ہم نے یہ بات ہزاروں بار سنی ہے کہ یونان کے فلسفی سقراط کو اس وقت کے حکمرانوں نے زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی تھی جو اس نے خوشی خوشی پی لیا اگرچہ اس کے شاگردوں نے اپنے استاد سقراط سے کہا تھا کہ جیل حکام کو بھاری رشوت دے دی گئی ہے اور سقراط کو جیل سے بھگا لے جانے کا بہترین پروگرام بن چکا ہے لیکن سقراط نے انکار کر دیا کہ وہ یہ کام کر کے قانون شکنی نہن کر سکتا۔ سقراط مذہبی رسوم اور سماجی قوانین کا بہت احترام کرتا تھا لیکن مذہب اور سیاست میں مروجہ خیالات اور تعصبات پر سخت تنقید کرتا تھا۔ کسی بھی معاشرے کے مروجہ خیالات اور تعصبات سے حکمران طبقے کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اسی لیے حکمران طبقہ سقراط کے خلاف ہو گیا اور اس پر جھوٹے الزامات لگائے یہ الزامات تین تھے۔
1۔ یہ ہمارے نوجوانوںکو گمراہ کر رہا ہے۔
2۔ یہ ہمارے دیوتاوںکو نہیں مانتا
3۔یہ ایک الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔
عدالت لگی اور سقراط کو اپنی صفائی دینے کا موقع دیا گیا سقراط نے اپنے دفاع میں جو باتیں کی اس کا جواب کسی کے پاس نہن تھا ہر شخص لا جواب تھا۔ لیکن سقراط کو سزا تو دینی ہی تھی اس لیے ایک نوجوان کوثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ کہ اس کا اخلاق سقراط نے بگاڑا ہے بس اس کے بعد سقراط کو دو راستے دیے گئے
1- شہر چھوڑ دو
2- زہر کا پیالہ پی لو
سقراط نے حکمرانوں سے کوئی ڈیل کی اور نہ ہی شاگردوں کی طرف سے جیل حکام کو رشوت د یے جانے کے باوجود بھاگا۔ نہ حکمرانوں کے آگے جھکا بلکہ زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی۔
نواز شریف پر بھی جو الزامات ہیں وہ یقینا اپنی جگہ درست ہیں اور ہر پاکستانی کو خبر ہے کہ ہر کاروباری کی طرح ہر سیاستدان کی طرح نواز شریف نے بھی کھربوں ڈالر لوٹے ہیں لیکن جو سزا نواز شریف کو دی جا رہی ہے وہ کھربوں ڈالر لوٹنے کے عوض نہن ہے وہ سزا نام نہاد "ریاستی" بیانیہ کے مخالف سمت چلنے میں ہے۔ اور پاکستان کے "حقیقتی " حکمرانوں کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی وجہ سے ہے۔ مروجہ ریاستی "بیانیہ" نواز شریف کے بحثیت ایک سرمایہ کار کے مفاد میں نہیں ہے سرمایہ کار کا کوئی مذہب کوئی ملک نہن ہوتا ہر وہ خطہ جو اس کے سرمایہ اور کاروبار میں اضافہ کرے وہ خطہ ہی اس کا مذہب اور ملک ہوتا ہے۔ مذہب اور ملک کا ڈھونگ عوام کے لیے ہوتا ہے کہ اگر دیگر سرمایہ داروں سے لڑئی ہو جائے تو عوام کو یہ دھوکا دیا جاسکے کہ ملک یا مذہب خطرے میں ہے تاکہ وہ مذہب اور ملک کے نام پر سرمایہ داروں کی لڑائیوں میں جانیں دینے کو تیار ہو سکیں۔
بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف سقراط کی طرح اپنے بیانیے پرقائم رہتا ہے جو بلآخر روشن خیالی اور سیکولرازم کی سرحد سے جا ملتا ہے یا فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے