظ استعمال کرکے تم نے حق فرزندی خوب نبھایا ہے وقار صاحب۔ مجھے غصہ آیا کہ وہ میری اس غلطی کا تذکرہ فون پر بھی کر سکتا تھا یا کم از کم ان باکس میں ہی کر دیتا۔ اس کا اظہار فیس بک جیسے سوشل میڈیا پر سرعام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اس معاملے پر پھر ہماری خوب گرمی سردی ہوئی جو آخر تک جاری رہی۔
اپنی زندگی کے آخری دن جب محمود مشاعرہ پڑھنے ماڑی انڈس جا رہا تھا تو علی اعظم بخاری اور میں کالج لائبریری کے باہر گیلری میں چائے پی رہے تھے جب اچانک محمود نے بخاری صاحب کو کال کی اور رات کے پروگرام کی بابت گفتگو شروع کردی۔ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ بخاری صاحب لائبریری میں میرے پاس بیٹھے ہیں تو انہوں نے بخاری صاحب کو میرے سلام دیے اور یہ بھی کہا کہ وقار مجھ سے ناراض ہے شاید اس کو میری یہ حرکت بری لگے۔ اس سے قبل بھی محمود چند ایک بار مجھے میسج کر چکا تھا کہ وقار میں تمہارے گھر کس وقت چائے پینے کو حاضر ہوں۔ میں ہر وقت خاموش رہتا۔اسی رات محمود بڑی خوشی کے ساتھ ہمراہ دوستاں ماڑی روانہ ہوا ۔ صبح میں نے موبائل کھولا تو نورتری خیلوی کے میسج نے مجھے چونکا دیا۔میسج یہ تھا
اردو کے معروف شاعر محمد محمود احمد انتقال کر گئے جن کی نماز جنازہ آج سہ پہر گورنمنٹ ہائی سکول کے میدان میں ادا کی جائے گی۔ میں کافی دیر انگشت بدنداں بیٹھا رہا کہ یہ کیا ہو گیا۔ کیا محمود جیسا زندہ انسان بھی مر سکتا ہے۔ ضیا قریشی کا شعر باربار میرے ذہن میں گونجتا رہا
ضیا آج وہ شخص بھی مر گیا ہے
جو کرتا تھا باتیں صدا زندگی کی
افسوس، ندامت، خوف اور پشیمانی کے ملے جلے جذبات نے مجھے گھیر لیا۔ میں تو اس انتظار میں تھا کہ کسی اچھے وقت کہیں بیٹھ کر محمود سے
تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کر لیں گے۔ اور اگر موقع ملا تو میں معافی بھی مانگ لوں گا۔ میں تو فقط چند دنوں کے لیے محمود کی منت سماجت کے مزے لے رہا تھاکہ چلو اس کی انا کو کچھ تو شکست ہوئی لیکن خدا جانتا ہے میرے دل میں محمود کا احترام ، ادب اور رعب ہمیشہ قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے سرخ بتی کی تقریب کا مہمانِ خصوصی محمود کو ہی بنایا تھا۔ اس کی دلکش ہینڈ رائٹنگ میں لکھا گیا مضمون آج بھی میں نے ایک محفوظ فائل میں سنبھال رکھا ہے۔
محمود مر گیا لیکن اس کی شاعری ہمیشہ زندہ و جاوداں رہے گی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ محمود وہ واحد شاعر تھا جس کا شاعری کا ایک مصرعہ بھی کوئی فضول، معمولی یا ہلکا نہیں کہہ سکتا۔ میرا یہ بھی یقین ہے کہ وہ وقت آئے گا جب محمود اردو کے میدان میں ایک عظیم شاعر کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ میں محمود کی روح سے آج بھی شرمندہ ہوں کہ میں آخر تک اس سے ناراض رہا ۔ حالانکہ فن او رشخصیت کے اعتبار سے اس کا درجہ مجھ سے کہیں بلند تھا۔ مجھے تو اس مینارہ نور سے روشنی لینی تھی، ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگ کر ایک اچھے دوست کی طرح دوستی نبھانا تھی، اس کی دلکش شاعری کو مزے لے لے کر سنناتھا لیکن قسمت اور تقدیر نے اس کی اجازت نہ دی اور جوانی میں شہر خموشاں میں جا سویا۔
گمنامیوں کے بیچ اترنا نہیں مجھے
محمود جسم مرنا ہے،مرنا نہیں مجھے
محمود کی یاد میں عزیزم علی عرفان نے ایک بہت خوبصورت لیکن رلا دینے والی ایک نظم لکھی تھی۔ وہ میرے پاس ہوتی تو ضرور اپنے مضمون میں شامل کرتا۔اگر علی عرفان یہ تحریر پڑھے تو اس سے گزارش ہے کہ وہ محمود پر لکھی نظم مجھے ارسال کر دے یا کمنٹ میں لکھ دے۔
آخر میں محمود کے چند اشعار
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔
ثابت ہوا یہ مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات
اب آدھا رہ گیا ہوں میں آدھا نہیں رہا
ہر رنگ بھری چیز کا انجام یہی ہے
تتلی کا یہ ٹوٹا ہوا پر ذہن میں رکھنا۔