ہر برس کی طرح امسال بھی بلوچ اور بلوچستان کے عظیم رہنما نواب یوسف عزیز مگسی کی برسی کے موقع پر ان کو خصوصی طور پر خواہ رسمی طور پر تحریر اور مضامین وغیرہ کے ذریعے ان کو بہرحال یاد کیا گیا اور خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ گوکہ جو ان کا مقام اور مرتبہ اور ان کی سیاسی، علمی اور فلاحی و سماجی خدمات ہیں ان کے تقاضوں کے مطابق کچھ بھی نہیں کیا گیا لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونے کے مصداق انہیں کسی طرح اور کسی لحاظ سے یاد تو رکھا گیا ۔ لیکن مجھے دکھ اس بات پر ہے کہ نواب یوسف عزیز کو نواب کی بجائے میر لکھا گیا اور اکثر میر ہی لکھا جاتا ہے اور ان لکھنے والوں میں ہمارا قلمکار طبقہ ہی شامل ہے اور مجھے یہ بھی پریشانی ہوتی ہے کہ ایسے احباب جو نواب صاحب کو میر لکھتے ہیں کیا وہ نواب اور میر کے مقام اور مرتبے اور تقاضوں سے کچھ آگاہ بھی ہیں یا نہیں ۔
نواب یوسف عزیز کو نواب کی بجائے میر لکھنے والے حضرات سے میرا یہ سوال ہے کہ اگر یوسف عزیز نواب نہیں تھے تو اس دور میں مگسی قبیلے کا سربراہ یعنی نواب کون تھا تاکہ مجھ سمیت دیگر لا علم خواتین و حضرات کو معلوم ہو سکے ۔ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ میں نوابی یا سرداری اور جاگیردارانہ نظام کا حامی ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ جس مقام اور مرتبے کے تقاضے ہوتے ہیں ان کو پورا کیا جائے اور مجھے یوسف عزیز صاحب کو نواب کی بجائے میر لکھنے والوں سے یہ عرض بھی کرنا ہے کہ کیا یہ صاحبان نواب ذوالفقار علی مگسی کو نواب کی بجائے میر لکھنے کی جسارت کریں گے اور یہ لوگ نواب ثناء اللہ زہری کو نواب کی بجائے میر ، نواب محمد اسلم رئیسانی کو نواب کی بجائے میر اور سردار یار محمد رند کو سردار کی بجائے میر لکھنے کی جسارت کریں گے؟ مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ایسی جسارت اور ایسی گستاخی نشے اور مدہوشی کی حالت میں بھی نہیں کریں گے یہ لوگ اگر ایسا کر دکھائیں تو میں ناچیز کوئٹہ کے مٹھا چوک پر کھڑے ہو کر ان کی جرئت کو سلام اور خراج تحسین پیش کروں گا ۔ نواب ذوالفقار علی مگسی ہو یا نواب ثناءاللہ زہری نواب اسلم رئیسانی ہو یا سردار یار محمد رند یہ سب نہایت قابل احترام شخصیات ہیں ان کو نواب اور سردار اس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے اپنے قبیلے کے سردار اور سربراہ ہیں ۔ بلوچوں کے قبائلی نظام اور رسم و روایات کے مطابق جب بھی کسی شخصیت کو اپنے قبیلے کا سربراہ وہ نواب ہو یا سردار مقرر یا منتخب کیا جاتا ہے تو اس کے قبیلے کے بیسیوں میر اور رئیس، ٹکری یا مقدم اپنے قبیلے کے سردار کی سرداری اور سربراہی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں اور ان کی دستاربندی کی رسم یا تقریب میں شریک ہوتے ہیں اور اس تقریب میں دیگر قبائل کے نواب اور سردار بھی خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں اور سرداری یا نوابی کی رسم ادا کرتے ہیں جبکہ نواب یوسف عزیز مگسی فقط اپنے قبیلے کے سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ پوری بلوچ قوم کے تمام قبائل بلکہ بلوچستان کے دیگر قبائل کے لیے بھی ایک سیاسی قائد کے طور پر قابل احترام تھے اور آج بھی ان کا وہی احترام، مقام اور مرتبہ قائم ہے اور ان کی انقلابی سوچ و فکر ،جدوجہد اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے یہاں تک کہ برصغیر کے عظیم سیاسی اور انقلابی رہنما، شاعر و صحافی اور دانشور مولانا ظفر علی خان نے بھی نواب یوسف عزیز مگسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی تعریف اور توصیف میں اشعار کہے تھے۔ اس لیے میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ یوسف عزیز مگسی کو نواب کی بجائے میر لکھ اور کہہ کر ان کے چاہنے والوں کی دل آزاری نہ کریں ان کے میر لکھنے سے نواب صاحب کی عزت اور احترام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ خود ان کی عزت اور قابلیت کے حوالے سے سوال ضرور پیدا ہوگا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...