پاکستان کی تاریخ میں صرف ایسے 2 نواب پیدا ہوئے جن کو بلاشبہ دبنگ شخصیت کا مالک کہا جا سکتا ہے ایک امیر محمد خان اعوان نواب آف کالا باغ اور دوسرے نواب محمد اکبر خان بگٹی ۔ یہ اور بات ہے کہ آج کل خوشامد پسند صحافی اور سوشل میڈیا کے لکھاری ہر ایرے غیرے کو 500 اور 1000 روپے کے لالچ میں دبنگ کا خطاب دے ڈالتے ہیں ۔ اس طرح دبنگ کا لفظ ایسی بے توقیری پر شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوگا ۔ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان اور نواب اکبر خان بگٹی کی شخصیت میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں حضرات سخت گیر مزاج کے مالک اور کبھی نہ جھکنے والے تھے۔ ایک شخصیت کے بارے میں تو مجھے ذاتی طور پر پر معلوم ہے کہ وہ نعوذ بااللہ خدا کے آگے بھی نہ جھکتے تھے ۔ دونوں شخصیات خود کو خدا کے بعد اس زمین کا طاقتور ترین شخص سمجھتے تھے۔ کہتے ہیں جو لوگ لچک نہیں رکھتے وہ ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اور ان دونوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ یہ اپنے موقف اور اپنے وضع کردہ اصولوں پر ڈٹ گئے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ دونوں غیر طبعی موت مارے گئے ۔ اور ان دونوں کی نماز جنازہ میں چند افراد کے سوا کوئی شریک نہیں ہو سکا ۔ اس کی وجہ لوگوں میں خوف اور لاتعلقی تھی کہ شاید ان کی نماز جنازہ میں شرکت سے کوئی ناراض نہ ہو جائے ۔ نواب اکبر خان بگٹی کے تابوت کی نماز جنازہ اور تدفین کا عبرتناک منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا جس میں 10 سے بھی کم افراد شامل ہو سکے تھے۔
نواب آف کالا باغ کی جنرل ایوب خان سے دوستی تھی اور نواب اکبر خان بگٹی کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی تھی ( یہ اور بات ہے کہ نواب اکبر بگٹی کسی کو دوست نہیں مانتے تھے وہ ارسطو کے اس قول کے قائل تھے کہ دنیا میں کوئی کسی کا دوست نہیں اس لیئے نواب اکبر بگٹی کہتے تھے کہ میرا دوست کوئی نہیں ہے البتہ واقف کار بہت ہیں ) اتفاق سے یہ دونوں نواب، گورنر کے منصب پر فائز ہو گئے ۔ فیلڈ مارشل صدر جنرل ایوب خان نے نواب کالاباغ کو اپنی وفاقی کابینہ میں وزیر بنانا چاہا تو نواب کالاباغ نے جنرل ایوب خان کی پیش کش کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میں وزیر بن کر دو ٹکے کے ارکان اسمبلی کو ان کے فضول سوالات کے جوابات دینے کا قائل نہیں ہوں ۔ چنانچہ صدر ایوب خان نے نواب کالاباغ کو ون یونٹ کے دوران مغربی پاکستان کا گورنر بنا دیا ۔ نواب آف کالا باغ اور نواب اکبر خان بگٹی اپنی مونچھوں کو ہمیشہ تائو دیتے رہتے تھے ان کے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ ان کی بات اور فیصلہ کی مخالفت اور انکار کی جرئت کسی میں نہیں ہوتی تھی ۔ نواب آف کالا باغ الیکشن کے دوران اپنے علاقے کی نمائندگی کے لئے امیدواروں کا اعلان کر دیتے تھے بس وہی منتخب ہو جاتے تھے اور نواب اکبر خان بگٹی کا طریقہ کار بھی یہی تھا ۔ ان کی جمہوری وطن پارٹی میں بہت سے بلوچ سردار بھی شامل تھے لیکن نواب اکبر خان بگٹی جو فیصلہ سناتے تھے وہ حرف آخر ہوتا تھا ان بلوچ سرداروں میں سے کسی کو ان کے فیصلے کی مخالفت کی جرئت نہیں ہو سکتی تھی ۔
نواب آف کالا باغ کے گورنر مقرر ہونے سے مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے عوام پر ظلم اور جبر کا دور شروع ہو چکا تھا کسی سیاست دان کسی صحافی اور کسی سیاسی کارکن کی حق اور سچ بات کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا ۔ حق اور سچ بات کرنے والوں کی شامت آ جاتی تھی ۔ حق بات کرنے پر نواب آف کالا باغ نے اپنے ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبدالستار خان نیازی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔ یہی صورتحال نواب اکبر خان بگٹی کے گورنر بلوچستان بننے سے ہوئی تھی ۔ ان کے گورنر بنتے ہی ضلع کوہلو میں مری قبیلے کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا جس میں مری قبیلے کے ہزاروں افراد مارے گئے تھے ۔ نواب آف کالا باغ نے صدر ایوب خان سے اختلاف پیدا ہونے کے باعث گورنر شپ سے استعفی دے دیا تھا اور اسی طرح نواب اکبر خان بگٹی بھی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر ذوالفقارعلی بھٹو سے اختلافات کے باعث گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے ۔ نواب اکبر خان بگٹی 1989 میں بلوچستان کے وزیر اعلی بھی منتخب ہوئے تھے ۔ نواب اکبر خان بگٹی سے ایک بار صحافیوں نے سوال کیا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخاب میں آپ کا جھکاؤ کس کی طرف ہے تو نواب بگٹی نے دوٹوک جواب دیا کہ ہم جھکتے نہیں ہیں بلکہ کسی کی حمایت یا مخالفت کیا کرتے ہیں ۔ نواب اکبر خان بگٹی اپنے خاندان کے افراد کی شادیوں کے موقع پر ان کے نکاح خود پڑھا کرتے تھے ۔ نواب آف کالا باغ کو 16 نومبر 1967 کو ان کی بہو اور بڑے بیٹے ملک اللہ یار خان کی بیوی نے خود نواب آف کالا باغ کو اس کی بندوق سے فائر کر کے قتل کر دیا جب وہ اپنے گھر میں اخبار پڑھنے میں مصروف تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نواب آف کالا باغ کی وہ بہو ماڈرن قسم کی فیشن ایبل لڑکی تھی جس کو نواب آف کالا باغ نے پردے میں رہنے اور مناسب لباس پہننے کی سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی جب وہ نہ مانی تو نواب کالاباغ نے اس کو تھپڑ مارا تھا جس کا بدلہ اس کی بہو نے اپنے شوہر کے تعاون سے اس طرح لیا کہ نواب آف کالا باغ کو دھوکے سے خود ان کی ہی بندوق سے قتل کر دیا گیا سمیرا ملک اور عائلہ ملک نواب آف کالا باغ کی پوتیاں ہیں اور یہ ان کی قاتلہ بہو کی بیٹیاں ہیں سمیرا ملک 4 شادیاں کر چکی ہے ۔اور عائلہ ملک 3 شادیاں کر چکی ہے ۔ نواب اکبر خان بگٹی کا انجام بھی قتل کی صورت میں ہوا کہ وہ 26 اگست 2006 کو ضلع کوہلو کے ایک پہاڑی سلسلے میں قتل کر دیئے گئے تاہم آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ قتل کس طرح ہوئے ۔
نواب آف کالا باغ اور نواب اکبر خان بگٹی دونوں ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود اصول پرست واقع تھے ان پر کبھی مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا ۔ ایک بار سابق صدر اسکندر مرزا اپنی بیوی کے ہمراہ نواب آف کالا باغ کے گاوں کالا باغ گئے انہوں نے اپنی اہلیہ کو نواب آف کالا باغ کے گھر بھیجنا چاہا تو نواب کالاباغ نے منع کر دیا اور کہا کہ ہماری خواتین پردہ دار ہیں اور آپ کی بیوی بے پردہ ہے ۔ ایک بار محترمہ بینظیر بھٹو نواب اکبر خان بگٹی کے فرزند سلال بگٹی کے قتل پر تعزیت کے لئے نواب اکبر خان بگٹی کے پاس گئیں تو نواب بگٹی نے محترمہ بینظیر سے تعزیت لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے گھر بھیج دیا کہ ہم بلوچ مرد خواتین سے تعزیت اور فاتحہ نہیں لیتے ۔ ایک بار نواب آف کالا باغ نے گورنر کی حیثیت سے نواب اکبر خان بگٹی سے کہا کہ وہ مچھ جیل میں قید چوہدری ظہور الاہی کو قتل کروا دے تو نواب بگٹی نے دوٹوک جواب دیا کہ یہ ہماری بلوچی روایات کے خلاف بات ہے اور نواب بگٹی نے چوہدری الاہی کی مکمل حفاظت کی ۔ نواب اکبر خان بگٹی کا اپنے قبیلے کے ایک اہم رہنما میر خان محمد کلپر بگٹی سے بڑا یارانہ تھا اور اسی طرح نواب آف کالا باغ کا ملک احمد خان مجوکہ سے یاری تھی ملک احمد خان مجوکہ معروف شاعرہ، ادیبہ اور وکیل محترمہ مینال مجوکہ کے دادا محترم تھے۔ نواب آف کالا باغ کی وفات کے بعد وہ نوابی نہیں رہی محض نام کے کئی نواب بن گئے ہیں اور اسی طرح نواب اکبر خان بگٹی کی وفات کے بعد بگٹی قبیلے کے بھی کئی نواب بن گئے ہیں لیکن حقیقی نواب کوئی نہیں رہا کہ جس پر بگٹی قبیلہ متفق ہو ۔