نویں سال کا خدا
حسب معمول سویرے آٹھ بجے ناشتہ کرنے بعد میں نے کلینک کا رخ کیا ۔۔ گلی کی پہلی نکڑ کی دائیں طرف تیسرا گھر " وہ گھر جو میرے لیے کبھی مسجد مندر درگاہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔
ایک وقت تھا کہ میں اسی نکڑ کی دائیں طرف تیسرے گھر کے گلی کی طرف کھلنے والے لوہے کے دروازے کی کنڈی یوں کھٹکائے دیوڑی میں کھڑا رہتا جیسے کوئی مندر کی چوکھٹ پہ لٹکی ہوئی گھنٹی پہ دستک دیئے مندر میں موجود دیوی کی توجہ حاصل کرتے ہوئے کے اپنی سبھی من و کامنائیں پیش کیے جاتا ہو ۔۔
رات ہوتی تو وہی دروازے کی کنڈی درگاہ بن جاتی جس پہ میں دھاگہ یا ڈوری باندھے جاتا ۔۔ کبھی سرخ کبھی سیاہ کبھی سبز اور کبھی سفید جیسی مراد ہوتی ویسی ڈوری یا دھاگہ ۔۔ میری منتوں مرادوں کو وہ اپنی خاص کرامات کے ذریعے پورا کرتی ۔۔
جو کبھی مجھ سے وہ ناراض ہوتی تو میں جھک کر سجدا کیے دیتا ۔۔ پر کہاں " وہ جلدی کہاں ماننے والی تھی ۔۔ تھوڑا سی سزا دیتی ۔۔۔ تھوڑی سی اسلیے کہ کم ہی سہی مگر محبت جزاء و سزا سے مبرا تو نہیں ۔۔ عزاب ہوتا حساب ہوتا اور میں خود کو طرح طرح کی سزائیں دیتا ۔۔ جب میں تھک جاتا تو کسی فقیر مجزوب درویش کی طرح جھولی پھیلائے جاتا ۔۔ سسکیاں ہوتی اور میں ہوتا ۔۔۔ خدا کے نام پہ تم " ہاں تم ۔۔ فقط تم ۔۔۔ جانتی نہیں خدا ہو میرا تم ۔۔
پھر کہتا" شرک سے تو میں کب کا باز آ چکا البتہ واجباب میں کتاہیوں پر ایک دن ضرور قابو پا لوں گا ۔۔ خدایا مجھ پہ اپنا در بند مت کرو ۔۔ مجھے بندگی کرنے دے ۔۔۔
پھر وقت نے ایسی پلٹی ماری کہ سالوں کا سفر ایک پل کا محتاج نکلا ۔۔۔
میں نہیں جانتا کہ اس وقت خدا کے نام پے میں اس سے کیا مانگا کرتا تھا " جبکہ میرا خدا تو وہی تھی ۔۔ منت مراد عبادت سب کچھ وہی تو تھی ۔۔۔
کتنا عجیب تھا وہ وقت " کہ میرے دو خدا ہوا کرتے تھے ۔۔ ایک وہ جو الہ ہے ۔ زمین و آسمان کا اکلوتا مالک و خالق جسے میں نے دیکھا تک نہیں ۔۔ اور ایک خدا زمین پہ " جو پانچ مرلے کے مکان میں رہتا تھا ۔۔۔ میں مشرک تھا یا مومن ؟ ۔۔ نہیں جانتا " مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں ایک کٹر مزہبی انسان تو ضرور تھا ۔۔
وہ آٹھ سال ۔۔۔ دو خدا ۔۔ ڈر ۔ خوف ۔۔ درد ہاں درد اوپر سے کافر ہونے کا گمان یا یقین ۔۔۔ مزید بڑھ کر در بدر ہونے کا خوف اور ڈر ۔۔۔ ایک دن وہی ہوا جسکا ڈر تھا ۔۔ گمان پہ یقین غالب آیا اور میں" در بہ در ۔۔آہ ہ ۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ عشق کفر کی اور بندگی کی پہلی سیڑھی ہے ۔۔ اگر وہ عشق تھا تو میں آج خود کو کیسے معاف کروں ۔۔۔ دونوں خداؤں کی نظر میں" میں ہی کافر میں ہی مشرک اور لوگوں کے نزدیک لادین ۔۔۔ مگر مجھے پرواہ نہیں ۔۔۔ جو بویا وہی کاٹا ۔۔۔۔ بہوشی یا ہوش سے مجھے کیا سروکار میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ لفظ ( کن ) تھا ۔۔ اسکے بعد ہزار داستانوں کی ایک داستان بنی ۔۔۔
خیر آٹھ سال میں یہی سوچتا رہا کہ عشق میں انسان کی بڑی ہی عجیب کیفیت ہوتی ہے ۔۔ اذیت الگ درد الگ ۔۔ دوزخ کی آگ کی طرح تپش جو کبھی ٹھنڈی نہیں پڑتی ۔۔ مقصد ہوتا ہے تو صرف جھلسنا " جلنا " تڑپنا ۔۔۔ یہ عشق ہوتا ہے اگر آنکھوں سے بہے تو سمندر کے پانی جیسا کھارا مگر جمتا نہیں صرف بہنا جانتا ہے ۔۔۔ کیونکر اسکا کنارہ نہیں ۔۔ یہ ساکت کیوں نہیں ہوتا ۔۔ گہرائی ہے کہ اندازہ نہیں ۔۔ کیا میں صرف تیرتے رہوں ۔۔ آخر کب تلک ۔۔۔
میں تو پھر بھی انسان ہوں مگر یہ سمندر تو تپش سے پھرپور سورج کو بھی ڈبو جاتا ہے ۔۔ خیر ایک دن تو ڈوبنا ہے ۔۔ تو میں بھی ڈوب گیا ۔۔ ہاں پھر یقین بن گیا کہ عشق ہی خدا ہے ۔۔ عشق زندہ ۔۔ بندہ ڈوب گیا ۔۔۔ کیوں نا " میں ڈوبنے سے بچ جاؤں اور خدا سے مکر جاؤں ؟
مگر کہاں " نا تو مجھ سے ڈوبا گیا اور نہ ہی مکر سکا ۔۔
دو ماہ ہونے کو ہیں واپس اسی شہر میں ہوں ۔۔ پورے چار سال بعد جو چاہا مل گیا ۔۔ منگنی ہوئی میری اس کے ساتھ ۔۔ جو پہلے کبھی مندر مسجد درگاہ تھی ۔۔ ویسا اب کچھ بھی تو نہیں تھا ۔۔
نہ دیوی کا درشن نہ من کی کامنائیں اور نہ ہی دھاگے اور ڈوری ۔۔ ہوتی بھی کیسے کچھ بھی تو باقی نہیں رہا تھا ۔۔۔ شاید وہ میرا اب کامل ایمان بن چکی تھی ۔۔ کہتے ہیں کہ کامل ایمان انسان کو تہمات سے دور پرے لے جا کر کھڑا کرتا ہے ۔۔
پھر اب حاصل و لاحاصل کی جنگ بھی تو سرد ہو چکی تھی ۔۔۔
چند برس پہلے میں نے اسے چھوڑ دیا تھا ۔۔ کیونکہ میرا ماننا تھا ۔۔ خدا اور بندہ ایک نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔ چھوڑ دیا وہ در ۔۔ من کے مندر میں رکھا بت توڑ دیا ۔۔۔۔۔۔
میں کوئی دیوتا نہیں تھا ۔۔ جو دیوی کو سویکار کرتا تھا ۔۔ میں تو ایک انسان تھا ۔۔ جسے عبادت درشن اور منت کا علم تھا ۔۔۔۔۔ پھر برابری کہہ لیں یا توازن ایک ہی بات ہے ۔۔۔ توازن کہاں تھا " سرے سے ہی غائب ۔۔۔ غلو تھا یا یقین سب کچھ پل بھر میں مٹ چکا تھا ۔۔۔
مجھے لگتا کہ جب خدا ہی انسان کا روپ دھار لے تو " عبادت منت درشن کی وقعت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔۔۔
خیر آٹھ سال سے وہ مسلسل میرے لیے دیوی اور خدا تھی ۔۔۔۔
آج گلی کی نکڑ کی دائیں طرف تیسرے گھر سے پھر وہی خدا نکلا ۔۔۔۔ درشن ہوا ۔۔ مگر اس بار نہ تو وہ مجھے خدا لگی نہ ہی دیوی ۔۔۔۔ یہ نواں سال تھا اور نویں سال وہ جو کبھی میرا خدا تھی آج کسی کی بندگی میں تھی ۔۔۔۔۔ اسی گھر سے نکلی اور بائیک پہ کسی شخص کے ساتھ بیٹھ کر چلی گئی ۔۔ جاتے سمے اسکی آنکھوں میں فخر اور تکبر تھا ۔۔ جیسے وہ مجھے جتلا رہی ہو" کہ دیکھو میری بندگی ۔۔۔ اور خود کی بندگی ۔۔۔۔۔
اچانک سے موبائل کی گھنٹی بجی ۔۔۔ جی کون ۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی آئیے آج اپنے درد میں ہمارے دانت کے درد کا علاج کی جیئے ۔۔۔۔