نواز شریف- جمہوریت اور اولیگارکی
نوازشریف اسّی کی دہائی سے اقتدار کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ صوبائی وزارتِ خزانہ کے قلم دان سے لے کر وزارتِ عظمیٰ تک، انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کے مراکز کو جس قدر جانا، شاید ہی کسی اور نے جانا ہوگا۔ میں نے میاں نوازشریف کی سیاست کا پہلا بورڈ شاہ عالمی کے باہر ٹرک اڈے پر تب دیکھا، جب جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد اکتوبر 1977ء میں انتخابات منعقد کروانے کا ڈھونگ رچایااور پھر انتخابات ملتوی کردئیے۔ تب میاں نوازشریف اس انتخابی حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی سیاست کو کامیاب کرنے کے لیے پنجاب کی نئی مڈل کلاس جوکہ پنجاب کے تاجر طبقات پر مشتمل ہے، کے پہلے اہم لیڈر بن کر ابھرے۔ اسی پنجابی تاجر طبقے نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف نظامِ مصطفی کی تحریک میں ہراول دستے کا کام کیا۔ مذہب کے نام پر اس تحریک نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر جو استحصال کیا، اس کے نتائج آج کی چاروں طرف پھیلی دہشت گردی ہے۔ پنجاب کے دکان داروں نے شٹرڈائون کرکے پنجاب کے بازاروں کو سنسان کردیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ابھرتی کلاس نے اپنا سیاسی وجود منوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تحریک کے پیچھے امریکہ کو ہر طرح سے ذمہ دار ٹھہرایا حتیٰ کہ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ امریکیوں نے اسی تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل کردی ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تحریک کو پنجاب کے انہی دکان داروں نے فنڈنگ کرکے مذہبی حوالے سے روحانی تسکین حاصل کی۔ یہ وہی تحریک ہے جس کے بارے ہمارے بزرگ دوست جناب عطاالحق قاسمی اپنے کالموں میں متعدد بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ بھی اس تحریک کے بڑھ چڑھ کر حامی تھے، اور اب اُن کا کہنا ہے کہ اب جاکر یہ راز کھلا کہ یہ تحریک تو نظر نہ آنے والی سامراجی طاقتوں نے برپا کی تھی۔ میاں نوازشریف اس پنجابی دکان دار طبقے (مرکنٹائل کلاس) کے نمائندہ لیڈر کے طور پر ابھرے۔ اس بنیاد پر جنرل ضیاالحق نے پنجاب میں اُن کو وزارتِ خزانہ اور پھر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کے لیے راہ ہموار کی۔
1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں نوازشریف نے سب سے قیمتی یعنی سرمائے کے بَل پر انتخابی مہم چلائی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب کی اس ابھرتی مرکنٹائل مڈل کلاس کے نمائندہ میاں نوازشریف نے وسطی پنجاب کے زمین دار چٹھوں، چیموں، وڑائچوں، گوندلوں اور جنوبی پنجاب کے جاگیردار سیدوں، مخدوموں، گیلانیوں، مزاریوں، لغاریوں، نونوں، ٹوانوں کے مقابلے میں وزارتِ اعلیٰ کا قلم دان حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ اوپری طبقات اور اقتداری سیاست میں پنجاب کے زمینداروں اور جاگیرداروں کے مقابلے میں اب اس دکان دار کو سیاسی طاقت مل گئی ہے۔ اقتدار کی اس سیاست میں طاقت کے ایوانوں میں سرمائے کی طاقت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر جنرل ضیاالحق نے پنجاب کی اس اہم کلاس کو، جس کا ابھار پنجاب کے بازاروں میں ہوا، ایک سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے 1985ء کے بعد پنجاب بھر میں تاجر تنظیمیں سیاست میں اپنا آپ منوانے لگیں۔ اور جب جنرل ضیاالحق نے اپنی ہی چھتری کے سائے میں جنم دی گئی دھندلی جمہوریت کو گوارا نہ کرتے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو فارغ کیا اور اسمبلیوں کو ایک بار پھر توڑا تو انہوں نے پنجاب کے اسی دکان دار طبقے کی طاقت کو اپنا اتحادی بنائے رکھا۔ جنرل ضیا نے اس موقع پر وزیراعظم جونیجو کو اپنی مخالف صف میں کھڑا کیا اور میاں نوازشریف کو اتحادی بنا کر اپنا مشہورِزمانہ بیان جاری کیا کہ ’’پنجاب میں میرا کلّہ مضبوط ہے۔‘‘ یعنی میاں نواز شریف ، پنجاب میں اُن کے سیاسی کلّے تھے۔
جنرل ضیا نے پنجاب پر گرفت کے لیے پنجاب کے اسی دکان دار طبقے کو فیصلہ کن طاقت جانا اور یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ اسی پنجاب میں جنرل ضیاالحق کے خلاف 1977ء سے 1988ء تک سخت مزاحمت ہوئی۔جنرل ضیاالحق نے جس ظالمانہ انداز میں پنجاب میں آمریت کے خلاف مزاحمت کاروں کو لاٹھی، گولی، زندان، پھانسی اور کوڑوں کی سزائوں سے کچلا، اس کی مثال پاکستان کے کسی دوسرے صوبے میں نہیں ملتی۔ اور پھر اسی مرکنٹائل کلاس اور اس کے نمائندے کو 1988ء کے انتخابات میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ پنجاب کے روایتی حکمران طبقات یعنی جاگیرداروں کے مقابلے میں پنجاب میں میاں نوازشریف وزارتِ اعلیٰ لینے میں کامیاب ہوئے۔ اُس وقت اُن کا مقابلہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جناب فاروق لغاری سے تھا۔ اور یوں 1988ء میں دوسری بار وہ پنجاب کے روایتی جاگیردار طبقات کو شکست دے کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔ مگر یہاں اُن کا حقیقی مقابلہ بے نظیر بھٹو سے تھا جو کہ درحقیقت سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی Legacy تھیں۔ سیاست کے اس مرحلے پر اُن کی Image Building کرتے ہوئے اُن کو بے نظیر بھٹو کا مقابل ثابت کیا گیا۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی امیج بلڈنگ کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی کردارکشی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ اور نوازشریف کی امیج بلڈنگ کے لیے دونوں خواتین رہنمائوںکی کردارکشی کی ذمہ داری ’’قبلہ‘‘ حسین حقانی کے ذمہ تھی اور میاں نوازشریف کو سیاسی طاقت بخشنے کی ذمہ داری جنرل حمید گُل نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔
انہی دنوں مشہور ’’چھانگا مانگا آپریشن‘‘ ہوا جس میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اراکین اسمبلی کو اکٹھا کیا اور خریدا گیا۔ اور اس کے لیے فنڈنگ عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن نے کی۔ جنرل ضیاالحق کا کلّہ کس قدر مضبوط ثابت ہوا کہ 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو شکست فاش دے کر میاں نواز شریف وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ House of Sharifs کے لیے یہ کامیابی کسی خواب سے کم نہیں تھی۔ وزارتِ عظمیٰ کے اس تخت پر براجمانی جہاں سے کبھی اُن کی ملوں کو قومیانے کے فیصلے ہوئے، اب حکمرانی کا وہی تخت اُن کے قدموں تلے تھا۔ میاں نوازشریف صاحب کا طبقاتی ظہور پنجاب کی تحریک نظامِ مصطفی کے بطن سے ہوا جس کے بارے میں خود اُن کے حامی کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی یہ مانتے ہیں کہ اس تحریک نظامِ مصطفی کی حقیقت سی آئی اے ہے اور کچھ نہیں۔
1989ء میں، مَیں نے ایک مختصر کتاب Garrison Democracy لکھی، جس میں یہ تجزیہ پیش کیا کہ پاکستان کے ایک معروف ڈاکٹر نے پاکستان کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب ب بی کو جنم دینے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور اب پاکستان کے ’’سیاسی ڈاکٹرز‘‘ ایک ’’ٹیسٹ ٹیوب لیڈر‘‘ کو بھی جنم دینے میں کامیاب ہوں گے۔ اوراس تجزیے کے چند ماہ بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی Legacy (بے نظیر بھٹو) کے مقابل یہ ٹیسٹ ٹیوب لیڈر جنم پاگیا۔ ’’سیاسی ڈاکٹروں‘‘ نے بڑے ناز نخرے سے اس ٹیسٹ ٹیوب لیڈر کو پالا پوسا۔ انگلیاں پکڑ کر چلنا سکھایا۔ کئی بار گرنے پر اس ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو اٹھایا، اس کے کپڑے جھاڑے اور دوبارہ چلنے پھرنے میں مددکی۔ اور یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ سیاست کے میدان میں جنم لینے والا یہ ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ یہ سمجھنے لگا کہ سب کچھ اسی کا ہے۔
میاں نواز شریف کو اس حکمرانی کی سیاست نے نیم صنعت کاری سے نکال کر Financial Capitalism کی جانب مائل کیا۔ اب وہ اور اُن کا خاندان صنعتیں لگانے کی بجائے سرمایہ کاری اور رئیل سٹیٹ کی جانب گامزن ہوا۔ اُن کا خاندانی پس منظر برانڈرتھ روڈ کے دکان دار سے نیم صنعت کاری کی شکل میں ڈھلا۔ مگر حکمرانی کی سیاست کے دوران مزید صنعت کاری (Industrialization) کی بجائے سرمایہ کار کیپٹل ازم کی طرف بڑھتا گیا۔
میاں نواز شریف جو اسّی کی دہائی میں حکمرانی کی سیاست میں داخل ہوئے، انہوں نے متعدد بار کوشش کی کہ وہ پاکستان کی حتمی سیاسی قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔اسی لیے ہم نے اُن کو وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں عدالتوں اور فوج سے تصادم کرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر تیسری بار بھی۔ دوسری بار اس تصادم میں وہ جیل چلے گئے اور جیل کی ناموافق فضا کو برداشت نہ کرتے ہوئے جلاوطن ہوئے۔ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے دوران، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق نااہل وزیراعظم اور تمام عمر کے لیے سیاسی طور پر نااہل قرار دئیے گئے۔ اس حالیہ تصادم اور ٹکرائو میں اُن کا لب ولہجہ پہلے تصادم کے دوران اپنائے گئے لہجے سے بہت زیادہ سخت ہے۔ اس لیے ایک اور دلچسپ پہلو ہے کہ پاکستان کے بائیں بازو کے متعدد دانشوروں اور بائیں بازو کے ناکام لیڈرز اُن کے اس تصادم میں اپنے آپ کو میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑا کرکے ’’انقلابی سیاسی تسکین‘‘ حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ بائیں بازوکے ایسے ناکام لیڈر اور دانشور اس تصادم میں میاں نوازشریف کو جمہور کی طاقت تصور کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کی مرکنٹائل کلاس (بازاری طبقہ) کے بطن سے جنم لینے والی قیادت کس قدر جمہور، جمہوریت، روشن خیال، ترقی پسند اور جدت پسند ہے؟کیا واقعی میاں نوازشریف طاقت کے ان مراکز کو توڑ کر پاکستان میں حکمرانی کو چند اداروں کی بجائے 22کروڑ لوگوں کے ہاتھوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں یاکہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی ڈکٹیٹروں کی طرح اقتدار کو جمہوریت کے نام پر اپنے دونوں ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ میں پاکستان کے 85فیصد محنت کش اور پیداواری طبقات کے حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں یاکہ اقتدارِ کُل کے مالک بننا چاہتے ہیں؟ وہ پاکستان کو پسماندگی سے نکال کر جدت پسند سماج اور ریاست بنانا چاہتے ہیں یاکہ پاکستان میں بنیاد پرست طاقتوں کے رحم وکرم پر رہنا چاہتے ہیں؟ پاکستان کا سب سے امیر خاندان House of Sharifs کیا واقعی پاکستان کے عوام کو امیر قوم میں بدلنا چاہتا ہے؟ کیا وہ واقعی Democrat ہیں یا Oligarch؟
(نوٹ: Oligarchy کے لفظی معنی ہیں، حکمرانی کرنے والے چند لوگوں کا نظام۔ یہ حکمرانی کے سٹرکچر کی ایک قسم ہے جس میں طاقت کا منبع چند لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے۔ اس گروہ کا امتیاز ان کا خاندان، دولت، خاندانی روابط، تعلیم یا کاروبار، مذہبی یا فوجی کنٹرول ہوتا ہے۔ اولیگارک ریاستوں پر عموماً مخصوص خاندانوں کی حکومت ہوتی ہے جو اقتدار کو ایک سے دوسری نسل کو منتقل کرتے جاتے ہیں۔ اس قسم کے حکمرانی کے نظام میں وراثت سب سے ضروری شرط ہوتی ہے۔ )
“