نواز شریف کیا کریں؟
نوازشریف کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اپوزیشن والے جو باتیں کررہے ہیں ،ان باتوں پر غور کریں ،زرداری ،بلاول اور جاوید ہاشمی کی باتیں غور سے سنیں ۔نوازشریف یہ بھی ضرور سوچیں کہ کہیں یہ جو ملک میں اس وقت ایک تحریک برپا ہے یا جو پروپگنڈہ وغیر ہ جاری ہے ،یہ کیوں ہے ،ا سکا کیا مقصد ہے؟مسائل بہت گھبیر ہیں ،مختلف خیالات کی چھان بین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ٹی وی چینلز پر جس طرح کی ایجنڈا نیوز کی قیامت برپا ہے ،ان نیوز رپورٹوں پر بھی محترم نواز شریف کو بہت زیادہ دھیان اور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔یہ درست بات ہو سکتی ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت زیادہ خامیاں ہوں ،لیکن اگر ہر جگہ سازشی خیالات و نظریات ہوں ،اوپر سے محترم نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ برپا ہو چکی ہو ،تو وہ کیسے بطور وزیر اعظم الباکستان کو چلا سکتے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جس پر سوچنا ہوگا ؟ٹھیک ہے وزیر اعظم ہاوس میں نواز شریف کے ارد گرد بہت سے حواری موجود ہیں ،جو انہیں فیڈ کررہے ہوں گے کہ جناب دبنگ بن جائیں ،ڈٹ جائیں ،سب خیراں ای خیراں ۔۔۔اور نواز شریف ان کی باتوں میں آکر وہی کریں تو یہ بھی کوئی بات نہیں ،محترم نواز شریف کو آوٹ آف دی باکس سوچنا ،سمجھنا اور جاننا ہوگا ۔اور یہی ان کے پاس بہترین موقع ہے۔حواریوں سے نوازشریف کو نکلنا ہوگا ،کیونکہ اصل میں ہر طاقتور کو تاریخ انسانی میں حواریوں نے ہی پہلے پھنسایا اور پھر مروایا ۔نواز شریف تھوڑے سے عرصے کے لئے وزارت عظمی کے عہدے سے الگ ہو سکتے ہیں ،یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ،اس عرصے کے دوران وہ ڈٹ کر جے آئی ٹی رپورٹ کا مقابلہ کریں ،مقدمات کا سامنا کریں گے تو بری بھی ہو جائیں گے ۔ہو سکتا ہے وہ بری ہوجائیں ۔۔۔پھر وہ دوبارہ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان بھی ہو سکتے ہیں ۔اس صورتحال میں اپنے عہدے سے الگ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ وہ کسی قسم کے مجرم ہیں ،یا کوئی انہیں مجرم تصور کرسکتا ہے ،اس کا مطلب ہے کہ اس سے ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا ۔کہا جائے گا کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے میدان میں آگئے ہیں ۔بھیا جمہوریت کے لئے اتنی چھوٹی سی قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں ۔قربانی تو بھٹو نے بھی دی تھی ،تختہ دار پر چڑھ گئے ،بے نظیر نے بھی دی ،شہید کردی گئی ۔مجھے آج بہت سے دوستوں نے کہا کہ بھائی پاکستان میں جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے ،جوڈیشئیل مارشل لاٗ نافذ کرنے کی تیاریاں ہیں ،مان لیا پاکستان میں جمہورت کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر سازش برپا ہے ،جو کہ میں نہیں سمجھتا کہ بڑے پیمانے پر ایسا ہے ۔لیکن نواز شریف ،شہباز شریف ،حسین نواز ،حسن نواز اور مریم نواز وغیرہ جے آئی ٹی کو تمام ثبوت فراہم بھی تو کرسکتے تھے ،کسی نے انہیں روکا تو نہیں تھا ۔لیکن انہوں نے سچائی کا مظاہرہ نہیں کیا ،یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے ،جسے میرے جیسا جمہوریت پسند بھی نہیں جھٹلا پارہا ۔شریف فیملی نے ثبوت فراہم کرنے کی کوشش تک نہیں کی ۔محترم نواز شریف کے پاس اب بھی ایک عظیم موقع ہے کہ وہ ایک دلیرانہ فیصلہ کریں ،فوری الیکشن کا اعلان کردیں ،اقتدار نگران حکومت کو سونپیں کیونکہ لگ ایسا رہا ہے کہ کچھ دنوں تک عدالت ان کا کیس نیب کے حوالے کردے گی ۔اس کا فائدہ شریف فیملی کو یہ ہوگا کہ کوئی مائی کا لال یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ نواز شریف اقتدار میں تھے ،اس لئے نیب پر دباو تھا ۔بھیا نواز بھائی وزیراعظم بھی رہے ،کرپشن کے مقدمات میں بھی اٹکے رہے تو ریاستی اور حکومتی معاملات ڈانواں ڈول ہو جائیں گے ۔ان کے لئے مسائل بڑھ جائیں گے ۔کب تک وہ ایسا کریں گے ؟ہو سکتا ہے بہت بڑے مسئلے میں پھنس جائیں ۔اس وقت نواز شریف نظام پر شبہات کرنے کی بجائے ،اس پر اعتماد کریں ،اگر وہ نظام پر شبہات کررہے ہیں تو بھر یہی عدالتی نظام بھی ان پر شکوک کرے گا ۔نواز شریف صاحب آپ ایک سیاسی لیڈر ہیں ،ایک سیاسی فرد ہیں ،جمہوری نظام کسی بھی فرد سے بہت بڑا ہوتا ہے ،اس لئے جمہوری نظام کو خطرات میں نہ ڈالیں ،جمہوری نظام خطرات میں آگیا تو پھر یہ جو لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے ،یہ بھی رخصت ہو جائے گی ،پھر جو ہوگا ،اس کے بارے میں آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ؟وہ آپ کو دھرنے کے دوران کہتے رہے کہ گو نواز گو ،مطلب استعفی دو ،آپ نے نہیں دیا ،جمہوری لیڈر کو ایسی پوزیشن میں استعفی دینا بھی نہیں چاہیئے تھا ۔شاید وہ مستعفی ہونے کا وقت بھی نہیں تھا ۔لیکن اب کی بار صورتحال مکمل طور پر مختلف ہے ۔اب سیاستدان بھی آپ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں ،پارلیمنٹ بھی آپ کے ساتھ نہیں ،اس لئے موقع کو استعمال کریں ۔میرے دوست کہتے ہیں کہ میرے اندر ایک چھوٹا سا عمران خان ہے ،شاید میں اس لئے عمران خان کو پسند کرتا ہوں ،شاید ایسا ہو ،ہو سکتا ہے کیونکہ میں بھی ایک انسان ہوں ۔لیکن اصل میں ان دوستوں کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صرف نواز شریف ہی جمہوریت نہیں ہیں ،صرف نواز شریف ہی پاکستان نہیں ہے ۔میری یہ بات میرے دوست نہیں مانتے ،لیکن اصل بات یہی ہے ،ٹھیک ہے نواز شریف پر میرے بہت سے شکوک و شبہات ہیں ،ضیاٗالحق کے سابق ساتھی پر شک کرنا بنتا بھی ہے ،شاید اسی ناسٹلجیا کا شکار ہوں،کامران عظیم اور نمر احمد صاحب غور کریں ۔لیکن دوستوں کو ایک پیغام واضح دوں گا کہ جمہوریت پر مجھے شبہہ نہیں اور جمہوریت میں نواز شریف کے علاوہ عمران خان اور زرداری صاحب بھی آتے ہیں ۔جمہوریت پر ہم جیسے تمام لبرل اور لیفٹسٹ یقین رکھتے ہیں ،لیکن ہر لبرل اور لیفٹسٹ نواز شریف پر اعتماد نہیں کرسکتا ۔شاید اسی لئے مجھے نواز شریف پر اعتماد نہیں ۔نواز شریف کے مستعفی ہونے سے جمہوریت مستحکم ہو گی ۔جمہوری عمل تیز ہوگا ۔نواز شریف کے پاس مستعفی ہونے کا بہترین موقع ہے کہ وہ مستعفی ہوں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے ،تو وہ سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں ،وہ مستعفی ہو سکتے ہیں ۔نواز شریف پر مجھے رحم اس لئے آرہا ہے کہ وہ حواریوں میں پھنس چکے ہیں اور اپنے آپ کو بھول چکے ہیں ۔یہ کمبخت دانیال عزیز ،طلال چوہدری جیسے نواز شریف کے کان اور آنکھیں بن چکے ہیں ،یہ انہیں سوچنے نہیں دے رہے ،ان کی وجہ سے نواز شریف کو اور جمہوریت کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ نواز شریف مسلسل انکار کے موڈ میں ہیں۔بھیا مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں یہ رپورٹ تیار نہیں ،تخلیق کی گئی ،اگر صرف تخلیق کی گئی ہے تو کپیٹل ایس زیڈ ایف کیا ہے ،آپ کی کمپنی ،آپ نے تنخواہیں وصول کی ،اس کا ثبوت دیں ،یا ان حواریوں کو کہیں کہ ثبوت میڈیا کے سامنے لائیں ۔جاوید ہاشمی نے بھی مشورہ دیا ہے کہ نواز شریف مستعفی ہوں اور سازش کو ناکام بنائیں ،ان کی ہی سن لیں ،یقین کریں وہ آپ کے اور جمہوریت کے سب سے بڑے وفادار ہین ۔جاوید ہاشمی نے پریس کانفرس میں کہا کہ اگر وہ یہ کہیں کہ نواز شریف قصور وار نہیں تو یہ غلط بات ہے ،نواز شریف کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا ۔یہ ہیں جاوید ہاشمی جو شاید جمہوریت کے خلاف سازشوں کو بھی پاکستان میں سب سے زیادہ سمجھتے ہین ۔درست ہے عدالت نے نواز شریف کو گارڈ فادر کہا ،شاید اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کئے جانے چاہیئے تھے ،پھر جے آئی ٹی رپورٹ مین بھی سخت زبان استعمال ہوئی ،ہتھ ہولا بھی رکھا جاسکتا تھا۔لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ اگر تخلیق بھی کی گئی ہے تو ساتھ ثنوت کے ڈاکومنٹس ہیں ،ان کا جواب تو دینا ہوگا ۔ثابت کرنا ہوگا یہ ثبوت غلط ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھٹو سے پہلے اور بھٹو کے بعد آج تک سیاستدانوں کا ہی اھتساب ہوا ہے ۔جرنیلوں اور ججوں کا نہین ہو پایا ،مشرف نے بھی آئین پامال کیا تھا ،ان پر بھی غداری کا مقدمہ ہے ،لیکن وہ انصاف اور قانون کے شنکجے میں نہین آسکا ۔یہ سوال بھی ہے کہ کیا مشرف کو عدالت سزا دے سکتی ہے؟وہی مشرف آج کہہ رہا ہے کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں طاقتوروں کا بھی احتساب ہو سکتا ہے ،اب مشرف کے اس بیان پر ہنسنے اور رونے کو دل کرتا ہے ،سمجھ نہیں آرہی کہ پہلے ہنسا یا پہلے رویا جائے ۔سابق چیف جسٹس افتخار بھی کچھ ایسے ہی بیانات دے رہے ہیں ۔لیکن نوازشریف مشرف نہیں ،وہ جمہوریت کے زریعے آئیں ہیں ،انہیں جمہوری رویہ اختیار کرنا چاہیئے ۔مریم بی بی ابو کو کہیں استعفی دے دیں ،اسی طرح ہی آپ فیوچر پرائم منسٹر بن سکتی ہیں ۔لیکن آپ تو حواریوں کے ساتھ ہیں اور کہہ رہی ہیں کوئی استعفی نہیں دے رہا ۔کیوں پھر کہا تھا کہ میں ٹرسٹی ہوں ،بینیفیشل آنر نہیں ،اگر بینیفیشل آنر تھی تو سچ بتا دیتی ،پھر ہیرا پھیری کیوں ؟جمہوری لیڈروں کو بھی اپنے رویوں پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔کیا بدقسمتی ہے کہ اس صورتحال میں فضل الرحمان نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ۔نوازز شریف صاحب کوئی آپ کے خلاف عالمی سازش نہیں ہورہی ۔اسٹیبلشمنٹ ،عدلیہ ،اپوزیشن ،سیاستدان ،یہودی ،ہنود ،نصاری ،یہ سب عالمی سازش کا ھصہ نہین ۔اور یہ کیا بات ہے کہ یہ سب سی پیک کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔سی پیک کہاں ،جے آئی ٹی کہاں ،یہودی ،نصاری والے کہاں ؟صرف سازشی نظریات بیان کرنے سے کچھ نہین ہوگا ۔بھیا جنرل باجوہ نے فرمادیاہے کہ سی پیک کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام باندیں گے ۔ان کے کہنے کا مقصد تھا فضل الرحمان ایسے بیانات دینے سے پرہیز کریں ۔یہ کوئی بات ہے کہ ICIJ بھی آپ کے خلاف ساش کا حصہ ہے،کیلیبری فونٹ بھی آپ کے خلاف ساش کا ھصہ ہے ،وہ انسان جس نے کیلیبری فونٹ بنائی تھی ،اب تو اس کا بیان بھی آگیا ہے انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ مریم بی بی نے جو ڈاکومنٹ دیا ہے یہ بعد کی بات ہے ،جب کیلیگری فونٹ بن گئی تھی ۔ساتھ تفصیل سے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے 2002 میں کیلیبری کا ڈیزائن بنایا تھا ۔2004کو مائیکرو سافٹ والوں کو دیا تھا ۔اس وقت اس کا ڈیزائن ایسا تھا کہ کوئی بھی اس کو ڈاون لوڈ نہیں کرسکتا تھا ۔پھر دی فالٹ فونٹ بنی ،پھر اس کو مائیکرو سافٹ ورڈ میں ڈالا گیا ۔وہ بندہ جس نے کیلیبری بنائی تھی ،اس کی گواہی کی اہمیت کو کیسے جھٹلایا جائے ۔قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف کے لئے احسن فیصلہ یہ ہے کہ وہ مستعفی ہوں ،اور مقدمات کا سامنا کریں ۔ایسے مقدمات کا سامنا بے نظیر نے بھی کیا تھا ،زرداری نے بھی کیا تھا ۔اور ایک وقت وہ بھی جمہوریت میں آئے گا جب مشرف جیسے جرنیل اور افتخار جیسے سابق جج کا بھی احتساب ہو گا ۔اس کے لئے ضروری ہے جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیئے ۔باقی آپ کی مرضی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔