نواز شریف تصادم کی طرف، کامیابی یا ناکامی؟
سابق وزیراعظم نوازشریف، اُن کی صاحب زادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو قید اور جرمانے کی سزائوں کے بعد ملک خصوصاً پنجاب کی سیاسی تقسیم کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ایک طبقہ اُن کی سزا کے خلاف مظاہرے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد اور اُن کے خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہا ہے اور دوسرا خوشی کا اظہار، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے حامی بڑھ چڑھ کر عدالتی فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے جس کے ساتھ ہی سیاسی تنائو میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ حمایت اور مخالفت میں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر توڑپھوڑ اور آزاد امیدواروں کا بڑی تعداد میں حصہ لینا، سابق حکومتی پارٹی کے مورال میں کمی کا سبب بن رہے تھے۔ مگر سابق وزیراعظم اور اُن کی صاحب زادی کی جانب سے وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی پارٹی کے مورال میں یکدم اضافے کا رحجان ہو اہے۔سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر اور بھائی شہبازشریف کے پنجاب کے مختلف شہروں میں استقبال اور جلسے اس کا واضح ثبوت ہیں جو پچھلے تین چار روز میں پہلے سے زیادہ لوگوں کی شرکت کے حوالے سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے لندن میں پریس کے چند لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے امیدواروں پرآئی ایس آئی والے پارٹی ٹکٹ واپس کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ میاں نواز شریف خلائی مخلوق جیسی اصطلاحوں کے بعد اب کھل کر فوج کے ساتھ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اُن کے گرد اہم ترین لوگ جن تک میری رسائی ہے، وہ بھی اب فوج کے ساتھ تصادم میں جمہوریت اور سول حکمرانی کی کامیابی کی اس کشمکش میں بڑے پُرامید نظر آرہے ہیں۔
سینٹ کے الیکشن کے بعد ووٹ کو عزت دو کی جو تحریک سوشل میڈیا سے لے کر مین سٹریم میڈیا تک چلائی گئی، اب وہ شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ کیپٹن صفدر اور شہباز شریف کے جلسے اور استقبال کے بعد مسلم لیگ (ن) کے آئیڈیلسٹ رہنما یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ اب کی بار ہم سول حکمرانی کی جنگ میں بس کامیاب ہوئے۔ پاکستان کے بائیں بازو کے کچھ ناکام لوگ جو خود کچھ کرنے سے قاصر ہیں، انہوں نے بھی اس جنگ میں میاں نواز شریف کی حکمرانی کی اس کشمکش کو سول ملٹری تصادم کے تناظر میں اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دے کر میاں نواز شریف کے موقف کو عوامی جمہوریت سے تعبیر کیا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیں بازو کے یہ لوگ جو عوام میں کم بنیاد رکھتے ہیں، اِن لوگوں کا زیادہ تر تعلق پنجاب سے ہے۔ مگر بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ میاں نواز شریف کی ذاتی اور خاندانی حکمرانی کی جنگ قرار دیتا ہے۔ چند ایک گنتی کے اہل قلم کو نکال کر اگر آپ بائیں بازو کے اِن لوگوں کو جو نواز شریف کی شکل میں سول حکمرانی کی تعبیر کررہے ہیں، زیادہ لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور کسی نہ کسی طرح این جی اوز سے وابستہ رہے ہیں اور تاحال بھی اُن کی سماجی سرگرمیاں جن کو وہ ازخود سیاسی سرگرمیوں سے وابستہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں، Fund oriented ہیں۔ یہ بائیں بازو کے سابقہ لوگ درحقیقت شکست خوردہ فکر کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے وہ اب بائیں بازو یعنی سوشلسٹ نظریات سے زیادہ لبرل خیالات کے نمائندہ ہیں۔ عالمی ڈونرز کے تحت چلنے والی انہی بائیں بازو کے سابقین کی این جی اوز نے جنرل پرویز مشرف کے دَور میں اس کی حمایت بھی کی تھی اور انہی طبقات سے ایک معروف این جی او کے نمائندہ عمر اصغر خان، جنرل مشرف کی حکومت میں وزیر بھی رہے اور پھر ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ یہ شکست خوردہ بائیں بازو کے سابقین چوںکہ خود جدوجہد کرنے کے اہل ہی نہیں رہے کہ عالمی ڈونرز کے پیسوں نے اُن کی زندگیوں کو تن آسانیوں سے روشناس کروا دیا ہے، جدوجہد سے وہ کم ہی آشنا ہیں۔ اس طرح وہ یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ بس اب وقت آگیاہے سول حکمرانی کی فیصلہ کن جنگ کا اور میاں نواز شریف کی شکل میں حالات نے ایک نیا لیڈر قوم کو عطا کردیا ہے۔ بائیں بازو کے اس ناکام لوگوںمیں آپ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ سے شاید ہی کوئی لوگ دیکھ سکیں۔ میاں نواز شریف کا معاملہ پنجاب کے اندر ہی برپا ہے۔ میاں نواز شریف کی جدوجہد، سول حکمرانی کی کشمکش کو ہم پنجاب کے علاوہ کہیں نہیں دیکھ پا رہے۔اور اسی طرح اُن کے سرگرم مخالفین بھی پنجاب میں ہی پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں نظر آرہے ہیں۔ پنجاب جوکہ مرکزی حکومت کی تشکیل میں انتخابی حوالے سے قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد میں برتری کے سبب فیصلہ کن بنیاد رکھتا ہے، وہاں اس تصادم کا روزبروز عروج کی طرف گامزن ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
مگر یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ڈاکٹر مبشر حسن جیسے نرم خو بائیں بازو اور ڈاکٹر لال خان جیسے کٹر بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ، میاں نواز شریف کی حکمرانی کے اس تصادم میں اپنے انداز میں نواز شریف پر مسلسل تنقید کررہا ہے۔
نواز شریف کیا سول حکمرانی کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں؟ اس حوالے سے میرا مورخہ 27فروری 2018ء کا کالم بعنوان ’’نوازشریف کی سول حکمرانی، حقیقت یا فسانہ‘‘ اس کالم کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں میں اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) اگر یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ بس اب وہ وقت آیا کہ آیا جب وہ طاقت کے تمام مراکز کو نیست ونابود کر پائیں گے تو شاید وہ غلط تجزیہ کیے بیٹھے ہیں۔ جس طرح تصادم آئے روز بڑھتا جا رہا ہے، عملاً سیاسی تصادم No Return کی طرف جا رہا ہے۔ اور اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ یقین کیے بیٹھی ہے کہ وہ Street Fighting کرکے طاقت کے مراکز کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے گی تو بھی یہ ان کا غلط تجزیہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کسی سطحی سطح پر بھی Street Fighting کی طاقت نہیں رکھتی۔ اور ایک ایسی پارٹی جو شہروں کے تاجر طبقات (مرکنٹائل کلاس) پر بنیاد رکھتی ہو، کبھی بھی گلیوں محلوں میں لڑنے کا ڈھانچا ہی نہیں بلکہ طاقت ہی نہیں رکھتی۔ میڈیا میں دکھائے جانے والے چند مناظر جن میں لوگ اپنی قمیص اور بنیانیں پھاڑ کر نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں، یہ لوگ نہ تو سیاسی کارکن ہیں اور نہ ہی انقلابی تحریکوں کے کارکنان۔ میاں نواز شریف چند میڈیا ہائوسز کی طرف سے میڈیا میں Proxy War لڑ رہے ہیں اور اگر وہ اسی پراکسی وار کے اب تک کے نتائج سامنے رکھ کر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ان میڈیا ہائوسز کی کم کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے، جو کبھی وہ حکومتیں بنانے اور گرانے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ میاں نوازشریف کے مقابلے میں عمران خان پنجاب میں دوسرے مقبول لیڈر ہیں۔ دونوں دائیں بازو کی سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی فکر ومنشور کے مالک ہیں۔ پنجاب میں اور یہ لڑائی Right vs Right ہی ہے اور روایتی دکان دار طبقہ بہ مقابلہ نئی مڈل کلاس بھی ہے، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں۔
میاں نوازشریف کی صاحب زادی مریم نواز جن کی ایک ویڈیو میں نے دیکھی، جس میں وہ حبیب جالب کے شعر کا ایک مصرعہ پڑھ رہی ہیں، ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘۔ یہ شاعری جنرل ضیا کی آمریت میں حبیب جالب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے لکھی تھی، جب بے نظیر بھٹو کے ہزاروں ساتھی جیلوں میں قید اور پشتوں پر کوڑے کھا رہے تھے، ملک میں سفاک فوجی آمریت تھی اور کوئی قانون، عدالت نہیں تھی۔ آئین معطل کرکے جنرل ضیا نے عدالت عظمیٰ سے صوبائی عدالتوں تک اتھل پتھل کردی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے والد کو سُولی پر جھولا دیا گیا تھا۔ پورے ملک کی جیلیں بے نظیر بھٹو کا نعرہ لگانے والوں سے ناکوں ناک بھر چکی تھیں۔ اُن کی والدہ نصرت بھٹوآمریت کی قید میں تھیں اور جرأت مندی پر مبنی ایک شان دار سیاسی جدوجہد برپاہوچکی تھی۔ اس دوران ایک انقلابی شاعر نے اس جدوجہد کرنے والی ایک نہتی لڑکی پر یہ اشعار لکھے تھے۔ آپ کہاں اور وہ کہاں! آپ کی سیاست کہاں اور اُن کی سیاست کہاں! آپ کی جدوجہد کچھ اور ہے۔ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو سُولی پر لٹکا دیئے جانے والے کارواںکی جدوجہد کچھ اور تھی۔ نہ آئین تھا اور نہ عدالتیں۔ اب سب کچھ ہے۔ بہت فرق ہے۔ مریم نواز، خدا آپ بے نظیر بھٹو جیسے حالات سے آشنا نہ کرے، جس کے دو بھائی قتل کردئیے جائیں، باپ سُولی پر لٹکا دیا جائے۔ نہ، بالکل نہیں، حکمرانی کے بطن سے آپ نے سیاست کا آغاز کیا ہے۔ ایک دن تھانے میں بھگتنا پڑ جائے تو جدوجہد کی حقیقت سمجھ آجاتی ہے۔ یہ قمیصیں اور بنیانیں پھاڑنے والے آپ کو نظر بھی نہیں آئیں گے۔ خدارا، آپ کس تصادم کو دعوت دے رہی ہیں۔ میاں نواز شریف خلائی مخلوق جیسی اصطلاحوں کی تراکیب استعمال کرنے کے بعد اب کھل کر فوج سے لڑنے آرہے ہیں اور مریم نواز کہہ رہی ہیں، بندوقوں والے آپ جیسی نازوں پلی نہتی لڑکی سے ڈرتے ہیں۔ بالکل غلط تجزیہ ہے۔ آپ لوگ اگر تدبر سے حکمرانی کرتے، شفافیت سے حکومتیں چلاتے، ایمان داری سے خاندانی کاروبار کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ آپ کس آگ کو دعوت دے رہی ہیں۔ معذرت کے ساتھ، آپ کو اس کا شاید شعور ہی نہیں۔ اگر یہ تصادم بڑھا تو جو ہوگا، آپ حیران ہوں گی اور آپ کے پاس اِن الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہوگا، You too Brutus!۔