نواز شریف کا زوال ۔
لندن سے اطلاعات یہ ہیں کہ نواز شریف کی اہلیہ کی clinical death ہو چکی ہے گو کہ ہماری دعائیں ابھی بھی ان صحتیابی کے لیے ہیں۔
ہماری نجومی اور روحانی شخصیات نے ہمیشہ بی بی کلثوم کو نواز شریف کے لیے عروج کا ستارہ گردانا ۔ اب یہ زوال انہی ماہرین کے نزدیک رُکے گا نہیں ۔ ۲۵ ، ۲۵ کڑوڑ لے کر جو ٹکٹیں دی گئیں ہیں وہ پیسہ بھی بیکار ہو گیا ۔ کوئ دنیاوی ترکیب کام نہیں آئ ، سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا ۔ ببلو اور ڈبلو کے فلیٹ تو پہلے ہی خطرے میں ہیں ۔
یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے ۔ کاش ہم سمجھیں ۔ آصف زرداری کے کیس میں وہی طاقتیں بے نظیر کے ساتھ آصف کی شادی کو در اصل آصف زرداری کا زوال سمجھتی تھیں ۔ وہی ہوا ۔ جب بینیظیر کی موت واقع ہوئ ، آصف زرداری کی لاٹری لگ گئ ۔ یہ بھی قدرت کے عجیب و غریب معاملات ہیں ۔ ازدواجی حیثیت اور اثر ، روح کو ہلا کے رکھ دیتا ہے ، کہتے ہیں ہر آنے والی اپنا رزق لے کر آتی ہے ۔ ہر رشتہ روح کے دنیا میں سفر کو ایک نیا موڑ دیتا ہے ، دو روحیں اکٹھی ہو رہی ہوتی ہیں ۔ دو زندگیوں کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے ، ایک اپنے ہی انداز اور اپنی ہی ڈگر پر ۔ کبھی تو ایک روح دو جان والا معاملہ ۔
عمران خان کی بشری بی بی سے شادی پر بھی اسی طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں ۔ کسی نجومی نے ہی عمران خان کو مشورہ دیا تھا، کہ بشری بی بی سے شادی سے نہ صرف وہ وزریر اعظم بن جائیں گے بلکہ اُن کی زندگی میں کافی ساری فضولیات سے اُن کو چھٹکارا مل جائے گا ۔ لگتا ہے ایسا ہی ہونے جا رہا ہے ۔ خان صاحب نے عمرہ بھی کر لیا ، سعودی فرمانرواہ کی خوشنودی بھی حاصل کر لی ۔ electables کو پارٹی ٹکٹ بھی دے دیے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر بھی جھکا دیا ۔ اب تو بس وزارت عظمی کی کرسی کا انتظار ہے ۔
ہمارے سربراہوں کی زندگیاں کسی ڈرامہ سے کم نہیں ۔ ایک امریکی ٹیلی ویژن پر فلمائے جانے والے soap opera سے کہیں زیادہ دلچسپ ڈرامہ ، fiction نہیں بلکہ حقیقت ۔ کیونکہ اس میں قوم ، ملک اور سلطنت کا زکر تک نہیں ، صرف اور صرف شہرت ، طاقت اور دولت کا انوکھا اور اپنی نوعیت کا انوکھا کھیل ۔ اسی رقص میں ۷۰ سال کے اندر غریب غریب تر ہو گیا ، ملک دو ٹکرے ہو گیا ، اور چند امیر لوگ راتوں رات ارب پتی بن گئے ۔ آج ۲۲ کروڑ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں ۔ یہ تو آپ سب کہ علم میں ہے کہ نہ عزت رہی ، نہ حب الوطنی نہ غیرت ۔ ایک شرمندگی اور نحوست کا ڈھانچہ ۔ ایک عزاب رب کی طرف سے ۔ کونسا انتقام ، کس بے حیائ کا ؟
کیا اس سے نکلا جا سکتا ہے ؟ بہتری ممکن ہے ؟ جی ، صرف ایک طریقے سے کہ ام تمام سیاسی گماشتوں کو بلا امتیاز احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ۔ یہ ظالم لوگ ہی ہمارے دشمن ہیں ۔ ہمارا دشمن باہر نہیں ۔ یاد ماضی عزاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔ شیخ ظہیرالدین حاتم کے چند اشعار پر ختم کروں گا ۔
کھیل سب چھوڑ ، کھیل اپنا کھیل
آپ تُو قدرت کا تو کھلونا ہے
اتنا میں انتظار کیا اس کی راہ میں
جو رفتہ رفتہ دل میرا بیمار ہو گیا
جو جی میں آوے تو ٹک جھانک اپنے دل کی طرف
کہ اس طرف کو ادھر سے بھی راہ نکلے ہے
پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو
اور بستی نہ ہو یہ دلی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔