نیا پاکستان نہیں تو اسی کو بہتر کر لیں ۔
خان صاحب نے ۲۰۱۳ کا الیکشن نیا پاکستان کے نعرہ سے لڑا ۔ نعرہ بزات خود بہت خطرناک تھا ، صاف مطلب تھا اسٹیبلشمنٹ کا بوریا بستر گول ہونے کا ۔ لہٰزا دھاندلی کروائ گئ ۔ عمران کو ہروایا گیا ۔ جب اس نے اچھا خاصا اس کہ خلاف مجمع اکٹھا کر لیا تو پہلے عدلیہ سے پھر فوج سے پسپا کروا دیا گیا ۔
اب خان صاحب ایک تابع دار بچہ کی طرح ۲۱۰۸ کے الیکشن میں کُود رہے ہیں ۔ اُن کے ساتھ پیرنی بھی ہے ، فوج بھی ، عدلیہ اور عوام بھی۔
اب اُن کو نیا پاکستان بنانے کی اجازت تو نہیں ہو گی البتہ پرانے کو بہتر کرنے کی ہزاروں آپشنز ہوں گیں ۔ پاکستان اس وقت ہر فیلڈ میں زیرہ پر ہے ۔ عمران اگر کسی ایک شعبہ کو پکڑ لیں تو نمایاں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔
بہتر ہے کہ صنعتی شعبہ سے اسٹارٹ لیں ۔ لاہور ، کراچی ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی انڈسٹری کھنڈرات بنی ہوئ ہے ۔ مجھے یاد ہے ۲۰۰۸ میں ایک شخص نے مجھے گوجرانوالہ کا گیس سائلنڈر دکھایا ، چین سے کہیں بہتر لیکن قیمت زیادہ ۔ کیونکہ ہماری بجلی ، گیس ، دھات ، لیبر سب کچھ مہنگا ۔ ٹرمپ نے جب امریکہ میں حکومت سنبھالی تو اس نے بھی صنعتوں سے شروع کیا ۔ امریکہ کی زیادہ تر بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات میکسیکو ، چین اور دوسرے ممالک سے بنوا رہی تھیں ۔ جہاں مزدوری سستی ہے جس کی وجہ سے امریکی مزدور بے روزگار ہو گیا تھا ۔ ٹرمپ نے نہ صرف باہر کی مصنوعات پر سو فیصد سے زیادہ ڈیوٹی لگا دی بلکہ ان کمپنیوں کے امریکی دفتر بند کرنے اور لائسنس ختم کرنے کا قانون پاس کیا ۔ آہستہ آہستہ تمام کمپنیاں واپس آ رہی ہیں ۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی انڈسٹری سری لنکا اور بنگلہ دیش منتقل ہو گئیں جہاں کپاس کی پھوٹی بھی نہیں اُگتی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریک کے chain اسٹورز میں انڈیا ، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی تو بے تحاشہ پروڈکٹس پڑی ہیں پاکستان سے شازو نادر ۔
یہ سارے معاملات ہوتے ہیں ملک سے حب الوطنی کہ ۔ جب ہندوستان سے قابل لوگ باہر منتقل ہو رہے تھے ، ہندوستان نے dual nationality پر پابندی لگا دی ۔ ہمارے تو چیف صاحب پچھلے چھ مہینے سے data اکٹھا کروا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب آئے گا پھر فیصلہ کریں گے کہ کیا ہو نا چاہیے ۔ اور مزید کہتے ہیں میری ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کا کیا بنے گا ؟ عجیب و غریب قسم کے لوگ ملک کو چمڑے ہوئے ہیں ۔ ان کو ان کہ حال پر چھوڑ دیں وگرنہ contempt لگا دیتے ہیں ۔ تصویریں چسپا کر دیتے ہیں ۔
آنے والے دنوں میں خان صاحب آپ کو اقتدار تو منتقل ہو جائے گا لیکن فوج اور عدلیہ کا زبردست کنٹرول رہے گا ۔ selective برائے نام احتساب بھی جاری رہے گا اور ہمارے جیسے ناقدین پابندی سلاسل ہوں گے ۔
لہازا خان صاحب آپ سے میری گزارش ہے کہ کسی قسم کے پنگے سے اجتناب کریں ۔ فوج اور عدلیہ کو سرخ لکیر پار کرنے دیں ۔ آپ سر جھکا کر ملک کی ترقی پر گامزن ہو جائیں ۔ اس سے آپ کو کوئ نہیں روکے گا ۔ ان پانچ شہروں کو صنعتوں کے لیے پھر آباد کریں ۔ چین کہ چکر میں مت آئیں ۔ چین تو ویسے ہی سڑک کے آس پاس warehouse بنا رہا ہے فیکٹریاں نہیں لگا رہا۔ کسی قسم کی انڈسٹری کا اسے شوق نہیں جنگ و جدل کی جگہ پر۔ صنعتی پیہ اگر چلے گا تو معیشت بھی سانس لے سکے گی اور بے روزگاری بھی ختم ہو گی ۔ آپ کے تو کافی سارے دوست خود صنعت کار ہیں ان کو کہیں اب اس طرف آئیں ، اپنے جہازوں پر عوام کو بھی عمرہ کروائیں ۔ آپ پر cronyism کا الزام لگے گا خیر ہے ۔ شروعات میں تو سنگاپور کے لی کوا یُون اور مہاتر نے بھی اپنے دوستوں کو استمعال کیا تھا بلکہ جنرل سسی پر مصر میں یہی الزام ہے ۔ پاکستانی کو آگے لے جانے کی سوچیں ۔ ماضی کو بھول جائیں کس نے کیا کیا ۔
کل امریکہ سے ہی میری ایک پاکستانی دوست سے بات ہو رہی تھی ، بے قرار ہیں آپ کی حکومت میں حصہ ڈالنے کے لیے ۔ وہ خواتین کے لیے دیہاتی علاقوں میں کوئ motivation کا کام کرنا چاہتی ہیں ۔ مجھے بھی جب پا غفور نے پاکستان آنے کی اجازت دی تو آپ کے ایک بہتر پاکستان کا حصہ بننے کی کوشش کریں گے ۔ آئیں سب مل کر ایک بہتر پاکستان کی کوشش میں مگن ہو جائیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔