نوازشریف اگر یوں کرتے تو!
میاں نوازشریف، لندن سے واپس وطن لوٹ چکے ہیں۔ انہوں نے واپسی پر عدالتوں میں لگے مقدمات کا سامنا اور عوامی رابطوں کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے بڑے بھائی جناب عطاالرحمن بھی کچھ روز پہلے ہی لندن سے واپس وطن لوٹ چکے ہیں۔ لندن میں انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں بھی کیں جس کا ذکر انہوں نے 2نومبر کے اپنے کالم ’’دو تفصیلی ملاقاتیں، نوازشریف کے ساتھ‘‘ میں بڑے مختصر مگر جامع الفاظ میں کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں پنہاں پہلوئوں سے قارئین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب میاں نوازشریف کس ذہنی کیفیت کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنے اسی کالم میں لکھا ہے، ’’یہ بھی میرا تاثر ہے کہ دو مرتبہ پنجاب جیسے اہم صوبے کا وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم بننے والا یہ سیاست دان شاید چوتھی مرتبہ اس منصب کو حاصل کرنے کی اتنی خواہش نہیں رکھتا جس قدر اس کا ارادہ یا عزم ہے۔‘‘ جناب عطاالرحمن صاحب پاکستان کے اُن صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جو نوازشریف کی شکل میں پاکستان کو جمہوری اور معاشی سفر پر گامزن رہنے کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ قربت پر کبھی پشیمان نہیں بلکہ ہمیشہ نازاں رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار کے دنوں میں عطاالرحمن اور اِن جیسے دیگر اہل فکر لوگ ایوانوں میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔ وہ تو دُکھی دنوں میں میاں نوازشریف کی رازونیاز کی باتیں سنتے ہیں۔ اقتدار کے دنوں میں جو صحافی میاں نوازشریف کی عظمت کے دن رات گن گاتے اور ایوانوں میں موجود پائے جاتے تھے، اُن کے تجزیے اب بدلنے لگے ہیں۔ وہ اب محفلوں میں ٹھنڈی آہیں بھر کر کہتے ہیں، ’’میاں نواز شریف یہ نہ سمجھ سکے، وہ نہ کرسکے، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر ’’اقتدارِ نواز‘‘ کے بڑے پھل پاتے ہیں۔ کاش میاں نواز شریف، عطاالرحمن یا اِن جیسے دوستوں کو ایامِ اقتدار میں اپنے اردگرد پائے جانے کا سامان پیدا کرتے۔ اقتدار کا یہ ہالہ ہمارے جیسی ریاستوں میں کچھ ایسا بنا ہوا ہے کہ اس کی مقناطیسیت کی گرفت میں ایک جیسے ہی قلم کار، صحافی، دانشور، اہل فکر اور بڑے بڑے جغادری عالم جہاں آتے ہیں۔ آپ ذرا نوازشریف سے پہلے آصف علی زرداری کا دربار دیکھ لیں یا فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کا دربار دیکھ لیں، آپ کو وہی چہرے ملیں گے، دراصل انہی چہروں سے دربار سجتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ’’سدا بہار دانشور‘‘ جب اپنے مربی کو اقتدار سے باہر ہوتا دیکھتے ہیں یا اقتدار سے باہر ہونے کے بعد دربدر دیکھتے ہیں تو پھر ٹھنڈی آہیں بھر کر اقتدار سے علیحدہ کیے گئے ’’مربی‘‘ کی کم عقلی اور معاملہ فہمی میں کمزوری کو خوب بیان کرتے ہیں ۔ اور یہی حال اِن حکمرانوں کا ہے، وہ تو ان ہی کو گلے لگا کر ٹھنڈ، سکون پاتے اور علم ومعلومات کے انہی خزانوں سے منور ہوتے ہیں جو پچھلے نکال دئیے جانے والے حکمران کی گود میں ہوتے ہیں اور پھر ٹھنڈی آہیں بھر کر نکالے گئے حکمران کی کمزوریاں بیان کررہے ہوتے ہیں۔ ایک غیرسیاسی اور غیرجمہوری سیاسی اور پسماندہ ریاستی ڈھانچے ہی میں ایسا ممکن ہے۔ ایک جدید سیاسی ڈھانچے اور حقیقی جمہوری اقتدار اور حقیقی جمہوری جماعت کے ڈھانچے میں ایسا ممکن نہیں۔
ہمارے تمام سیاسی دربار، خوشامد کی مٹی سے اٹھے ہیں۔ اِن تمام سیاسی درباروں میں ’’ڈبل روٹیوں‘‘ میں ’’ڈبل مکھن‘‘ لگانے والے وہی ہیں جنہیں ہم دہائیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ آپ اسلام آباد کی کسی بھی صدر یا وزیراعظم کی پریس کانفرنس میں ایک ہی چہرے کی موجودگی کو اس ثقافت کی بھرپور نمائندگی کے حوالے کے طور پر لیں۔ جمہوری سلطان ہو یا آمر سلطان ، یہ صاحب پریس کانفرنس سے حج کے سفر میں حکمران کے پہلو ہی میں پائے جائیں گے۔ اور اسی طرح دربارِ حکمرانی میں انہی کو خلعت ملتی ہے جو گزرے دربار میں صاحب مشورہ ہوتے ہیں۔ ہماری حکمرانی چوںکہ عوامی نہیں، اس لیے ایسا ممکن ہوتاہے۔ عوامی حکمرانی میں دلیل، منطق، عوامی احتجاج شامل ہوتا ہے۔ سلطانی حکمرانی کا یہ ڈھانچا ’’خوش‘‘ کرنے پر بنایا گیا ہے۔ بادشاہ کے لیے خصوصی لباس تیار، ایسے ہی درباروں میں پیش اور کامیاب ہوتا ہے۔ اگر احتجاجی رہبر اور پاکستان کی قسمت بدلنے کے دعوے کرنے والے جناب عمران خان کو اقتدار دربار میں حکمرانی کا موقع مل گیا، یہی ’’منشی‘‘ پنسل کاغذ کے ساتھ اِن کے اردگرد آپ کو نظر آئیں گے۔ اقتدار کے اس خوشامدی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول رہبر کے اہم دست راست اور وزیر خزانہ جناب ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب The Mirage of Power کا مطالعہ بڑا مددگار ہے۔
اقتدار سے باہر کیے جانے سے مہینوں پہلے انہی درباری تجزیہ نگاروں کے کالم اور ٹیلی ویژن پر پیش کیے گئے تجزیوں کی ویڈیوز نکال کر دیکھ اور پڑھ لیں۔ وہ آپ کو یہ کہتے اور لکھتے نظر آئیں گے کہ ’’میاں نواز شریف، جنرل مشرف کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ڈکٹیٹروں کے راستے بند کررہے ہیں‘‘ اور اب وہ یہ کہتے نہیں تھکیں گے کہ ’’اوہ کاش میاں صاحب فوج کے ڈھانچے کو سمجھ جاتے ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہی ’’مرغِ سدابہار دانش ور‘‘ کچھ ماہ پہلے آرمی چیف اور وزیراعظم نوازشریف کے ’’ایک ہی Page پر کھڑے ہونے‘‘ کے دعوے کررہے تھے۔ ملٹری وسول لیڈرشپ تعلقات پر پل باندھ رہے تھے۔ اور اب یہ کہتے نظر آئیں گے، اوہ کاش! میاں صاحب، جنرل پرویز مشرف کو سبق سیکھانے کی کوشش نہ کرتے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخلص ہمدرد اہل فکر وقلم بھی اپنے انداز میں، پَل پڑو، سبق سیکھائو، ٹوٹ پڑو، جمہوریت مضبوط کرو، حساب لو، بلکہ پائی پائی آمرانہ اقتدار کا حساب لو، لکھ رہے تھے۔ وہ حکمرانی کے دربار میں اشرافیائی قیادت سے دراڑیں ڈالنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اشرافیائی قیادت کبھی حکمرانی کے دربار میں دراڑیں نہیں ڈال سکتی۔ ہماری اشرافیہ تو انہی درباروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اور وہ بھی پاکستانی اشرافیہ جو جنم ہی ریاست کی لوٹ مار کے سبب لیتی ہے۔ ہمارا صنعت کار یا اشرافیہ کا رئیس، کسی حقیقی صنعتی جمہوریت کے سرمایہ دار کی طرح راتوں کو مزدوری کرکے سرمایہ دار بننے کی داستان نہیں رکھتا،ہمارا سرمایہ دار تو ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ اور ریاست کے وسائل کو لوٹنے کے خاص طریقوں اور ریاست کے درباروں کی طاقت سے کیے گئے فیصلوں سے سرمایہ دار بنتا ہے۔ بھلا اپنا ہی پیداکردہ کیسے بغاوت کرسکتا ہے اور اگرکرے تو یہ اس کا خواب ہے۔ حکمرانی کے یہ ایوان تو جمہور کی اجتماعی جدوجہد وفکر سے ٹوٹتے ہیں۔ اور وہ جو ٹوٹ پڑو، پل پڑو، گرا دو، کی ہلاشیری دیتے ہیں، بڑے ہی معصوم ہیں۔ کاش وہ ریاست کے، عسکر کے ڈھانچے کی بُنت کا ادراک رکھتے۔ ہمارے اقتدار کا حال اس قیمہ بنانے والی مشین کا ہے، اس میں جس بھی جانور کا گوشت ڈالو، قیمہ ایک ہی ذائقے کا نکلے گا۔ تیتر ڈالو، قیمہ تب بھی بڑے گوشت کا، یا بٹیر ڈال دو، تب بھی۔
میاں نوازشریف اب واقعی دل ہار چکے ہیں۔ دل ہارا رہبر تو رہبری کرنے سے آہستہ آہستہ دُور چلنے لگتا ہے۔ فاتح عالم سکندر مقدونی کی فوج دل ہار گئی تو درحقیقت جنگ ہار گئی۔ یورپ میں قصے کچھ اور مشہور کردئیے، لیکن حقیقت میں سکندر، پورس کے ہاتھوں شکست کھاگیا۔
“