نوازشریف کی جدوجہد، جیل یا جلاوطنی؟
عمران خان نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی صاحب زادی مریم نواز کی وطن واپسی پر جو بیان دیا ہے، وہ کسی بھی سطح پر انسانی یا سیاسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ’’نوازشریف کا استقبال کرنے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ یہ ایک ایسے لیڈر کا بیان ہے جو نوازشریف کا متبادل بننے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے رات دن کوشش کررہا ہے، اور امکان ہے کہ وہ چند دنوں کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوکر اس کرسی پر براجمان ہو جائیں، جہاں انہوں نے ساری قوم کی قیادت کرنی ہے۔ کیا ایسا بیان ایسی شخصیت کو زیب دیتا ہے ؟ کیا وہ اِن گدھوں پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ ہمارے ہاں چوںکہ تمام کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے اپنی اپنی مرضی کی مچانیں سنبھال رکھی ہیں، اس لیے کالم پڑھنے والے اور سننے والے وہی کچھ پڑھنا چاہتے اور تجزیہ سننا چاہتے ہیں، جو اُن کی سچی جھوٹی امیدوں کو مزید پھیلا دے۔ اسی لیے میرے کسی کالم یا ویڈیوکلپس پر جو میں سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہوں، مسلم لیگ (ن) کے مداحین بہت نالاں ہوئے اور عمران خان کے دیوانے خوش تو دوسرے کالم یا ویڈیو کلپس پر مسلم لیگ (ن) کے مداحین بہت خوش ہوئے اور عمران خان کے چاہنے والے نالاں۔ اور کئی تو جب میں کسی حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرتا ہوں،مجھے موجودہ پی پی پی کا حامی تصور کرتے ہیں۔ اگر وہ میری سب تحریریں پڑھیں تو انہیں معلوم ہوجائے کہ میں لکھتا آیا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے 10اپریل 1986ء کو دم توڑنا شروع کردیاتھا، جب محترمہ بے نظیر بھٹو، امریکہ اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کرکے آئی تھیں۔ اور آہستہ آہستہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی تحلیل ہوتی چلی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ’’ایک نئی‘‘ پی پی پی کا ’’ظہور‘‘ ہوا۔
کسی سیاسی تجزیہ نگار کا کام واقعات، حالات اور سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر اپنے وژن کے مطابق تجزیہ کرنا ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں یہ رواج اب معدوم ہوگیا ہے۔ کالم نگار اور الیکٹرانک تجزیہ نگار، سیاسی لیڈروں یا سیاسی جماعتوں کے دھڑوں میں نہ صرف بٹے ہوئے ہیں بلکہ اپنی سیاسی وابستگی پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی عمران خان کا اتالیق ہونے پر فخر کرتا ہے اور کوئی نوازشریف کے لیے قلم کاری کرکے اپنے آپ کو جمہوریت کا چمپیئن ظاہر کررہا ہے ۔ افسوس، ایک آزاد تجزیہ نگار کی فضا محدود ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کے تجزیے کی مقبولیت سیاسی مقبولیت کی فضا سے جڑ گئی ہے۔ یہ ایک اندھے سماج کی نشانی ہے جو حقائق سے نظریں چرا کر جھوٹی خبروں، جعلی کہانیوں و داستانوں اور خوابوں میں رہنا چاہتا ہے۔
میرا گزشتہ کالم ’’نواز شریف تصادم کی طرف، کامیابی یا ناکامی؟‘‘ ایک تجزیہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی میرے تجزیے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس میں کہیں بھی تعصب کی بجائے حقائق اور صورتِ حال کے علاوہ کچھ پیش نہیں کیا گیا کہ کیا نواز شریف فوج کے ساتھ تصادم کی سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اور ساتھ ہی جواب تھا کہ نہیں۔ اُن کے پاس وہ سیاسی Instrument(سیاسی جماعت یا سیاسی کیڈر) ہی نہیں جو اس ڈھانچے میں طاقت کے Invisible Centres کو توڑ دے اور ساتھ ہی اُن کی جماعت اور حامی لوگوں پر میرا تجزیہ تھا کہ اُن کے ساتھ دکان دار (مرکنٹائل) طبقہ ہے جو سٹریٹ فائٹر نہیں ہوتا اور نہ ہی اُن کی جماعت اس طاقت کی مالک ہے اور نہ ہی ابھی تک ذاتی حوالے سے وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ لڑائی میں شہید ہونے کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔ یہ ایک تجزیہ ہے، موقف نہیں۔ سیاسی موقف اور تجزیے میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر تجزیہ نگار درحقیقت سیاسی موقف لکھتے اور ٹیلی ویژن پر بولتے ہیں۔ تجزیہ کرنے کی صلاحیتیں مفادات اور عشق میں دب گئی ہیں۔
آج عمران خان کا بیان جس قدر غیرسیاسی ہے، اسی قدر غیرانسانی بھی ہے۔ اور ایک ایسا شخص جو میاں نوازشریف کو اقتدار کی کرسی سے ہٹا کر خود اس پر بیٹھنا بھی چاہتا ہے۔نامناسب ہی نہیں بلکہ گھٹیا زبان وبیان ہے، جو کسی مہذب زبان سے میں نے کبھی نہیںسنی۔ اور دوسری بات یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے قائد میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کا استقبال کرنے ایئرپورٹ جائے، اُن کو روکنا اور گرفتار کرنا سراسر غیرجمہوری اقدام ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ حق ہے کہ وہ سٹریٹ فائٹنگ کرے۔ سڑکوں، گلیوں، محلوں اور شہروں میں پُرامن احتجاج کرے۔ یہ اُن کا بنیادی جمہوری، آئینی اور سیاسی حق ہے۔ اُن کا قائد کرپٹ ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے پُرامن احتجاج میں حکومتی اور ریاستی سطح پر کارروائیاں سراسر ناانصافی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمارے ہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ طاقتیں جو اسامہ بن لادن کو قتل کرتی ہیں، وہی طاقتیں ہوتی ہیں جو اسامہ بن لادن کو جنم دیتی ہیں۔ حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کو گرفتار اور ایئرپورٹ پر استقبال کی اجازت نہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری ریاست کے اندر جمہوریت بس نام کی حد تک محدود ہے اور یہی وجہ ہے کہ سماج بھی غیر جمہوری رویوں میں پروان چڑھ رہا ہے۔ صرف ووٹ دینا یعنی الیکشن اور ووٹ کی عزت تک کا نام لینا جمہوریت نہیں ہوتا۔ جمہوریت ایک طرزِحکمرانی بھی ہے، جمہوریت ایک طرزِسیاست، جمہوریت ایک طرزِزندگی بھی ہے۔ ہماری ریاست، سیاست، حکومتیں، سماج اور فرد اپنے اندر جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کی بجائے مزید غیرجمہوری ہوئے ہیں۔ اسی لیے Violence کا کلچر عام ہوا ہے اور متعدد مذہبی گروہوں نے بندوق کے بعد دھونس اور گالی کو سرعام اپنانا شروع کردیا ہے۔ عمران خان کا یہ بیان کہ نوازشریف کا استقبال کرنے والے گدھے ہیں، اسی زمرے میں آتا ہے۔ اُس زبان میں جو ایک مذہبی رہبر اپنے دھرنوں میں استعمال کرتا ہے اور اُس زبان میں بھی جو میاں نوازشریف اور شہباز شریف ، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کرتے تھے اور اُن کے لیفٹیننٹ پنڈی والے شیخ رشید استعمال کرتے تھے اور یہ سب خوش ہوتے تھے، میں بھی کوئی فرق نہیں۔ جن میں ایک نعرے کا دوسرا جملہ ہوتا تھا، Coca Cola – Pepsi۔ کیا ہم نے اُس وقت سے اِس وقت تک جمہوری زبان وبیان میں کوئی ترقی کی ہے یا کہ مزید زوال آیا ہے؟ عمران خان کا موجودہ بیان مزید زوال کی نشان دہی کرتا ہے۔
نوازشریف کے حامیوں کو ایئرپورٹ جانے سے روکنا اور گرفتار کرنا ریاست میں مزید جمہوریت Democratizationکے مزید محدود ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس سارے جمہوری عمل اور جدوجہد میں جمہور کو ایک مال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یعنی جمہوریت کے اس عمل وجدوجہد میں جمہور کے سیاسی، معاشی، سماجی اور اظہار کے حقوق کا کہیں ذکر نہیں۔ جمہوریت کے اس سفر اور ووٹ کو عزت دو کے اس عمل میں ووٹ دینے والے کے تعلیمی حقوق، صحت کے حقوق، تحفظ کے حقوق، معاشی حقوق اب فسانہ ہیں۔ اور اگر میرے جیسا کوئی حقیقت پسند ایسی بات لکھتا یا بیان کرتا ہے تو اسے آئیڈیلسٹ قرار دے دیا جاتا ہے یا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ 70ء کی دہائی کے نظریات میں پھنسے ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل اور جدوجہد میں جمہوریت کا عنوان، تعلیم، معاشی حقوق، روزگار اور عام انسان کی زندگی کے مسائل ہوتے تو جمہور بھی مضبوط ہوتے، جمہوریت بھی اور جمہوری سیاست کرنے والے بھی۔ لیکن اس سارے عمل میں چند خاندان، شخصیات اور افراد ہی مضبوط ہوئے ہیں۔اب انہی کے حقوق کو جمہوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اُن کے اختیارات کی وسعت کو یا Absolute Power کے حصول کی جنگ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔
میں یہاں ایک اور تلخ حقیقت لکھنے لگاہوں۔ پی پی پی کے مداحین اپنی قائد بے نظیر بھٹو کو ’’شہید رانی‘‘ کا لقب دیتے ہیں۔ عوامی لیڈر راجائوں اور رانیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ راجا اور رانی ہیرو نہیں ہوتے، انقلابی ہیرو ہوتے ہیں۔ ایسے القابات اسی سماج کے غیرانقلابی، غیرجمہوری سفر کی دلیل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک حوالے سے ایک راجہ کے بیٹے تھے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک انقلابی کہلوانے میں فخر محسوس کیا نہ کہ راجا۔ عام لوگوں کو اِن حکمران طبقات نے اس قدر غلامانہ بنا دیا ہے کہ وہ اب وہی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جو اُن کے استحصال کا سمبل ہیں۔ جمہوریت کے شہید کبھی راجا اور رانی نہیں ہوتے۔ بدھا ایک راجا کے گھر سے بغاوت کرکے تاریخ ِ انسانی کا عظیم انسان بن جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس بات پر فخر کرتا ہے کہ وہ ایک غریب ماں کا بیٹا ہے اور ایک انقلابی۔ اب یہ خوشامد پسند کالم نگار وتجزیہ نگار مریم نواز کو ملکہ ٔ جمہوریت قرار دیں گے اور نوازشریف کو شہنشاہِ جمہوریت۔ کاش ہماری ریاست، سیاست، سماج اور افراد، شہنشاہیت اور رانی جیسے دائروں سے نکل کر عوام کے قدموں تلے جنم لینے والی جدوجہد پر یقین کرکے اِن قدموں پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے اِن بازوئوں پر یقین کرنا شروع کردیں۔
نوازشریف کا حقیقی سیاسی امتحان(پرچہ) جمعہ 13جولائی کو ہوا ہے، وہ اس امتحان میں تب ہی پاس ہوں گے اگر وہ اپنی جدوجہد کو فرد کے اختیارات کی بجائے افراد کے حقوق اور اختیارات تک پھیلانے کے لیے عوام کے ساتھ قدم بڑھائیں۔ یعنی وہ اپنا سیاسی اتحاد عوام کے ساتھ کرلیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ عدالتوں سے کرپٹ قرار دے دئیے گئے ہیں۔ اُن کی سابقہ سیاست کے تیس سال حکمرانی کی سیاست کے ہیں، جس میں مفاہمت کا عنصر نمایاں ہے۔ چھوٹے موٹے اختلافات کو بنیاد بناکر اُن کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اُن کی سیاست میں ابھی تک وزیراعظم کے حقوق واختیارات نمایاں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ وزیراعظم کے حقوق واختیارات سے باہر نکل کر اپنی جدوجہد کو عوامی حقوق تک پھیلا دیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی تب اصل لڑائی میں بدلے گی، جب وہ اس لڑائی میں عوام کی حکومت کے حقوق کے لیے ’’خلائی مخلوق‘‘ کے ساتھ تصادم کریں کہ میں پاکستان میں عام انسان کی زندگی کے اِن آئینی حقوق کا خواہاں ہوں، بصورتِ دیگر یہ لڑائی آلیگارکی (Oligarchy) کی جنگ ہے۔
“