نوازشریف کی سیاسی طاقت کا سراب
میں اپنے گزشتہ کالموں میں میاں نوازشریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے حوالے سے جو نقطہ نظر پیش کرتا رہا ہوں،وہ یہی تھا کہ اُن کے پاس نہ تو وہ پارٹی ہے جو کسی بھی نظام کو پلٹ دے اور نہ ہی کوئی ایسا نظریہ جو اقتدار کے ظاہری اور باطنی مراکز کو توڑ دے۔ 13جولائی کو لاہور پہنچ کر دونوں باپ بیٹی نے خود کو قانون کے حوالے کردیا۔ انسانی حوالے سے باپ بیٹی کو گرفتار ہوکرجیل جاتے دیکھنا میرے جیسے جذباتی انسان کے لیے تکلیف دہ بات تھی۔ میں قانون کا طالب علم نہیں، اسی لیے سیاسی لوگوں پر مقدمات پر میں قانونی تجزیہ کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ میاں نواز شریف کے حوالے سے یہ جو تاثر ابھرا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، یہ ایک سطحی تجزیہ ہے اور یہ بھی یوٹوپیائی خیال ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے دیں گے۔ ریاست ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جس کے پاس حتمی جابرانہ قوت ہے۔ قانون سے لے کر تمام ادارے اس کے جبر کو حتمی شکل دیتے ہیں۔ اور جو لوگ جابرانہ ریاستوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ ہیں جو ریاست کے جابرانہ کردار کو محدود کرکے حکمرانی کی طاقت عوام میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی ریاست کے اقتدار کو جمہور میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ایسے لیڈر ایک مکمل عوامی فکر کی بنیاد پر عوامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنی طاقت منظم کرنے کے لیے ایک مکمل سیاسی پارٹی کی تعمیر کرتے ہیں۔ ایک بھرپور سیاسی لیڈر جو حکمرانی کے تصادم میں ریاست کے جبر اور اقتدار کو توڑ سکے۔ دوسرے وہ لیڈر ہوتے ہیں جو ظاہری طور پر ریاست کے جبر کے ساتھ لڑتے نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن اُن کا انحصار ریاست کی بیوروکریسی اور اپنے اردگرد چند افراد پر ہوتا ہے۔ وہ اس تصادم میں شکست کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ میاں نوازشریف سمیت پاکستان کے تمام لیڈر اور سیاسی جماعتیں اس کے اہل ہی نہیں کہ وہ ریاست کے جبر کو توڑ سکیں۔ کسی کے پاس نہ تو ایسی جماعت اور نہ ہی ایسا سیاسی کیڈر ہے جو نظام پلٹ دے۔ میاں نوازشریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور کچھ دنوں بعد عمران خان، یہ سب لیڈر ریاست کے بنے ہوئے ڈھانچے میں حکمرانی کرنے پر انحصار کرتے ہیں، یعنی سول بیوروکریسی کے سر پر۔ کبھی کبھی ایسی حکمرانی کرتے ہوئے چند ایک لیڈروں کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ اب اس قوت کے دائروں میں داخل ہوگئے ہیں، جہاں سے حکمرانی کے اس ڈھانچے کو وہ نیست و نابود کر دیں گے۔ یہی وہ مقامِ غلط فہمی ہے جو ایسے لیڈروں کو ریاست کے اندر تصادم کے نتیجے میں شکست سے دوچار کرتا ہے۔
میاں نوازشریف پچھلے چالیس سال سے سیاست میں ہیں اور تینتیس سالوں سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں اُن کی جماعت نہ تو حکمرانی کا کیڈر تشکیل دے سکی اور نہ ہی ریاست کے جابرانہ کردار کے خلاف لڑنے کی صلاحیت پیدا کرسکی۔ ووٹ لے کر حکمرانی بیوروکریسی کے سر پر ہی کی۔ ہمارے ہاں تقریباً تمام اہل دانش لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی میں 15جولائی کو فوجی بغاوت کو کچلنے کے بعد، ترکی میں فوج کا ریاستی ڈھانچے میں کردار محدود یا شاید مکمل ختم ہوگیا ہے۔ میرے جیسے لوگ جو ترک سیاست کو سمجھنے کے لیے دہائیوں سے سرگرداں ہیں، اُن کے لیے ایسی سوچ ایک یوٹوپیائی سوچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دو سال پہلے فوجی بغاوت کو کچلے جانے کے بعد، ریاستی ڈھانچے میں ترک فوج کا ایک نیا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس کی وجہ موجودہ ترکی کی خطے میں جنگی معرکوں میں شرکت ہے، شام اور عراق میں بھرپور اور کامیاب فوجی آپریشنز نے ترک فوج کے اثرورسوخ کو بڑھایا ہے اور اگر ہم ترکی کے علاقائی کردار کو دیکھیں تو وہ اب خطے میں ایک اہم فوجی طاقت کے بَل پر اپنا کردار متعین کروانے چلے ہیں۔ سیاسی حکومت پہلے سے زیادہ فوج پر انحصار کرنے چلی ہے، اسی لیے ایک ہفتہ قبل نافذ ہونے والے نئے سیاسی نظام میں سابق جرنیل کو وزیر دفاع کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اپنے معاملات کو شاید اسی طرح دیکھ رہی تھی۔ اسی غلط معلومات اور تجزیوں کے سبب میاں نوازشریف نے پچھلے دو سالوں میں فوج کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور ناکام بائیں بازو کے لوگوں نے جو خود اپنی لڑائی لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، انہوں نے بھی ہلاشیری دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کئی سال قبل جب میں سیاست میں سرگرم تھا، ڈاکٹر مبشر حسین نے مجھے ایک نایاب نصیحت کی، ’’جو کر نہیں سکتے، اس کا دعویٰ نہ کرو۔‘‘ میاں نواز شریف چند اینکروں، کالم نگاروں اور چند ایک ٹیلی ویژن چینلز کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ جہاز میں پاکستان کی ایک اینکر پرسن اُن سے گفتگو کررہی تھی، جس کی ویڈیو ہر طرف وائرل ہوئی، اس اینکر پرسن کے ساتھ میاں نواز شریف کی گفتگو سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میاں نوازشریف کس قدر سیاسی قوت رکھتے ہیں۔ اینکر پرسن آئیں بائیں شائیں کرکے اپنے کیے گئے انٹرویو کے بی بی سی پر چرچے پر بڑی نازاں ہے اور جب میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ آپ میرے اس انٹرویو کو اپنے چینل پر تو چلوائیں تو یہ اینکر پرسن اپنی مجبوریاں ظاہر کرتی ہے۔ ایک طرف اس اینکر پرسن کی موقع پرستی دیکھنے والی تھی اور دوسری طرف سابق وزیراعظم اور پاکستان کے تاحال مقبول ترین لیڈر کی بے بسی کہ وہ کہہ رہے تھے کہ چار پانچ ٹی وی چینل ہی کھڑے ہوجائیں تو شاید کچھ بات بن جائے۔ انقلاب اینکر پرسن نہیں، سیاسی جماعتوں کے کارکن برپا کرتے ہیں۔ اخباروں اور ٹی وی چینل کو خبریں دینے والوں کا کام خبریں دینا اور تجزیے کرنا ہوتا ہے اور بس کچھ نہیں۔
اگر میاں نواز شریف واقعی طاقت کے مراکز کو توڑ کر ایک وسیع عوامی جمہوریت قائم کرنے میں مخلص ہوتے تو وہ یقینا اپنی پارٹی کو سیاسی اور انقلابی بنیادوں پر منظم کرتے۔ میاں صاحب آپ کے اردگرد جو کالم نگار اور اینکرپرسن آپ سے پچھلے دس سالوں میں مفادات اٹھاتے رہے، یہ انقلاب کا پرچم بلند کرنے کے لیے نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے لیے سرگرداں ہیں، ان کا ریکارڈ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ آپ سے پہلے یہ جنرل پرویز مشرف کے گرد بھی پائے جاتے تھے اور چند دنوں بعد اگر عمران خان وزارتِ عظمیٰ لے کر ’’اقتدار میں حصہ دار‘‘ بن گئے تو پھر یہی لوگ اُن کے گرد ہوں گے بلکہ آپ کی پارٹی کے بڑے بڑے ’’اعلیٰ حکام‘‘ لوگ بھی۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف اور آج کی پی پی پی، کوئی بھی اس صلاحیت سے محروم ہیں جس کا ’’جھکاوا‘‘ آپ دے رہے ہیں، یعنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ۔ درحقیقت مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتیں اقتدار میں حصہ داری کی خواہاں ہیں، ہاں کسی ایک لیڈر کو یہ گمان ہوجائے کہ وہ ریاست کے اندر ہونے کے ناتے اس ڈھانچے کو الٹ پلٹ سکتا ہے تو یہ ایک خواب ہے حقیقت نہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں چند بڑے سفری منصوبوں کی بنیاد پر یہ کہاجائے کہ یہ ترقی ہے تو یہ بھی ایک سراب ہے۔ سی پیک کا منصوبہ دونوں ممالک کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ پاکستان جودنیا کی ساتویں بڑی آبادی ہے اور بڑی غربت ہے، اس کی قسمت بدل جائے گی تو یہ بھی خام خیالی ہے۔ حقیقت میں سی پیک تو منصوبہ ہی عوامی جمہوریہ چین کا ہے۔ ہم نے تو اسے بس اپنے ہاں قابل عمل کرنا تھا، یہی ہمارا کردار ہے۔ چین ایسے لاتعداد منصوبوں پر عمل کررہا ہے جو اسے دنیا کے چاروں کونوں تک رسائی دینے میں مددگار ہوں گے۔ اور ایک تلخ مگر حقیقت پر مبنی بات، کبھی کوئی بیرونی لیڈر ہماری قسمت بدلنے نہیں آئے گا۔ مہاتیر محمد ہوں، اردوآن یا شی چن پنگ یا کوئی بھی اور۔ پچاس اور اسّی کی دہائی تک ہمارے حکمران عوام کو یہ باور کرواتے رہے اور عوام بھی یقین کرتے رہے کہ امریکہ، پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ گندم کی بوریوں سے لے کر ریلوے انجنوں تک پاکستان اور امریکہ کے جھنڈوں میں ڈیزائن کیے دو ہاتھ اس دوستی کے طور پر دیکھنے کو ملتے تھے۔
میاں نواز شریف 13جولائی 2018ء کو لندن سے اڑ کر لاہور پہنچ گئے اور گرفتاری دے دی۔ مگر آپ کی پارٹی کا سب سے بڑا جلوس جو لوہاری گیٹ کے سامنے منظم کیا گیا تھا جس کی قیادت میاں نواز شریف کے بھائی اور پنجاب میں مسلسل دس سال حکمرانی کرنے والے لیڈر شہباز شریف کررہے تھے، لاہور ایئرپورٹ نہ پہنچ سکا۔ اس جلوس کی کوریج کے لیے خصوصی طور پر ایک اینکر کو شہباز شریف صاحب نے کسی پرانے گھر کی چھت پر چڑھایا ہوا تھا۔ یہ ’’سینئر تجزیہ نگار‘‘ اسی طرح 12مئی 2007ء کو بھی ایک چھت پر چڑھ کر نشریات کررہا تھا۔ یہ تجزیہ نگار آپ کے دربار میں خاص مقام پاگیا اور امریکہ میں سفیر ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اور اب یہ ’’سینئر تجزیہ نگار‘‘ چند ہفتوں بعد دربار میں نئی تاج پوشی کے بعد اسی طرح خلعت پائے گا۔ آپ اِن لوگوںکے سروں پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے چلے ہیں؟
چند سال قبل جب گورنر پنجاب سلمان تاثیرنے شہباز شریف صاحب کی حکومت معطل کی تو ایک مشترکہ دوست کی خواہش تھی کہ میں معطل وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کروں اور اُن کا ساتھ دوں۔ شدید دبائو کے بعد ملاقات ہوئی۔ شہباز شریف صاحب نے وقت راقم کے لیے مختص کیاتھا، وہ راقم کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کے بعد تمام میٹنگز کا وقت لپیٹ دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر حکومت بحال ہو جائے تو کیا کیا جائے۔ راقم نے دو مشورے دئیے، ایک Model District بنایا جائے اور دوسرا پارٹی منظم کی جائے نئے سرے سے۔ میری ان تجاویز کو انہوں نے بڑی دلچسپی سے سنا اور خواہش کی کہ آپ اس پر کام کریں۔ طویل تجاویز اور باقاعدہ ڈرافٹ جب پیش کیے گئے تو اردگرد موجود سیاسی بونوں کو خطرہ محسوس ہواکہ میں کہیں دوبارہ سیاست میں تو نہیں آرہا اور یوں ’’بونے نظام‘‘ کو خطرہ ہوا۔ مجھے ایک طرف لے جا کر اُن کے ایک ’’قدآور لیڈر‘‘ نے کہا، آپ دوبارہ سیاست کے کس جھنجھٹ میں پڑنے لگے ہیں، پارٹی کی تشکیل نو کی بھلا کیا ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ البتہ اپنی تجاویز کے ساتھ میں نے میاں شہباز شریف سے عرض کی کہ اگر آپ ایک پارٹی تشکیل کرگئے تو ایسی پارٹی پاکستان کے سیاسی اور حکمرانی کے ڈھانچے کی تشکیل نو کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اور ایسی جمہوری پارٹی کی قیادت سے آپ خود بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں، یعنی آپ کو پارٹی کا CEO نہیں بلکہ ممبر بن کر رہنا ہوگا۔ اسی طرح ماڈل ڈسٹرکٹ پر لکھے گئے صفحات بیوروکریسی کے ’’مہذب اندازِ گفتگو‘‘ کی نذر ہوئے۔ جبکہ راقم نے اپنی دونوں تجاویز میں عملی طور پر ماڈل شہروں اور پارٹی کی تشکیل نو کی عملی مثالیں بھی کیس سٹڈی کے لیے دی تھیں، مگر کہاں۔۔۔ نظام توڑنے والے رہبر کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں۔ ا س کے لیے لازم ہے، ایک مکمل سیاسی فکر، ایک مضبوط جمہور کے ڈھانچے پر مبنی جماعت اور اس نظریے پر تربیت یافتہ کیڈر ، جوکہ ہمارے ہاں ناپید ہے۔
اب عمران خان حکمرانی کے حصہ دار بننے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں متعدد کالم لکھ چکا ہوں جن میں 1997ء میں اپنے غریب خانے پر اُن کے اعزاز میں دئیے گئے ڈنر میں راقم نے کہا تھا کہ آپ اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں، مگر آپ کے طور طریقے بتاتے ہیں کہ آپ بھی اسی بے بسی کا اظہار کریں گے جو حکومت ملنے کے بعد ہمارے وزرائے اعظم کرتے چلے آئے ہیں۔ ہاتھ بندھے ہوئے تھے، پائوں بندھے ہوئے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان اگر چند ہفتوں بعد حکومت میں قیادت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو جو اُن کا حشر ہوگا، اس کی تو شاید پہلے کبھی مثال ہی موجود نہیں۔ اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو وہ حکمرانی کے اس ڈھانچے میں دراڑیں تو کیا، معمولی سا ارتعاش بھی پیدا نہ کرسکیں گے۔ پاکستان کا سب سے بے بس وزیراعظم، جس نے اپنی پارٹی کو اپنے ہی ہاتھوں بکھیرنے کا عمل جس تیزرفتاری سے طے کیا، اس کی بھی مثال نہیں تھی۔ سول بیوروکریسی اور ریاستی اقتدار کے ڈھانچے کی مرہونِ منت ایسی جماعتیں کبھی نظام نہیں بدل سکتیں۔ غلط وہ ہیں جو ان کے اندر انقلابی لیڈر کا خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔
“