نواز شریف بھی غدار ہو گیا، اب آگے کیا ہوگا؟
میاں محمد نواز شریف کے تین روز قبل دیئے گئے انٹرویو کے بعد پاکستان میں کہرام برپا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔بیچارے نواز شریف نے صرف اتنا کہا تھا کہ عسکریت پسند تنظیمیں اب بھی پاکستان میں متحرک ہیں،آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ لیں،کیا ہمیں اجازت دینی چاہیئے کہ وہ سرحد پار کر کے ممبٗی جائیں اور ایک سو پچاس افراد کو قتل کردیں۔اس کے بعد انہوں نے ڈان کے رپورٹر کو اسی انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ ممبٗی کیس کے ٹرائل کا کیا ہوا؟یہ بھی فرمایا کہ اس طرح کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان تیزی سے تنہائی کا شکار ہورہا ہے ،اس بیان کے بعد نوازشریف غدار ہو چکا ہے ،ملک دشمن بن چکا ہے۔انٹرویو میں میاں محمد نوازشریف صاحب نے کہیں کسی ادارے کا نام نہیں لیا ۔جب ریاست پاکستان کا اپنا یہ موقف ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے َدوسری بات یہ کہ ممبئی حملے دو ہزار اٹھ میں ہوئے تھے ،اب دس سال بیت گئے ،اس وقت نواز شریف نے یہ بیان کیوں دیا ؟کیا کہیں ٹائمنگ کا ایشو تو نہیں کہ انہوں نے ایسے وقت یہ بیان دیا جب ایسا بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔نوازشریف جانتے ہیں کہ پیدائش سے اب تک یہ ریاست حساسیت سے گزررہی ہے ،پھر بھی وہ بات کہہ گئے ،نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی ہو گیا ،جس میں نوازشریف کے بیان کو رد کردیا گیا ۔کہا گیا کہ نوازشریف نے جو باتیں کی حقیقت میں ان باتوں کا کوئی وجود نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات کوئی مان سکتا ہے کہ جو نواز شریف نے کہا ،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؟قومی سلامتی اجلاس کے بعد اب شہباز شریف یہ کہہ رہے کہ نواز شریف کے بیان کو مس کوٹ کیا گیا ،نواز شریف نے تو کوئی ایسی بات کہی ہی نہیں تھی ،وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی فرمارہے ہیں کہ نوازشریف کے بیان کو توڑ مڑور کر پیش کیا گیا ،جبکہ نواز شریف نے اپنے بیان کو ابھی تک رد نہیں کیا ،گزشتہ روز بنیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میں اگر غدار ہوں ،ملک دشمن ہوں ،تو آو قومی کمیشن بناو ،پھر سب کا حساب ہو جائے ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ،میں بھی اس قومی کمیشن کے سامنے آتا ہوں ،آپ بھی اس قومی کمیشن کے سامنے آئیں،وہ بھی آئیں جو مجھے غدار کہہ رہے ہیں ،اس کے بعد یہ کمیشن رپورٹ دے ،جس کا قصور نکلے اس سرعام لوگوں کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا جائے ۔نوازشریف کے اس بیان سے واضح لگ رہا ہے کہ وہ سرل المیڈا کو دیئے گئے انٹرویو پر قائم ہیں اور چیلنج دے رہے ہیں کہ آو اور انصاف کا سامنا کرو ۔مریم نواز نے بھی بنیر میں جلسے میں کچھ اہم باتیں کی ،ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر جو ڈرامہ چل رہا ہے ،یہ دیکھ کر مجھے ہنسی آتی ہے اور ان پر رحم آتا ہے جو ایسا کروا رہے ہیں ،انہوں نے کہا نواز شریف کے خلاف کرپشن کا ہتھیار استعمال کیا گیا ،وہ بھی ناکام ہوا ،تاحیات نااہل قرار دیا گیا ،وہ ہتھیار بھی ناکام ہو گیا ،مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹادیا گیا ،وہ ہتھیار بھی کام نہ آیا ،نوازشریف کے خلاف مذہب کا کارڈ بھی استعمال کر لیا گیا ،وہ بھی کام نہ آیا تو اب نواز شریف کے خلاف غدار کا کارڈ استعمال کیا جارہا ہے ۔نواز شریف اور مریم نواز مسلم یگ ن میں اپنے موقف اور بیانیہ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ فیصلہ انہوں نے کر لیا ہے ۔گزشتہ روز سب سے مزاحیہ بیان سابق آمر مشرف کا تھا جنہوں نے کہا نوازشریف کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں ۔یہ اس صدی کا سب سے مزاحیہ بیان تھا جس پر میں ابھی تک قہقہے لگا رہا ہوں ۔نواز شریف نے تو ممبئی حملوں کے حوالے سے کچھ بڑی بات نہیں کی ،سابق مشیر برائے قومی سلامتی میجر جنرل محمود درانی نواز شریف سے بھی خطرناک بیان دے چکے ہیں ،انہیں تو کسی نے غدار نہیں کہا اور نہ ہی میڈیا پر شورشرابا کیا گیا ،رحمان ملک اجمل قصاب اور ممبئی حملوں کو ملزموں کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکے ،وہ بھی غدار نہ تھے ،مشرف کا یہ بیان سنہری حروفوں میں لکھا جائے گا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم پوری دنیا سے مجاہدین لائے ،ہم نے طالبان کو مسلح تربیت دی ،انہیں اسلحہ دیا ۔وہ ہمارے ہیرو تھے ،مشرف کے اس بیان پر بھی انہیں ہم سب جنرل صاحب ہی کہتے ہیں ۔پاکستان میں ممبئی حملوں کی تحقیقات کے حوالے سے ٹیم بنی تھی جس کے ایک ممبر طارق کھوسہ تھے ،وہ خود تین اگست دو ہزار پندرہ کو کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ممبئی حملوں کے اثرات سے نمٹنا ہوگا ،کیونکہ ان حملوں میں ہماری سرزمین منصوبہ بندی کے لئے استعمال کی گئی ،ہمیں سچ کا سامنا کرتے ہوئے غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیئے ۔ریاستی ڈھانچے کو یقینی بنایا ہوگا کہ ان گھناونے ھملوںکے ماسٹر مائینڈ اور باقی ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔اس مقدمے کو غیر ضروری طوالت نہیں دینی چاہیئے ۔جس طرح مقدمے کے ججوں کی باربار تبدیلی ہو رہی ہے ،تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں ،جس طرح اس کیس کے ایک پراسیکیوٹر کا قتل ہوا ہے اور کئی اہم گواہ اپنے بیانات سے مکرے ہیں اس سے استغاثہ کے لئے بڑا دھچکا ہے ،یہ باتیں طارق کھوسہ نے تین اپریل دو ہزار پندرہ کو ایک کالم میں لکھی تھی ،وہ تو غدار نہیں قرار پائے ؟میڈیا ،اسٹیبلشمنٹ اور تمام اپوزیشن جماعتیں ایک طرف ہیں ،سب نواز شریف کی مزمت کررہے ہیں ،سوال یہ کہ نوازشریف غدار ہو گیا اب سیاست میں کیا ہوگا ؟مسئلہ اب مسلم لیگ ن کا ہے ،ان کو چاہیئے کہ وہ ایک موقف اپنا لیں ،اور پھر اس موقف پر ڈٹ جائیں اور کہہ یہ ہمارا بیانیہ ہے ،جو کچھ پھر ہوتا ہے اس کا مقابلہ کریں ۔اس سے یہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے دفاع کرنا آسان ہوگا ۔اگر ایسا نہیں ہوگا نواز شریف نظریاتی رہیں گے ،اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہیں گے ،ان کا ایک موقف ہوگا اور جناب شہباز شریف اور ان کے گروہ کا دوسرا موقف ہوگا تو پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ،یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف پنجاب کے بہت بڑے لیڈر ہیں ،ان کا ووٹ بنک ہے ،ان کا ایک بیانیہ ہے جس کو لاکھوں کروڑوں لوگ سپورٹ کرتے ہیں ۔اگر شہباز شریف پنگا نہیں لینا چاہتے تو پھر بڑے بھائی کے پاوں پڑ جائیں اور صلح کرلیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔