نواز شریف جی ٹی روڈ پر ۔۔۔
چودہ اگست کا دن قریب ہے اور ملک کے حالات میں اس وقت بہت تیزی سے کشیدگی پھیل رہی ہے ۔سابق وزیر اعظم بدھ کے روز جی ٹی روڈ پر ہوں گے ،ان کے ساتھ لاکھوں افراد کا مجمع ہوگا ،اس ریلی میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہوگا ،ہمارا وزیر اعظم نوازشریف ہے۔اس کے علاوہ بھی اور بہت سارے نعرے بلند ہو رہے ہوں گے ،جن کا زکر اس وقت کرنا نامناسب ہوگا ۔پنجاب کے لیڈر نواز شریف نے گزشتہ روز تاجروں کے وفود سے ملاقات کی ،اس ملاقات میں انہوں نے کچھ باتیں کی ،اس میں ایک بات یہ انہوں نے یہ کی کہ انہیں معلوم ہے کہ آگے جاکر ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ،اور اس کے لئے وہ تیار بھی ہیں ۔ایک بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور نوازشریف کی اسٹریٹیجی مزاحمت پر مبنی ہے ۔طاقتور حلقے پہلے نان پنجابی لیڈروں کی مزاحمت کا سامنا کرتے تھے ،اب انہیں ایک پنجابی رہنما کی مزاحمت کا سامنا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی مزاحمت کی منزل کیا ہے ،کیا وہ سویلین بالادستی کے لئے سڑکوں پر نکل رہے ہیں ،یا پھر قانونی کاروائیوں سے بچنے کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں ،یا اسٹیبلشمنٹ اور کورٹ کو دباو میں ڈال کر فل کورٹ ری ویو بنچ بنوانا چاہتے ہیں ۔بدھ کے روز جی ٹی روڈ پر نواز شریف فل کورٹ ری ویو پٹیشن کا بھی مطالبہ کریں گے ۔کیا چیف جسٹس اور پانچ رکنی بنچ فل کورٹ ری ویو پٹیشن بنچ کا مطالبہ تسلیم کر لے گا؟کیا جی ٹی روڈ کی لاکھوں کی ریلی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم بنا سکتی ہے؟یہ وہ سوال ہیں ،جن کے جواب بدھ کے روز ہی مل سکتے ہیں ۔ویسے اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں ایک نئی ترمیم منظور کی جاسکتی ہے ،جس میں باسٹھ ترسٹھ کو اڑا کر نواز شریف کو دوبارہ وزارت عظمی کے لئے اہل کیا جاسکتا ہے ،اس کے علاوہ اس آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔آئینی ترمیم کرنے کا حق پارلیمنٹ کو ہے کیونکہ پارلیمنٹ ہی پاکستان میں سب سے بڑا سپریم ادارہ ہے جو آئین کو بھی تبدیل کرنے کا حق رکھتا ہے ۔بدھ کے روز کی ریلی میں اس حوالے سے بھی آوازیں اٹھیں گی ،سویلین لیڈرشپ چاہے تو یہ بھی ممکن ہے ۔سنا ہے اس حوالے سے بھی پارلیمنٹ میں لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے ۔پارلیمنٹ وہ بلا ہے جو آئین کے بنیادی سٹکچر کو بھی تبدیل کرسکتی ہے ۔اگر نواز شریف واقعی سویلین بالادستی چاہتے ہیں تو پھر انہیں سازشی عناصر کے بارے میں کھل کر بات کرنی چاہیئے اور سویلین بالا دستی کے لئے ڈٹ جانا چاہیئے ۔اس کے لئے پورا سسٹم گرتا ہے تو کوئی بات نہیں ،قوموں کی زندگی میں اس طرح کے موڑ بھی آتے ہیں ،اگر صرف نواز شریف صاحب دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لئے جمہوری سسٹم کی قربانی چاہتے ہیں ،تو یہ منافقانہ اور بزدلانہ اقدام ہوگا نواز شریف صاحب آپ خود ہی فرما رہے ہیں کہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں ،پھر کہتے ہیں عدالتی فیصلہ تسلیم کیا ،ساتھ ہی فرماتے ہیں ،احتساب کے نام پر استحصال کیا جارہا ہے ،پھر کھل کر کہیں کہ سپریم کورٹ فیصلے کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر جمہوری قوتوں کا استحصال کررہی ہے ۔اب اشاروں کنایوں کا وقت نہیں رہا ۔حقیقی جمہوری انقلاب برپا کرنا ہے تو پھر کھل کر سامنے آئیں ۔آپ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ سازش سے پردہ ہٹائیں گے ،اب بدھ کے روز لاکھوں افراد کی ریلی میں جمہوری قوتوں کے خلاف ہونے والی سازش سے پردہ ہٹائیں ۔یہ آپ کی زمہ داری ہے ،تین بار اس ملک کے کڑوروں عوام نے آپ کو ووٹ دیئے ہیں ،ان عوام کو بتائیں کہ ان کے ووٹوں کی حقیقت میں کیا اہمیت ہے؟کھل کر بتائیں کہ لوگو آپ مینڈیٹ دیتے ہو ،لیکن پھر بھی کچھ حلقے سویلین بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ایک بات یاد رکھیں صرف سپریم کورٹ پر تنقید سے کچھ نہیں ہوگا ،سپریم کورٹ بھی ایک سویلین ادارہ ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سویلین فیصلہ ہے ۔اگر سیاست اور جمہوریت کے آپ واقعی ہی چیمپئین ہیں تو پھر زبان کھول دیں ،کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بدھ کے روز کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ہے ،نواز شریف کا پاور بیس پنجاب ہے ،وہ صرف اس پاور بیس کو مستحکم کرنے کے لئے پاور شو کرنے جارہے ہیں ۔بدھ کا احتجاج بھی صرف الیکشن دو ہزار اٹھارہ کی کمپین کا ھصہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف صاحب جی ٹی روڈ پر سازشیوں کی لسٹ جاری کریں گے یا صرف اشاروں میں ہی باتیں کرتے رہیں گے ۔کچھ سیاسی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف شو آف سٹرینگتھ کا مظاہرہ نہیں ہو گا ،بلکہ وہ اینٹی جمہوریت قوتوں کے خلاف نیا بیانیہ جاری کریں گے ۔وہ کہیں گے کہ عدالت کا فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے ۔وہ کہیں اور کہاں سے اس بارے میں تفصیل سے قوم کو آگاہ کریں گے ۔اب دیکھتے ہیں بدھ کے روز میاں محمد نواز شریف صاحب کیا کرنے والے ہیں ؟ پنجاب کا لیڈر پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا تو اسے بلکل زمین پر گرانا آسان نہیں ہوگا ۔اس ایشو پر بدھ کے روز تک باتیں ہوتی رہیں گی ،اب تک کے لئے اتنا ہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔