یہ محاورہ الٹا بنا اورالٹا ہی استعمال ہوتا رہا۔۔
اپنی ایک زندگی کے تجربے میں یہی سامنے ٓایا، ایک وقت میں جو میرے لےؑ تما م خواہشات کا حاصل تھا اورساینس کی ترقی کی انتہا تھی وہ دیکھتے دیکھتے کوڑا کچرا ہوگیا۔نوے وولٹ کی بیٹری سے چلنے والا ریڈیو میں نے دیکھا ضرور ہے انیس سو چون میں جوبجلی کا ریڈیو ہمارے گھر میں ایا۔مجھے نہیں معلوم وہ کون کباڑی لے گیا۔چھہ سال بعد میں نے پنڈی میں ایک شخص کو ہاتھ میں ریڈیو لتکاےؑ سڑک پر چلتا دیکھا توبھونچکا رہ گیا۔۔اسی سال میں نے بڑے بڑے پہیوں والی شور مچاتی ٹرایمف موٹر سایؑکل۔۔۔جسے پھٹ پھٹی کہا جاتا تھا۔۔کی جگہ چھوٹے چھوٹے پہیوں والا اٹلی کا ویسپا اسکوٹر دیکھا تو پھر بھونچکا رہ گیا۔۔چار سال بعد میرے پا چابی والے بیس کلو کے گراموفون کی جگہ سیل سے چلنے والا فلپس کمپنی کا ایک فٹ لمبا چھ انچھ چوڑا اور چار انچ موٹا ریکارڈ پلیؑر تھا ۔اس کو میں بغل میں دبا کے چھٹی والے دن لاہور کے شالیمار باغ جاتا تھا اور سردیوں کی دھوپ میں گھاس پر لیٹ کرہر سایزؑکا ریکارڈ بجاتا تھا تو لوگ بھونچکے رہ جاتے تھے۔ وہ بھی یاد نہیں کیا ہوا۔۔لے گیا ہوگا اسے بھی کباڑی۔۔ اس وقت میری ٓاخری خواہش تھی جرمنی کی گرنڈگ کمپنی کا چھ اسپیکر والا ریڈیو گرام۔۔۔ ان کا بیس کلو کا ٹیپ یکارڈر ۔۔ٹی۔کے۔ فور سیون پندرہ سال بعد میں نے ایک کباڑی کو وہ ریڑھی پر تول کے بیچے تھے
صرف مزید تین سال بعد انیس سوسڑسٹھ میں بلیک اینڈ وایؑٹ ٹی وی سے زندگی میں انقلاب اگیا۔ اس کا اثردس سال رہا۔پھر تصویر میں رنگ دیکھ کر عقل خبط ہوگیؑ کہ تصویر تو تصویر اب رنگ ہوا میں اڑتے ارہے ہیں۔۔ یا مظہرالعجایب قرب قیامت کی اور کیا نشانیاں ہوں گی پھر انتیس انچ کا ٹی وی حسرت بن گیا جو اب گھر میں تین ہیں لیکن کباڑی کا مال کہ بیچنا چاہوں توخریدار نہیں ملتا اور بازار میں چالیس پچاس انچ کیا سوانچ کے دیوار پر لٹکانے والے ٹی وی ہیں یا اس سے بھی بڑے اور تھری ڈی۔۔میں گنے چنے خوش نصیبوں میں تھا جو سن ستر میں اپنی دلہنیا کو ہنڈا سیونٹی پر اڑاےؑ لےؑ پھرتا تھا۔صرف پانچ سال میں پانچ خوفناک حادثے کےؑ مگر ایک انگلی بھی نہیں ٹوٹی۔صرف پانچ سال بعد اللہ نے نوازا تو کہانیاں لکھ کے کار خرید لی۔اج ہربچے کی اپنی کار ہے مگر میں نے کہا کہ اس خوش بختی پر خدا کا شکرکرو۔ پاکستان میں دو فیصد کے پاس ہے ۔۔ ایک صاحبزادے نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔ہر شہر میں ٹریفک جام ہے۔۔ نیٹ پر تصدیق کی تو وہ بھی بھونچکا رہ گیا، تناسب دو سے بھی کم،،ایک اعشاریہ اٹھ سات تھا۔۔اگے ہوس کا اتھاہ سمندرہے ،،مرسیڈز سے فراری اور رولس رایس تک۔۔
میوزک کا کریز ہے تو اچھا میوزک سسٹم بھی چاہےؑ لیکن یہ بھی کاروں والا خبط ہے جس کی انتہا نہیں،، فاییو اسپیکرسراونڈ ساونڈ ہے لیکن دس لاکھ مالیت کے تو میں نے یہاں مارکیٹ میں دیکھے ہیں۔۔ اگے امریکن بوس جیسی کمپنی کے سسٹم کی تو مالیت کا بھی اندازہ نہیں۔۔ جب میوزک کیسٹ اےؑ تھے تو گانے منتخب کر کے ریکارڈ کرانے جاتے تھے۔اب ایک کلک پر دنیا کی ہر فلم اور ہر گانا ہے تووہ وقت بھی یاد اتا ہے جب کراےؑ پر وی سی ار لاتے تھے اوراپنا خریدا تھا تو گویا سینیما کو گھر میں لے ا ےؑ تھے،،گزشتہ ہفتہ سینکڑوں ٓاڈیووڈیو کیسٹ پچیس روپے کلو کباڑی کو دےؑ۔۔ انیس سوبانوے میں چھت پر جو وسیع و عریض ڈش لگایؑ تھی وہ سسٹم بھی ایک کباڑی ہی لے گیا تھا ۔۔انیس سو چھیاسی میں فون لگوانے کی رشوت بیس ہزار تھیلین مجھے پریس کی ترجیح پہ نہیں دینا پڑی تھی۔ٓج ہر بچے سے لے کر ماسی تک کی جیب میں فون ہے ۔ہر چیز بشمول شوہر۔ریموٹ سے کنٹرول ہوتی ہے
۔۔لیکن وقت نے اس دوڑ میں رفتہ رفتہ مجھے پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔ جیسے وہ سب کو چھوڑ کے اگے بڑھ جاتا ہے۔۔ اب میں لیپ ٹاپ پرکلک کا جادو تو کچھ سیکھ گیا ہوں لیکن ذرا بھی جادو رکے تو مدد کیلے چودہ سال کی پوتی کو پکارتا ہوں اور وہ ہنس کے کہتی ہے کہ کیا اپ بھی کاکا۔۔اس بٹن کو دباییؑں بس۔۔ کمپیوٹر گیم خاک بھی سمجھ نہیں اتے۔۔بعض اوقات کارٹون بھی۔۔ نصف صدی قبل سنا اور دیکھا تھا کہ انسان چندا ماما سے اور چرخہ کاتنے والی بڑھیا سے ملنے چاند پر جا اترا تھا۔۔ اب اس نے مریخ پر قدم رکھ دیا ہے، ۔۔ سنا ہے بجلی سے چلنے والی الودگی ختم کرنے والی گاڑیاں انے سے دنیا میں پٹرول کی طلب کم ہویؑ تو قیمت ادھی بھی نہ رہی۔۔مستقبل میں بجلی کی جگہ ایٹمی یا شمسی توانایؑ سے چلنت والی کاریں ہی نہیں ٹرین اور ہوایؑ جہاز ا جاییں ۔۔بغیر ڈراییؑورکے چلنے والی کاریں بسیں اور اب ٹرک بھی سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔۔بہت جلد اڑنے والی کاریں عام ہوں گی۔۔انسانی ابادی کا دوسرے سیارون پر منتقل ہوجانا خارج از امکان از بالکل نہیں رہا اگرچہ وقت کا تعین ہم اور اپ نہیں کر سکتے۔۔ کیا ساینس کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہوتا؟
میں بھی اپنے بچپن کے ہر خیال سے تایب ہوتا ہوں مثلا یہ کہ ادمی پرندوں کی طرح نہیں اڑ سکتا۔۔بے تار بجلی نہیں ہوسکتی۔۔ ابھی تو خیر ساینس نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ زندگی اور موت کا فیصلہ بہر حال خدا کے ہاتھ میں رہےگا اورانسان ایک سو پندہ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔۔اللہ میں نے پانچ سال کم کر دےؑ
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1147787078636642