نواز شریف کا تازہ حملہ، ملکی سالمیت پر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔
نواز شریف کے ملک کے حساس ترین معاملات پر تازہ ترین بلنڈر (یا سوچا سمجھا حملے) پر یار لوگ بہت سی باتیں کریں گے۔ اور کر رہے ہیں۔ یہ راز کہاں تھا۔ سب کو پتہ تھا۔ بتا دیا تو کیا ہوا۔ فوج یہ، ایجنسیاں وہ۔ ہم سب نے جن لونڈوں کو مطالعہ پاکستان سے اگلی بات بتانے کی "گندی تصویروں" کے لالچ میں مجمع لگا کر کھڑا کر رکھا ہے، وہ سب فوج اور ایجنسیوں سے "حساب" لینے کو اتنے اتاؤلے ہو رہے ہیں کہ انکو اندازہ بھی نہیں کہ بغیر فوج کے صرف دو صورتیں ہوتی ہیں۔ انارکی یا قبضہ۔ دونوں صورتوں میں ان "تازے تازے لبرل لونڈوں" کی جینز (دونوں کپڑے والی اور نسلی) ادھڑ جائیں گی۔ ان کے ہاتھ کیا، کسی کے ہاتھ کچھ نہیں رہے گا۔
جو انسان پاگل ہو کر اپنے حواس میں نہیں رہتا باقی ساری دنیا اسکو ٹھوکروں اور تماشے کے لیے رکھ لیتی ہے۔ پاگل ہونے کی علامات کیا ہیں؟ کپڑے نہ پہننا، یعنی ننگے پھرنا، یعنی اپنے ذاتی معاملات اپنے تک نہ رکھنے کی صلاحیت۔ بات کرنے میں ربط نہ ہونا، مدعا بیان نہ کر سکنا، کدھر جانا ہے، کیا منزل ہے، اس کا ادراک نہ ہونا۔ بنیادی جبلتوں پر پل پڑنا، یعنی جہاں چارہ نظر آئے وہیں تھوتھنی جھکا دینا۔ جہاں مخالف جنس میسر ہو، وہیں میلہ کر لینا۔ گن گن کر دیکھ لیں ایک ایک علامت ہم میں من حیث القوم موجود ہے۔
کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم دنیا میں ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں امریکی صدر کے ایک ٹویٹ پر دنیا کی پانچ بڑی اسٹاک مارکیٹ غوطہ کھا جاتی ہیں۔ مشرق مغرب شمال جنوب اب ایک ہو چکا ہے۔ دنیا میں ٹرینڈ کی حکمرانی ہے۔ ایک دفعہ ٹرینڈ چل گیا، تو آپ کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔ جس نے ٹرینڈ شروع کیا وہ بھی نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے امریکہ نے "ٹرینڈ" چلایا پاکستان کو دہشت گردی کی گرے لسٹ میں ڈالنے کا۔ اور بس کنارے پر پہنچا کر دم لیا۔ اب گرے کہ تب گرے۔
امریکہ، انڈیا، افغانستان ہمارے ڈائرکٹ دشمن بنے ہوئے ہیں اور باقی کی آدھی دنیا امریکی کاسہ لیسی میں یا دہشت گردی پر امریکی پروپیگنڈہ اور کچھ ہماری اپنی حماقتوں کی وجہ سے ہمیں ناپسندیدہ قوم بنائے ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کا پتہ تب چلتا ہے جب آپ اپنے ائیرپورٹ سے اڑتے ہیں، یا دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ کاروبار یا تعلیمی تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدم قدم پر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو تقریباً اچھوت قوم کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آپ کو برداشت کرنے والے دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔
ایسی حالت ہونے کی بے شمار وجوہات ہونگی اور ان پر بات ہونا بھی چاہیے مگر اپنے گھر کے اندر۔ اور جن معاملات کو پوری باہوش دنیا حساس قرار دیتی ہے، انکو پردے کے اندر ہی ڈسکس کرنا چاہیے۔ جن معاملات کو پوری دنیا رازداری میں رکھتی ہے انکو رازداری میں رکھنا ہی ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
نواز شریف نے انڈیا میں دہشت گردی کے اس واقعے کو اپنی ایجنسیوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کے بارے میں انڈیا کے اپنے اندر متضاد رائے پائی جاتی ہیں اور باوجود انڈیا کی طاقتور پروپیگنڈہ اور میڈیا مشینری کے دنیا کو پاکستان پر اتنا شک نہیں تھا، جتنا تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں قبول کر کے ڈال دیا ہے۔ اب پاکستان کی ایجنسیاں اور پاکستان کی وزارت خارجہ ایڑی چوٹی (یا پنجابی میں ایک جسمانی عضو) کا زور بھی لگا لیں تو دنیا کو باور نہیں کرا سکیں گے کہ اس میں ہمارا ہاتھ نہیں تھا۔ اور انڈیا ایسے موقعے کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
دہشت گردی کی گرے لسٹ تو اب پرانی بات سمجھیے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں امریکہ اس خطے میں جو کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ پہلے ہی پاکستان کا بازو مروڑ رہا ہے۔ امریکی صدر انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان کو دہشتگردانہ کارروائیوں سے منع کر چکا ہے۔ اس کے بعد کا منظر نامہ سمجھنے کے لیے زیادہ عقل کی ضرورت تو نہیں ہونا چاہیے، مگر جس قوم کے نابغوں کو یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے کوئی ملک اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردہ گناہ بھی قبول نہیں کرتا، چہ جائیکہ انکے گلے میں ناکردہ گناہ ڈال دیے جائیں، ایسے بزرجمہروں کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔
ضیا الحق کی ایک غلطی طالبان کی پیدائش تھی، جس کے اثرات سے ہمارا ملک ابھی تک باہر نہیں نکل سکا۔ ضیا الحق کی دوسری غلطی شریف خاندان کو اقتدار کا راستہ دکھانا تھا۔ مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کی ذلت و بربادی میں آج شریف خاندان نے جتنا حصہ ڈال دیا ہے، شائد ہی تاریخ میں کسی اور نے ڈالا ہو۔ اس خاندان نے اپنی اولاد کے اثاثوں کو (جن کے ذرائع مشکوک ہیں) بچانے کی خآطر پورے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ اللہ قوم کو اس آزمائش سے نکالے۔ آمین۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“