پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا موضوع دہائیوں سے اپنی جگہ موجود رہا ہے۔ موجودہ نواز حکومت سے لے کر 1985 میں جونیجو حکومت بننے تک یہ موضوع سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں کھل کر زیر بحث ہے۔ اس سے پہلے یہ معاملہ موجود تو تھا لیکن ایسے اہم موضوع پر کھلی بحث کم کم ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔
اس کی دو وجوہات تھیں، ایک صحافت اور سیاست میں اس قدر کھلا پن ابھی اپنے جنم کے آغاز میں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ سیاسی وصحافتی حلقوں کے تجربات بھی محدود تھے۔ جبکہ پاکستان میں ایک بڑا سیاسی وصحافتی حلقہ عسکری قیادت سے سیاسی معاملات کے خواب تلاش کرتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی پہلی سیاسی منتخب حکومت کے دوران یہ رویہ عروج پرتھا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی وصحافتی حلقے نے کھل کر عسکری قیادت کو سپورٹ کیا۔ کیوں کہ ان کو یقین تھا کہ جنرل ضیا ایک نجات دہندہ ہے۔ اُن کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس نے ایک منتخب حکومت کو توڑا، آئین معطل کیا، سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا، سیاسی سرگرمیاں ممنوع قرار دے دیں اور ایک منتخب وزیراعظم کو سولی پر چڑھا دیا۔ اس طبقے نے جنرل ضیا میں وہ نجات دہندہ تلاش کیا جس کے لیے وہ عرصے سے سرگرداں تھے۔ ایک مردِ مومن اور مردِ حق کی تلاش۔ جب جنرل ضیاالحق نے اپنی سرپرستی میں محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی اور جمہوریت بحال کرنا شروع کی تو پاکستان کی سیاست ایک نئے تجربے سے آشنا ہونا شروع ہوئی۔
جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کی قیادت میں محدود جمہوریت بحال کی جن کی حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اس کے بنانے والے جنرل ضیا نے ڈھا دی۔ وزیراعظم جونیجو کی حکومت اور سیاسی ڈھانچے کو گرانے کے بعد اس طبقے نے یہ سبق سیکھنا شروع کردیا جو عسکری قیادت سے ہمالہ سے بلند سیاسی معاملات کی توقع لگائے بیٹھے تھا۔ اس کے بعد بے نظیر۔ نوازشریف تصادم میں سیاست ایک ایسے دائرے میں داخل ہوئی جہاں ہم پہلے موجود عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کے تناؤ کو ایک نئے انداز میں دیکھنے لگے۔ براہِ راست فوجی مداخلت کی بجائے دو سیاسی دھڑوں میں سے ایک سیاسی دھڑے کو ملٹری لیڈرشپ کی سپورٹ ملی، جسے آئی جے آئی کی شکل میں دیکھا گیا۔ لیکن تاریخ کی جدلیات ازخود جنم لیتی ہیں۔
یہ سیاسی محاذآرائی آہستہ آہستہ اس Proxy Support سے نکلنا شروع ہوئی جس میں نواز حکومت کی پہلی بے دخلی اور پھر نواز حکومت کی دوسری بے دخلی جو فوجی قیادت میں برپا ہوئی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں نواز حکومت کو برطرف کیا، ان پر مقدمات بنے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر انہیں جلاوطن کردیا گیا۔ اس سیاسی وصحافتی حلقے کے لیے یہ ایک بہت بڑا سبق تھا جو کبھی عسکری قیادت میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ ، ’’بنیادی جمہوریت‘‘ اور نظریہ پاکستان کی تکمیل کا خواب دیکھتے تھا۔ اس دوران جہاں نوازشریف اور ان کے گرد سیاسی لوگوں نے سبق سیکھا، وہیں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اس نتیجے پر پہنچیں کہ سیاسی قوتوں کی باہمی کشمکش کا فائدہ سراسر فوجی قیادت کو ہوتا ہے۔ اسی لیے دونوں جماعتوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔ گو اس سارے عرصے میں سیاسی وعسکری تعلقات میں بڑی کشمکش تو نظر آئی لیکن ایک بات طے ہے کہ تمام سیاسی قیادت نے اپنے تجربات سے سیاسی کھیل کے وہ گُر سیکھ لیے جو اُن کو پہلے نہیں آتے تھے۔
نواز حکومت جب 2013 میں برسراقتدار آئی تو سول ملٹری تعلقات، پاکستان کی سیاست اور صحافت کا ایک اہم موضوع تھا۔ اس حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ سیاسی حکومت کے لیے حکمرانی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہوا۔ بڑے بڑے تجزیہ نگار اپنی کم علمی یا ذاتی مفادات کے لیے یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ ابھی نواز حکومت گئی، بس چند ہفتوں کی بات ہے۔ آج نواز حکموت کو چار سال ہوگئے۔ تمام تر بالواسطہ کوششوں کے باوجود نواز حکومت قائم ہے۔ میرا موضوع یہ نہیں کہ نواز حکومت نے ملک وقوم کے لیے کتنے اچھے کام کیے اور کہاں کہاں نااہلی دکھائی، میرا موضوع صرف اس حکومت کو ملنے والے انتخابی مینڈیٹ کے ذریعے حکمرانی کا حق اور وزیراعظم نوازشریف کی سیاست کے اس پہلو کا تجزیہ کرنا ہے کہ کیا وہ سول ملٹری تعلقات کے اس تنازع کی Dynamics کو سمجھ پائے ہیں کہ نہیں اور اگر سمجھ پائے ہیں تو اپنی حکومت کو قائم ودائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
چند روز قبل پاکستان کے معروف سیاست دان ایس ایم ظفر نے چند دوستوں کو کھانے پر بلایا، جہاں مختلف سیاسی موضوعات زیربحث رہے۔ وہاں میں نے یہ عرض کیا کہ نوازشریف نے بڑی کامیابی سے اُن سیاسی چالوں کو ناکام بنایا ہے جو اُن کی منتخب حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں جن کو سول ملٹری لیڈر شپ کے تعلقات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔ اور یوں نوزشریف نے نہایت تدبر سے اُن کوششوں کو ناکام بنایا ہے جو 2013 کے انتخابات کے فوراً بعد اُن کی حکومت کو گرانے کے لیے شروع ہوگئی تھیں۔ اور یوں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نوازشریف، پاکستان کی حکمرانی کی سیاست کی Dynamics اور State Craft کو بہت حد تک جان گئے ہیں۔ اب ایک سال انتخابی مہم کا ہے۔ اس دوران جو بھی ہوگا اس کا مثبت اثر اُن کی سیاست پر ہوگا۔ وہ اس ایک سال میں حکومت سے بے دخل کر دئیے جائیں یا رہیں۔
نوازشریف نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کا کھیل ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو انہوں نے پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں سیکھا ہے۔ میرا آج کا یہ موضوع اہم نہیں کہ اُن کی حکومت نے عوامی فلاح وبہبود، ترقی، خوش حالی، معیشت کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ میرا موضوع حکمرانی کا حق اور نوازشریف کا سول ملٹری تعلقات سے Survive کرجانا ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اُن کی حکومت پر تنقید، تجزیہ بالکل مختلف موضوع ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ سول ملٹری تعلقات کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاست میں فوجی مداخلت ملک وقوم کے لیے کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ اس سارے تجزیے کے بعد اب ہم اگلے ایک سال میں اس نوازشریف کے مزید داؤپیچ دیکھنے کے لیے بے چین ہیں جس نے حکمرانی کی سیاست اور سول ملٹری تعلقات کی Dynamics کے کافی راز پا لیے ہیں۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“