نیا سفرہے پرانے چراغ گل کردو
15 اگست سے قبل ہی نگاہوں میں اجنبیت آگیؑؑتھی۔ زندگی امتحان لیتی ہے تو اخلاقی اورانسانی قدریں اور مذہبی رواداری ہمسایگی اور شناسای کےدعوے ۔۔یہ سہارے یہ سوت کے دھاگے ۔۔۔ ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں(جانثار اختر)۔یوم آزادی قریب آیا تو ماحول یکسر بدل گیا۔ گردونواح میں میرٹھ سے دہلی تک مسلمان آبادی اقلیت میں تھی۔رات کو کبھی کبھی دور سے " جے ہند" کے نعرے بھی سنایؑ دینے لگے تھے۔ پاس پڑوس کے ہندو ہمسایگی کے سب رشتے بھلا بیٹھے تھے۔چند گھر چھوڑ کے ابا کے ایک دوست ابن حسن کے گھرریڈیو تھا لیکن مجھے اس کی شکل سے زیادہ ان کی بےحد حسین اور طرحدار بیوی شہر بانو کی صورت یاد ہے ۔ ابا اور چند مسلمان دوست وہاں دیوار پر لگے نقشے میں سرخ پنسل سے پاکستان کی حد بندی کرتے رہتے تھے۔ایک رات میں انہی کے گھر سے لوٹ رہا تھا اور اپنی دھن میں" پاکستان ز ندہ باد " گا رہا تھا کہ سکسینہ نے باہر آ کے میری پھینٹی لگایؑ" مسلے کتےکے بچے۔۔میرے دروازے پر بھونکتا ہے" یہ وہی تھا جو مجھے اور بھایؑ کو ریڈیو سننے کیلےؑ اندر بلا لیتا تھا۔گھر آکے روتے روتے امان سے اور بعد میں ابا سے شکایت کی تو ایک جھانپڑ اور پڑا۔امان نے بچایا کہ بچے کو کیا پتا ورنہ ابا اپنے طریقے سے پورا زندہ بادسمجھاتے ۔ لیکن اس کے بعدایسی راتیں بھی آییؑن جب ہم دو دو تین تین جوڑے اور جوتے پہنے دور سے بلواییؑوں کے نعرے سنتے رہے اور فرار کے لےؑ تیار بیٹھے رات گذار دی ۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا ہم فرار ہو پاتے؟ نکلتے تو کدھر جاتے ساتھ کیسے رہتے؟ ابا نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ ہمیں دہلی میں ایک دوست کے گھر عارضی طور پر شفٹ کر دیا جاےؑ۔ بعد میں پاکستان تو جانا ہی ہے۔ وہ لکھ کر دے چکے تھے۔ ان کے اس فیصلے کا منطقی جواز وہ خود جانتے تھے۔ وہان ان کو روکنے والا کون تھا۔ نہ خون کے رشتے تھے اور نہ اپنی زمین جایؑدادکے۔ 70 سال بعدان کی پانچویں نسل یقینا" بہت فایؑدے میں ہے۔اس عزت اور آسودہ حالی کا وہاں آج تصور بھی نہ ہوتا عارضی منتقلی میں ہم نے پہننے کے کپڑوں کے سو ا کچھ نہ لیا تھا ۔
ہم دہلی میں قرول باغ کے ایک گھر میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوےؑ۔یہ مسلمانوں کا علاقہ تھا ۔ گھر کی چھت پر لہرانے والا سبز ہلالی پرچم آج کی اصطلاح میں سیکیورٹی رسک تھا لیکن صاحب خانہ کیلےؑ انا کا مسیؑلہ۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمیں بھی جام شہادت پلانے کوتیار تھے لیکن جھنڈا اتارنے کو معرکہؑ کفرو اسلام میں اپنی شکست سمجھتے تھے۔ابا روز میرٹھ کی جانب 50 کلومیتر مراد نگر کی بستی چلے جاتے تھے جہاں آرڈیننس فیکٹری تھی اور خیال یہ تھا کہ وہاں حالات بہتر ہوتے ہی ہم بھی لوٹ جاییؑں گے۔۔ اورپھرالوداعی دعوتوں کے بعدتمام سامان سفر باندھ کے اسی طرح پاکستان سدھاریں گے جیسے اب تک ایک شہر سے دوسرے شہرجاتے رہے تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔ابا ایک دن واپس ارہے تھے کہ دہلی اسٹیشن پر بم پھٹا اور پکڑ دھکڑ میں وہ بھی دھرلےؑ گےؑ لیکن آرڈیننس فیکٹری کا کارڈ دکھانے سے بچ گےؑ۔اس کے بعد وہ بھی لوٹ کے نہ گےؑ۔ بعد میں سن لیا کہ گھر کو آگ لگادی گیؑ اور ابا کی برسوں میں جمع ہونے والی کتابوں۔رسالون کی فایلوں اوربیاضوں کا ذخیرہ راکھ ہو گیا۔۔اب یہ کیا بتاوں کہ اس کے ساتھ ہی وہ اندر سے خاکستر ہوگےؑ۔۔رفتہ رفتہ دہلی میں فسادات نے شدت اختیار کی تو نکلنے کی فکر ہویؑ مگر وسیلہ کویؑ نہیں بن رہا تھا،
اسے آپ حسن اتفاق کہےؑ یا انتظام دست غیب کہ ابا کا 15 سال قبل کے ایک ہندو شاگرد کپٹن تنویر نے سر راہ اپنے استاد کو پہچان لیا اور اس نے ملٹری کا ایک ٹرک معہ دو مسلح محافظوں کے بھیج دیا ہم یوں نکلے کہ ہمارے اوپر کچھ ہلکا پھلکا سامان تھا اور دونو محافظ رایفلوں کا رخ سڑک کی طرف کےؑ کھڑے کہ کویؑ بلوایؑ قریب بھی آےؑ تو گولی مار دیں ہر طرف سے فایؑرنگ کی آوازیں ارہی تھیں۔ایک جگہ میں نے سر اٹھا کے دیکھا اور وہ ہولناک منظر اج تک میری یاد داشت میں ہے۔ سڑک کے کنارے ایک لاش پڑی تھی اور دوسرا زخمی پھڑک رہا تھا
ٹرک نے ہمیں دہلی کے نظام الدین اولیا اسٹیشن پہنچایا جہاں سے پاکستان جانے والی اسپیشل ٹرینیں چلتی تھیں۔ ایک میدان میں سینکڑوں خیمے نصب تھے جن میں گردو نواح کے شہروں قصبوں سے لٹ پٹ کرآنے والے اپنے خاندانوں کے ساتھ پڑے تھے۔جن کو کسی اسپیشل ٹین پر جگہ مل جاتی تھی وہ جاتے وقت مفت کا سرکاری خیمہ کسی کو بیچ کر دام کھرے کر لیتے تھے ۔ ہزاروں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ہم نے بھی اپنی جگہ بنالی اور ابا نے کسی طرح ایک دری کا سایؑبان ڈال دیا۔۔کہیں سے کچھ کھانے پینےکو لاےؑ۔ سہ پہر کے وقت کچھ ہوایؑ جہاز نمودار ہوےؑ اور انہوں نے اوپر دایرے میں چکر لگاتے ہوےؑ غوطہ مار کر کھانے کے ڈبے گراےؑ۔۔اس میں بھی لوٹ مچی تو طاقتور اور مستعد ذخیرہ کرنے میں کامیاب رہے اورپھر حکومت پاکستان کی فراہم کردہ مفت کی خوراک کو منہ مانگے دام بیچتے رہے۔رات کو آسمان ٹوٹ کے برسا اور سب جل تھل ہوگیا ہم بھی سب کی طرح ٹخنے ٹخنے پانی میں بیٹھے صبح ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ بارش اگلے دن دوپہر تک جاری رہی۔ ابا نے بتایا کہ اس میدان حشرجیسے افراتفری کے عالم میں بھی لوگوں نے کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ دو بول پڑھاےؑ اور بیٹی تھما کے سر کا بوجھ اتارا۔کچھ یوں گییؑں کہ پھر نہ ملیں اور نہ جانے کس انجام سے دوچار ہوییؑں۔اسپیشل ٹرین پر جگہ ملنا آسان نہ تھا۔ ایک انار اور سو بیمار والی کیفیت تھی کچھ لوگ بھاری رقوم لے کرجگہ دلواتے رہے۔۔ دوسری رات بھی سوتے جاگتے کٹی۔۔صبح منہ اندھیرے خواتین قلعہ کی دیوار کی طرف رفع حاجت کے لےؑ جاتی تھیں ۔ وہاں چھپے ہوس کے بے ضمیر شکاری انہیں دبوچ لیتے تھے کیؑی جوان لڑکیاں اندھیرے میں اٹھالی گییؑں۔۔ یہ نہ سمجھےؑ کہ یہ سب لوٹ مار یا بد معاشی کرنے والے ہندو ہوں گے۔ یہ سب وہیں مقیم مسلمان کرتے تھے۔ کچھ پتا نہ چلتا تھا کہ کون ہجرت کے سفر میں راہروہے اور کون راہزن۔ پکڑنے والا کویؑ نہ تھا ۔ نشاندہی سے بھی کیا ہوتا
تیسرے دن پھر ہندو کپٹن تنویر کی کوشش سے ہمیں ایک ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں جگہ ملی۔۔وہ بہت سے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ اپنے سابق ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے آیا تو سختی سے تاکید کی کہ راستے میں اترنا کہیں نہیں ہے نہ کہیں سے کچھ لینا ہے اس کے گلے مل کر رخصت ہونے کا انداز یاد ہے۔لمبے چوڑے گورے چٹے کپتان نے جھک کر بابوجی کے پیر چھوےؑ تھے تو ابا اس سے گلے مل کر رو پڑے تھے کھانا کیاپانی تک میں زہر ملا ہونے کی خبریں عام تھیں کھانے پینے کا راشن مقرر ہوگیا۔خدا خدا کرکےٹرین چلی اور دہلی کے مضافات سے خیروعافیت کے ساتھ گزرگیؑ،تو پھر رات بھر چلتی رہی۔ماں باپ بیٹھے رہے اور ہم ان کی گود میں سر رکھے سوتے رہے کھڑکیاں بس اتنی کھلی تھیں کہ تازہ ہوا ملے اور لوگ دم گھٹ کے نہ مر جاییؑں۔ ستمبر کا آغاز تھا ۔گرمی اور حبس سے سب کا حال خراب تھا۔ رات کے وقت نہ جانے کس جگہ دو فوجی آےؑ اور ٹین کا ایک باکس چھوڑ گےؑ اس میں بسکٹ پیسٹریاں اور کیک رس بھرے ہوےؑ تھے ۔ بھوکوں کے پیٹ میں کچھ گیا لیکن پانی عنقا تھا کچھوے کی رفتار سے رینگتی ٹرین دوسرے دن جالندھر پہنچی تو وہاں پٹری اکھاڑ دی گیؑ تھی۔۔چلتی ٹرین میں جیسے زلزلہ آگیا سامان لوگوں پر گرااورچیخ پکار کرتے لوگ ایک دوسرے پر۔سنا کہ انجن قلابازی کھا کے دور جاگرا ہے اور کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گی ہیؑں۔۔کچھ دیر بعد دونو طرف کھڑی قد آدم فصلوں میں چھپے سینکڑوںمسلح سکھوں نے حملہ کیا۔ یوں توہر مہاجر ٹرین کی حفاظت کیلےؑ ملٹری ساتھ چلتی تھی لیکن سنا یہی گیا تھا کہ وہ قتل عام کے خاموش تماشایؑ کا فریضہ ادا کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں ، اس ٹرین کے ساتھ جو فورس تھی اسے ایک انگریز کپٹن کمانڈ کر رہا تھا، ملٹری نے دونو طرف پوزیشن لے کر فایؑرنگ کی جو وقفے وقفے سے سارا دن جاری رہی، درمیان میں سکھوں کے نعرے " جو بولے سو نہال۔۔ ست سری اکال" بھی سنایؑ دیتے رہے۔ کحڑکیاں بند حبس اور گھٹن کے ساتھ کرپانوں سے ذبح کےؑ جانے کا خوف ۔ بھوک سے زیادہ پیاس کی اذیت۔امید و بیم کا ایک ایک لمحہ پر عذاب ۔رفتہ رفتہ فایرؑنگ کی آوازیں بند ہوییؑں تو سکوت کا جو طویل وقفہ آیا وہ زیادہ اعصاب شکن تھا جب فرض کرنے والوں کے ذہن مایوسی کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہونگے کہ شاید باہرہمارے محافظ یہ جنگ ہار گےؑ یا انہوں نے دفاع کی ظاہری رسم نبھایؑ اور پیچھے ہٹ گےؑ ۔ بالاخر خبر پھیلی کہ بلوایؑ پسپا کر دےؑ گےؑ اور امدادی کام جاری ہے، نہ جانے یہ خبرر ساں کون تھے، یہ بھی سنا کہ حملے میں پیچھے کی بوگیوں میں بہت شہید ہوے۔بعد میں یہ غلط ثابت ہوا۔ شام سے رات ہویؑ تو کھڑکیاں کھلیں اور کسی نے بند رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ خبر ملی کہ امرتسر سے دوسرا انجن آےؑ گا پٹری مرمت ہوگی اور امدادی کام ختم ہوگا تو ٹرین چلے گی ۔زندگی سے مایوس لوگ کس پر اعتبار کرتے۔بالاخر ایک جا نکنی جیسے عذاب سے گزرنے والوں کو ملٹری نے خبردار کیا کہ کھڑکیاں بند کر لی جاییؑں اوربے جان کھڑی رہنے والی ٹرین نے پھر حرکت کی۔ اگلاامرتسر کا اسٹیشن تھا سکھوں کا گولڈن ٹمپل والا ہیڈ کوارٹر۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھاکہ وہ لاہور سے 50 کلومیٹر پر بھارت کا آخری اسٹیشن ہے اور اس سفر کا سب سے پر خطر مرحلہ ۔۔ ٹرین رکی تو خوف سے سہمے مسافر دم سادھے پڑے رہے۔ پھر کسی نے چلا چلا کے اعلان کیا" مسلمان بھاییوؑ پینے کا پانی لے لو"اماں کے روکنے کے باوجود کچھ لوگوں کے ساتھ ا با بھی بالٹی لے کر اتر گےؑ۔سامنے ہی ایک قطار میں چندباتھ روم بنے ہوےؑ تھے۔ ابا دوڑ کرپہلے اندرپہنچ گےؑ اور نل سے پانی بھرنے لگے تھے کہ کسی نے باہر سے کنڈی لگادی۔ جنونی سکھ جمع ہو کے " ست سری اکال " کےنعرے لگانے لگے۔ہجوم پر خون سوار تھا لیکن زندگی باقی تھی۔ کویؑ سکھ کرنل یونیفارم میں ادھر سے گذرا اس نے ریوالور سے ہوایؑ فایؑر کےؑ اور بلواییؑوں کو منتشر کیا۔ پھرایک ایک کر کے سزاےؑ موت کے منتظر قیدی آزاد کےؑ تو ان سب کے ایک ایک زبردست الوداعی جھانپڑ رسید کیا پنجابی میں اس فرشتہؑ رحمت کی گالیاں بھی دعاےؑ خیر ہی لگیں اسنے کہاکہ " کھوتے دے کھراو تسی سارے ۔ ابھی تم سب کا جھٹکا ہوجاتا۔اوےؑپیاس سے مر جاو ڈبے میں لیکن نیچے مت اترو"۔توبہ توبہ کرتے زندہ سلامت لوٹ آنے والوں نے اس وقت بس اتنا ہی بتایا کہ پانی نہیں ملا۔ کچھ دیر بعد ٹرین پھر حرکت میں آیؑ
کھڑکیاں بدستور بند تھیں۔ سکوت میں ٹرین کے فولادی پہیوں کا راگ ایک ماتمی سر میں جاری تھا گرمی اورشدید حبس سے سب ہی
قریب مرگ ہوں گے۔ نہ جا نے کب اچانک شور سا اٹھا۔۔ غور کیا تو نعرے پاکستان زندہ باد کےتھے۔۔ ایک دم سب مردے جیسے جی اٹھے۔کھٹ کھٹ کر کے ہر کھڑکی کھل گیؑ سب کھڑکیوںسے باہر لٹک کے گلا پھاڑنے لگے،تازہ خنک ہوا اندر آیؑ۔آج 70 سال بعداس وقت بھی یہ لکھتے ہوےؑ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔۔پاکستان آ گیا تھا۔ یہ پاکستان کی ہوا تھی۔ ٹرین پاکستان کی سر زمین پر چل رہی تھی۔وہ وقت صبح صادق کا تھا۔ٹرین قصور کے اسٹیشن میں داخل ہویؑ اور رکی تو سب مرد پلیٹ فارم پر سجدے میں گرگےؑ۔ ڈبے میں عورتیں زارو قطار رو رہی تھیں اور بچوں کو چمٹا کے پیار کر رہی تھی۔ پلیٹ فارم کی مسجد سے فجر کی اذان کی صدا سنایؑ دے رہی تھی۔وہیں صف بندی ہویؑ اور نماز فجر ادا ہوی تو سینکؑڑوں پاکستانی میزبان گلے لگ گیے ؑ۔وہ اپنے ساتھ گرم گرم پوریاں چنے اور حلو ےکا روایتی لاہوری ناشتا لاےؑ تھے۔اتنا کہ ٹرین کے مسافر تعداد میں دوگنے ہوتے تب بھی زیادہ تھا۔ڈھایؑ دن کے بھوکےٹوٹ کر گرے۔ ساتھ گرم چاےؑ تھی ان میں ؎خواتین بھی تھیں جو ڈبوں میں گھس آییؑں اور میں نے انہیں بھی اماں کے گلے لگ کر آنسو بہاتا دیکھا۔استقبال کیلےؑ آنے والوں کو سرحد پار سے آنے والے مہمانوں کے پل پل کی خبرتھی۔ کویؑ مخبری کا نظام ایسا تھا کہ وہ تیار ملتے تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ بعض اوقات ہندو سکھوں کی بھارت جانے والی مہاجر ٹرین کو روک لیا گیا کہ ہماری ٹرین چھوڑو تو ہم بھی چھوڑتے ہیں۔ لیکن ہماری ٹرین سے دو دن پہلے جو اسپیشل روانہ ہویؑ تھی اس میں صرف چار افراد لاشوں کے خون آلودہ انبار کے نیچے سے زندہ برآمد ہوےؑ تھے۔ واللہ اعلم بالصواب کہ حقیقت کیا تھی اور افسانہ کیا
ہماری ٹرین 3 گھنٹے بعد پھر لاہور کی آخری منزل کیلےؑ حرکت میں آیؑ جہاں زیادہ پرجوش میزبانوں کا جم غفیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ٹرین خالی ہوکے لوکو شیڈ میں چلی گیؑ پلیٹ فارم پر ایک شہر ہجرت آباد ہو گیا
———————————————-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔