پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جدو جہد آزادی جمہوریت کے درخشندہ باب کا جب بھی تذکرہ ہو گا ایک ہی نام ہے جس پر ہر سیاستدان بلا چون و چرا متفق نظر ئے گا اور وہ نام جو پاکستان کی حزب اختلاف کا اہم ہی نہیں سب سے بڑا ستون تھا۔ اس بڑے نام سے تاریخِ پاکستان کی پہلی، دوسری اور شایدتیسری جنریشن بھی بخوبی آگاہ ہو۔یہ اسم ِ گرامی سب کے محترم مرحوم و مغفورنواب زادہ نصر اللہ خاں ناصرؔ کاہے۔ آپ کا شمارتحریک آزادی پاکستان کے عظیم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔مجلسِ احرار کے سیکرٹری جنرل بھی رہے اور بعد ازاں پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے تادم مرگ سربراہ رہے؛ لیکن گزشتہ انتخابات میں ناعاقبت اندیشوں نے اس عظیم انسان کی محنت رائیگاں کردی جب اس پارٹی کو ایک دوسرے سیاسی گروپ میں ضم کر دیا۔نواب زادہ نصر اللہ خاں کا یہ طرہ امتیاز رہا کہ انہوں نے سا ری زندگی اصولوں کی سیاست کی اورنظریات پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور مضبوط جمہوری سسٹم کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
نوابزادہ نصراللہ خاں 13نومبر 1916ء میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے اور27ستمبر2003 ء کو اس دنیائے فانی سے عالمِ ابد کو سدھار گئے۔ان کا تعلق ملتانی پٹھانوں کی نورزئی شاخ سے تھا اور ان کے آبا و اجداد اٹھارویں صدی میں مظفر گڑھ کے علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔ مظفرگڑھ سے تقریبا بیس کلومیٹر دور خان گڑھ کے علاقہ میں نوابزادہ کا آبائی گھر اور زرعی زمین واقع ہے۔قیامِ پاکستان سے قبل انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ کے والد سیف اللہ کو1910ء میں نواب کے خطاب سے نوازا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے؛ لیکن نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کی بجائے اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا۔ انھو ں نے1933ء میں طالب علم کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلاء تھا۔قیام پاکستان کے بعد نصراللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے اور انھوں نے1951ء کے صوبائی انتخابات میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصراللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہو گئے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نوبہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں 1953 ء میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان میں پہلی بار فوج کو استعمال کیا گیا۔1956 ء میں پاکستان کا پہلا دستور بنا تو نصراللہ خان اس کو بنانے والی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے؛ لیکن اس کے تحفظ کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان نے1958 ء میں آمریت قائم کی تو نصراللہ خان کی سیاست کا سب سے سرگرم دور شروع ہوا۔ وہ اس وقت تک عوامی لیگ میں شامل ہوچکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے۔
نصراللہ خان1962 ء کے بالواسطہ انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) وجود میں آیا۔ وہ اس اتحاد کے کنوینر تھے اور ایوب خان کے بالواسطہ انتخاباتی نظام کے خلاف1956ء کے آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
1965 ء کے صدارتی انتخاب میں میں نصراللہ خان نے بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ گو فاطمہ جناح ایک متنازع انتخابات میں ہار گئیں اور نصراللہ خان کو بھی قومی اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔
نواب زادہ نصراللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کر لیا تھا لیکن ایوب خان کی آمریت کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل کے اتحاد میں جمع کر لیا جس کی عوامی مہم کے دباؤ میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کی۔
نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا وہ مرتے دم تک ان کی پہچان بن گیا اور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کے ماہر بن گئے۔ انھوں نے انھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حزب مخالف کی سیاست کی جن کی حکومتوں کوگرانے کا وہ باعث رہے۔ ان کے حامی انھیں بابائے جمہوریت کہتے تھے اور ان کے مخالفین کہتے تھے کہ وہ جمہوریت کے دور میں مارشل لگوانے کے لیے اور مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔
1970 ء کے انتخابات میں نصراللہ خان نے غلام مصطفے کھر کے ہاتھوں دو حلقوں میں شکست کھائی؛لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی انھو ں نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں حزب مخالف کو متحد کر لیا اور1977ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے سامنے نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دے دیا۔قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزام کے خلاف تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا کے مارشل لا کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد ہی نصراللہ خان نے پیپلز پارٹی کو اس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھا کر ضیاالحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی جس نے جنرل ضیا الحق کے خلاف1983 ء میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر فوجی رہنما کو ریفرنڈم کرانے اور1985ء کے انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا۔نصراللہ خان کی اتحادی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری ادوار میں بھی چلتی رہی۔ انھوں نے پہلے بے نظیر بھٹو کی 1988ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو گرانے کے لیے کمبائنڈ اپوزیشن یا کوپ کے نام سے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر کی حکومت کو صدر اسحاق خان نے رخصت کر دیا تو1990ء کے انتخابات کے بعد بننے والی نوازشریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی سے مل کر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت واحد حکومت تھی جس میں نصراللہ خان نے حکومت میں شمولیت کی اور حزب اختلاف سے دور رہے۔ وہ اس دور میں قومی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین بنے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو نصراللہ خان ایک بار پھر نئے انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے۔
12اکتوبر کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نصراللہ خان کا بڑا کارنامہ دو دائمی حریفوں بے نظیر بھٹو او نواز شریف کو بحالی جموریت کی تحریک (اے آر ڈی) میں اکٹھا کرنا تھا۔
نصراللہ خان نے اپنے لیے حزب اختلاف کے رہنما کا کردار چنا اور پچاس سال سے زیادہ اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور فصیح گفتگو کرتے تھے۔ ان کی آواز بھاری اور دل آویز تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں جا بجا بر محل شعروں کا استعمال کرتے اور ان کے منہ سے اپنے بدترین مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی۔
نصراللۃ خان لاہو رمیں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آیا کرتے تھے۔ مجھے بھی زندگی میں دو بار ان سے ملاقات شرف حاصل رہا۔ ایک مرتبہ ان کے دفتر میں اور دوسری مرتبہ جے یوپی کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔اپنے پچپن سال کے سیاسی کیریر میں نصراللہ خان عوام کے مقبول رہنما تو شاید نہیں بن سکے؛لیکن وہ رہنماؤں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔
نوابزادہ نصر اللہ خاں لاجواب شاعر بھی تھے۔ان کی زبان مین لوچ اور احتجاج کا عنصر نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محض دعاؤں پر زندگی بسر کرنے کے قائل نہ تھے بلکہ حقیقی جد وجہد اور عمل ِ پیہم پر چلنے پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
آمریت کے دور میں ان کی زبان اور قلم یعنی تحریر وتقریر دونوں خوب چلتے تھے۔ چنانچہ ضیاالحق کے مارشل دور میں ان کی یہ شعری کاوش ہر ایک کی زبان پر تھی۔ دیکھیے کس جرأت اور بہادری سے ضیاالحق کو للکارا:
کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں
جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں
کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں
یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں
یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں
بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں
آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں
اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصرؔ
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں
نواب زادہ نصراللہ کی یہ صدائے احتجاج مقبول شاعرحبیب جالبؔ کو اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے اس مضمون کو نئی بحر میں باند ھ ڈالا۔جب حبیب جالبؔ نے محولہ نظم لکھی تو نصراللہ خاں ناصرؔ کی نظمیہ غزل انہی کے نام میں بہہ گئی تاہم حبیب جالب ؔقابلِ ستائش ہیں کہ انہوں نے ناصرؔ کی شاعری پر اپنی چھاپ نہیں لگائی بلکہ اپنی جداگانہ پیرائے میں نظم لکھ کر ناصرؔ نہ نواب زادہ نصر اللہ خاں کے احتجاجی پیغام مہرِ تصدیق ثبت کی بلکہ ان کا نام بھی ان کی اس نظم کی بدولت ممتاز شعرا ء میں شامل ہو گیا۔
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردہئ شب، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواب زادہ نصر اللہ خاں جیسی معبر شخصیات مدتوں قوموں کی تاریخ میں یاد رکھی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے گناہِ کبیرہ وصغیرہ سے در گزر فرمائے اور جنت الفردوس انہیں بلند مقام عطافرمائے۔آمین!